ہم بچپن سے یہ سننے اور پڑھتے آرہے ہیں کہ اللہ ہر جگہ
موجود ہے۔ اگر میں کسی سے اس کا مطلب پوچھوں تو