شاعرِ مشرق کے حیات و افکار۔طارق محمود مرزا کی نظر میں
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
دیباچہ : شاعرِ مشرق کے حیات و افکار۔طارق محمود مرزا کی نظر میں ٭ ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں میں اردو دس بڑی زبانوں میں شامل ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ایسا ہوگا جہاں کوئی اردو بولنے والا نہ ہو۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اردو عالمی سطح پر رابطہ کی زبان ہے۔ جہاں جہاں اردو بولی، سمجھی جاتی ہے وہاں وہاں اردو کے شاعر اور ادیب نہ ہوں یہ بھی ممکن نہیں۔ اسی طرح دنیا میں شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جہاں پراقبال کے چاہنے والے اور اقبال شناس موجود نہ ہوں۔دیارِ غیر میں رہنے والے ادیب زیادہ چاہت، زیادہ دلچسپی،زیادہ ذوق و شوق سے ادب کی ترویج اور ترقی میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، کنیڈا، جرمنی،فرانس، یونان کا شہر ایتھنز،ترکیہ، سعودی عرب و دیگر عرب ممالک،روس، آسٹریلیا اور دیگر کئی ممالک میں مقیم پاکستانی اردو ادب کی جو خدمت کر رہے ہیں وہ قابل تعریف ہے۔ مصنف کاوطنِ ثانی آسٹریلیا کا شہر سڈنی ہے۔آسٹریلیا کے مختلف شہروں میں اردو زبان و ادب اور اقبال شناسی کے فروغ میں متعدد اہل ادب سرگرم عمل ہیں ان میں اشرف علی شاد، ظفر حسین، ریحان علوی، میاں ساجد اقبال، مصدق لاکھانی، میسم لاکھانی، ڈاکٹر الیاس شیخ، وحید قندیل،ڈاکٹر عزیز الرحمن،معروف شاعر و ادیب ڈاکٹر محسن علی آرزوبھی ایڈیلید کے باسی ہیں۔ایڈیلیڈ کومیرے عزیز دوست، اقبال شناس افضل رضوی اور ان کی بیگم سیدہ ایف گیلانی نے آباد کیا ہوا ہے، وہ دونوں ہی ادب اور اقبال شناسی میں سرگرمِ عمل ہیں، افضل رضوی کی تحقیق ’دَربرگِ لالہ و گل (کلام اقبال میں مطالعہ نباتات“ اقبال شناسی پر خوبصورت معلومات کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب دو جلدوں میں شائع ہوچکی ہے۔جہاں تک شاعروں کا تعلق ہے وہ بڑی تعداد میں آسٹریلیا کے باسی ہیں اور اردو کی ترویج و ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔حال ہی میں اردو کی اہمیت کے حوالہ سے ایک خبر سوشل میڈیا پر سامنے آئی کہ اردو کو اب اقوام متحدہ کی سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔پہلا موقع ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا پیغام ”انسانی حقوق کا عالمی منشور“ اردو زبان کے ترجمے کے ساتھ بھی جاری ہوا۔ ایک رپورٹ کے مطابق اب تک اقوام متحدہ کی جانب سے 6 زبانوں انگریزی، عربی، چینی، فرانسیسی، روسی اور ہسپانوی زبان کو عالمی زبان ہونے کا درجہ حاصل تھا۔اب اس میں اردو زبان بھی شامل ہوگئی ہے۔ بات شاعروں، ادیبوں کی ہو، تو شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال چاہتوں کی اولین منزل پر نظر آتے ہیں۔اقبال نے پاکستان کاخواب دیکھا جسے قائداعظم اور دیگر مسلمان اکابرین نے حقیقت کا روپ دیا۔ اقبال قومی شاعر ہونے کا درجہ رکھتے ہیں۔وہ کسی بھی شاعر کو قوم کی رہنمائی کرنے والا تصور کرتے ہیں اور انہوں نے عملی طور پر اپنی شاعری کے توسط سے قوم کی رہنمائی کی۔ اقبال کی شاعری اور نثر پر متعدد تصانیف ہیں۔ اقبال کی شخصیت، شاعری، فلسفہ، فکر و نظریہ پر تحقیق کا عمل جاری ہے۔ ادیب اقبال کا اپنا موضوع بنانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال پر لکھنے والے تعداد کے اعتبار سے ہزاروں میں ہوں گے۔ ہر ایک نے اپنے نقطہ نظر اور سوچ کے مطابق اقبال کی شاعری اور نثر نگاری کو اپنا موضوع بنایا۔اقبال شناسوں کی تعداد کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا، یقینا یہ ہزاروں میں ہوں گے۔معروف مصنف اور اقبال شناس ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اپنے مضمون ”اقبالیات 2018ء:نئی کتب کا تعارف“ میں سرگودھا سے تعلق رکھنے والے ادیب اور اقبال شناس ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کی اقبال شناسوں کا احاطہ کرتی چند کتب کا تذکرہ کیا ہے۔یہ مضمون ماہ نامہ ”قومی زبان“ نومبر2018ء میں شامل ہے۔ ان کی ایک تصنیف ”چند اہم اقبال شناس“ میں تقریباً 60 ہم عصر ادیبوں اور اقبال شناسوں کی اقبالیاتی کاوشوں کو متعارف کرایا گیاہے۔ ان کی ایک اور کتاب ”عہدرفتہ کے ممتاز اقبال شناس“ میں 122ایسے اقبال شناسوں کا تذکرہ ہے جو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ اسی طرح ایک تصنیف ’اقبال شناس خواتین بھی ہے‘، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی بحیثیت اقبال شناس‘، ’ڈاکٹر سلیم اختر بحیثیت اقبال شناس‘ قابل ذکر تصانیف ہیں۔ڈاکٹر تبسم کا شکریہ کہ انہوں نے اپنی تصانیف کی فہرست ارسال فرمائی۔ڈاکٹر تبسم نے اقبال شناسی پر بہت کام کیا تاہم دیگر احباب نے بھی یقینا اس موضوع پر طبع آزمائی کی ہے۔ جرمنی کے خلیق خرم نے اقبال کی سوانح حیات کو چھ جلدوں میں مرتب کیا ہے۔ یونان کے شہر ایتھنز میں مقیم میرے دوست چودھری بشیر شادؔ ادب کے فروغ اور اقبال شناسوں میں شامل نہیں ہیں۔ پاکستان میں اس حوالہ سے بہت کام کیاجاچکا ہے اوربڑے پیمانے پر اقبال کی مختلف جہتوں پر مضامین، تصانیف اور جامعات کی سطح پر تحقیق کا عمل جاری و ساری ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؔ متعدد جہتوں کے مالک ہیں،و ہ بلندپائے کے شاعر،فلسفی،مدبر،مصلح،مفکر، سیاسی اور اسلامی موضوعات پر بھی دسترس رکھنے کے علاوہ، پاکستان کا خواب دیکھنے والے تھے۔ بلاشبہ وہ بیسویں صدی کی ایک عظیم شخصیت ہیں۔ اقبال پر لکھنے کا آغاز تو اقبال کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا۔ اقبالؔ کے دوست’مولوی احمد دین‘ نے اقبال کی بانگِ درا کی اشاعت سے قبل ہی اقبالؔ پر کتاب تحریر کی تھی۔ اقبال کا اپنا علمی سرمایہ مختلف موضوعات پر خاص طور پر شاعری میں معیار اور تعداد کے اعتبار سے مثالی ہے۔ ان کے نظریات، خیالات، فلسفہ اور شاعری کو ان کے بعد آنے والوں نے اپنا موضوع بنایا اور اقبال پر لکھنے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں اقبال شناس موجود ہیں اور وہ ادب کے فروغ کے ساتھ ساتھ اقبال شناسی کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ آسٹریلیا کو اس حوالہ سے خاص اہمیت حاصل ہے۔ آسٹریلیا میں اردو اور اقبال سے چاہت رکھنے والے کثیر تعداد میں موجود ہیں چند کا ذکر اوپر کیا گیا ہے ان میں ایک نام طارق محمود مرزا کا بھی ہے۔ وہ کئی تصانیف تحریر کرچکے ہیں ان میں سفرِ عشق، تلاشِ راہ،خوشبو کا سفر،دُنیا رنگ رنگیلی، یورپ کے چند ممالک کا سفر نامہ بعنوان’’ملکوں ملکوں دیکھا چاند“کے بعد اب مرزا جی کے قلم سے اقبال سے عقیدت اور محبت کا خوبصورت اظہار بعنوان”حیات و افکارِ اقبال“شاعرِ مشرق کے حیات و افکار کا اجمالی جائزہ قلم بند کیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل مرزا صاحب نے یورپ کا سفر نامہ ’ملکوں ملکوں دیکھا چاند‘ مجھے ارسال کیا تھا جس پر مَیں نے بساط بھر اظہار خیال کیا تھا۔ سفر نامہ سے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ مرزا جی کے قلم میں طاقت ہے الفاظ کو خوبصورت جملوں میں پرونے کی۔ مرزا جی کے اس سفر نامہ پر لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں پروفیسر ڈاکٹر خضرہ کی زیر نگرانی طالبہ آمنہ یا ست نے ایم فل مقالہ بھی تحریر کیا۔ اس سے قبل بھی طارق محمود مرزا کی شخصیت اور فن پر جامعہ کی سطح پر تحقیق ہوچکی ہے۔ طارق محمود مرزا کی تصنیف اقبال کے حیات و افکارِ پر سیر حاصل مواد فراہم کرتی ہے۔ وہ اقبال شناسوں میں سے ایک ہیں۔کتاب کا آغاز اقبالؔ کے حسب ذیل شعر سے ہوا ہے ؎ اوروں کاہے پیام اور میرا پیام اور ہے عشق کے درد مند کا طرزِ کلام اور ہے اگلا باب’اقبال کا فکری ارتقا‘ ہے۔ اقبال کی شاعری سے ان کی فکر کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اقبال اپنے سے پہلے کے اکابرین اورشاعروں جن میں سرسید احمد خان، الطاف حسین حالی،اکبر الہٰ آبادی کی شاعری اور مذہبی فکر سے متاثر تھے وہی ان کی فکر کی بنیاد بنی۔ اقبال نے ہندوستان کے مسلمانوں کو واضح الفاظ میں متبع کیا کہ سمجھ جاؤ ورنہ تمہارا وجود بھی مٹ جائے گا ؎ نہ سمجھوں گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستان والو تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں ’بیسویں صدی کا عظیم شاعر‘ اس عنوان کے تحت مصنف نے لکھا کہ ”اقبال زبان و ادب میں مکمل دسترس اور مہارت رکھتے تھے لیکن وہ عروض و زبان کی بحث سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے اور کہتے کہ مجھے محاورات اور قواعدِ فن کا پورا علم نہیں ہے۔ مگر حقیقت میں انہوں نے اُردو زبان کو وہ الفاظ و محاورات عطا کیے ہیں کہ اُردو ہمیشہ ان کی رہین ِمنت رہے گی۔ مگر انہوں نے اپنے فن ِشعر و سخن پر کبھی صاد نہیں کیا۔ وہ شعر کو صرف ذریعہ اظہار سمجھتے تھے“۔ فرماتے ہیں: فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا حرف تمنا جسے کہہ نہ سکیں رُوبرو اقبال کا اعلیٰ تعلیم کے لیے سفرِ یورپ، یورپ میں قیام اور واپسی کی داستان بیان کی گئی ہے،مصنف نے اپنی تصنیف میں اقبال کے خانگی مسائل پر بھی بات کی ہے، اقبال کی شادیاں اور دیگر خانگی مسائل زیر بحث لائے گئے ہیں۔اقبال کو اپنی والدہ محترمہ کے انتقال کا شدید تاسف تھا۔ انہوں نے9 نومبر1914 ء کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ والدہ کے انتقال پر اقبال نے ایک نظم لکھی ”والدہ مرحومہ کی یاد میں“ جو بعد میں ’بانگِ درا‘کی ذینت بنی۔اس نظم کا مقطع بہت مشہور ہوا ؎ آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبزہِ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے اقبال کی شاعری کا زیر بحث آنا ہر صورت میں لازمی تھا۔ مصنف نے لکھا کہ علامہ اب مسلسل ایسی ایسی نظمیں اور غزلیں منصہ شہود پر لا رہے تھے جو ادب عالیہ کا تابناک حصہ ہیں۔ شکوہ، جواب شکوہ، یا ربّ دلِ مسلم کو زندہ تمنا دے، نگاہ عشق کی دیکھ لیتی ہے۔اسرارِ خودی اسی دور کا شاخسانہ ہے۔ مصنف نے لکھا کہ ابھی’اسرارِ خودی“ کی گونج باقی تھی کہ اپریل1918ء میں اس مثنوی کا حصہ دوئم، ”رموزِ بے خودی“ کے نام سے شائع ہو گیا۔ اس میں ملت ِاسلامیہ کی حیات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی اور واضح کیا گیا کہ فرد کے انفرادی اعمال، اس کے جذبات اور مسرت و انبساط کس طرح ملت کی اجتماعی خودی میں ضم ہو کر ملت کی مضبوطی میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ مارچ 1924ء میں پیامِ مشرق کی اشاعت ہوئی۔ فارسی کلام ہونے کے باوجود ایک برس سے کم عرصے میں دوسرے ایڈیشن کی اشاعت اقبالؒ کی مقبولیت کی غماز تھی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد یعنی ستمبر 1924ء میں اقبالؒ کا پہلا اُردو مجموعہ ’بانگ ِدرا‘ شائع ہوا جسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔کیونکہ اب تک اقبال کی اُردو شاعری صرف رسائل و اخبارات کی زینت بنی تھی۔ 1932ء میں علامہ اقبال کی اگلی کتاب ”جاوید نامہ“ منظر عام پر آئی یہ ان کی فارسی شاعری پر مشتمل ایسی کتاب ہے جس میں مثنوی کی شکل میں تحریر کیے گئے دو ہزار اشعار شامل ہیں۔ 1933ء میں ہی علامہ کی اگلی کتاب ”پیامِ مشرق“ شائع ہوئی۔ پیام مشرق جرمن فلاسفر گوئٹے کی کتاب”دیوانِ مغربی“ کا جواب ہے۔جس میں علامہ نے مشرق کا نقطہ نظر فلسفیانہ،شاعرانہ مگر واضح انداز میں بیان کیا ہے۔انھوں نے بتایا کہ مشرق کے پاس کیا کیا علم و ہنر تھا جو انھوں نے لٹا دیا۔ مغرب نے اس سے فائدہ اٹھایا اور علم و فن کی ترقی کی دوڑ میں آگے نکل گیا۔یہ علامہ کی مسلسل تیسری فارسی کتاب تھی۔ لہٰذا آپ کی شاعری اور فلسفہ کی دُھوم ہندوستان کے علاوہ افغانستان، ایران، ترکی اور دیگر کئی اسلامی ملکوں تک جا پہنچی۔ ان ملکوں سے وفود آتے تو علامہ اقبالؒ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کرتے۔ خصوصاً ایران اور افغانستان کے علمی و ادبی حلقوں میں علامہ ”اقبال لاہوری“ کے نام سے معروف تھے اور ان کا کلام نہایت ذوق و شوق سے پڑھا جاتا تھا۔ان خِطّوں میں شاعرِ مشرق اور ان کے کلام کی اب بھی وہی قدرو منزلت ہے۔1936ء میں علامہ اقبال کی اگلی کتاب ”ضربِ کلیم“ شائع ہوئی اور اس کے چند ماہ بعد ”پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق“ بھی منظر عام پر آئی۔ یہ علامہؒ کی زندگی کی آخری کتاب تھی۔ کیونکہ”ارمغانِ حجاز“ ان کے انتقال کے بعد1938ء میں شائع ہوئی جس میں علامہ کا آخر میں لکھا گیا اُردو اور فارسی دونوں کلام شامل ہیں۔ یہ تینوں کتب علامہ کی زندگی بھر کے علم، فلسفے درد ِ ملت کا نچوڑ ہیں۔ اقبال مصورِ پاکستان یا معمارِ پاکستان کے تحت مصنف نے دلائل سے واضح کیا کہ اقبال محض پاکستان کا خواب دیکھنے والے ہی نہ تھے بلکہ انہوں نے اس تحریک میں عملی حصہ بھی لیا۔مصنف کے مطابق گویا تشخیص مرض اور علاج مرض دونوں موجو دہیں بس اسے سمجھنے اورعمل کرنے کی ضرورت ہے۔اقبال جہاں اسلامی نشاۃِ ثانیہ اور احیائے اسلام کے داعی اور علم بردار تھے وہاں انھوں نے مسلمانانِ ہندکے مستقبل کے معمار کا کردار بھی اداکیا۔ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ان کی عملی او رفکری دونوں طرح کی خدمات ان گنت اور ناقابلِ فراموش ہیں۔1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس اور اس اجلاس میں حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ کا صدارتی خطبہ تھا۔ اس تاریخی خطبے میں علامہ اقبال نے پہلی مرتبہ تصور پاکستان پیش کیا۔1931ء میں لندن میں گول میز کانفرنس ہوئی تو علامہ اقبالؒ اس میں مدعو تھے۔ حالانکہ گاندھی ان کے بجائے کانگریسی مسلمان لیڈر ڈاکٹر انصاری کو شامل کرانا چاہتے تھے۔ مگر انگریز مجبور تھے کیونکہ علامہؒ اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں کے سب سے ممتاز رہنما تھے۔ علامہ کا سر زمین بھوپال سے لگاؤسر سید احمد خان کے صاحبزادے سر راس مسعود اوران کی اہلیہ بیگم راس مسعود،اقبال کے پرستاروں میں شامل تھے۔ اقبال جب یکسانیت سے اُکتا جاتے ان کی دعوت پر اکثر بھوپال تشریف لے جاتے اور ہفتوں قیام فرماتے۔علامہ آخر دم تک ملک و ملت کی خدمت میں مصروف رہے۔ اس کے ساتھ جب طبیعت اجازت دیتی تو اپنی اگلی کتاب”ارمغانِ حجاز“ کی ترتیب کا کام انجام دیتے تھے۔ ”ارمغانِ حجاز“ جو اُردو اور فارسی کلام کا مجموعہ ہے، زیرِ تکمیل تھا۔ اقبال کی تمنا تھی کہ پہلے وہ حج کا فریضہ ادا کرنے جائیں اور حضور رسالت مآبﷺ کی خدمت میں حاضری دیں اور پھر اس کتاب کو مکمل کریں۔ بیماری نے انھیں اس کی مہلت ہی نہ دی اور یہ کتاب ان کی وفات کے چند ماہ بعد شائع ہو سکی۔مصنف نے اقبال کے دورہ افغانستان کا حال بیان کیا ہے، مولانا مودودیؒ کا ذکر بھی کیا ہے اور آخر میں اقبال کے سفر آخرت کا بیان ہے۔ بعد ازاں علامہ کی مخالفت کی وجوحات کا تجزیہ بھی کیا گیا ہے۔ اقبال کا فلسفہ خودی اورتصور عشق کے علاوہ اقبال ترجمان فطرت کے عنوان سے مواد فراہم کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر مرزا صاحب کی یہ کاوش شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی زندگی اور ان کی مختلف جہتوں کواختصار سے لیکن اچھے انداز سے قلم بند کیا ہے۔شاعر مشرق کے حوالے سے طارق محمود مرزا کی یہ کاوش قابل ستائش ہے جس کے لیے وہ قابل مبارک باد ہیں۔ یہ کاوش انہیں اقبال شناسوں کی فہرست میں شامل بھی کرتی ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی پروفیسر ایمریٹس: منہاج یونیورسٹی، لاہور (12جنوری2023ء) |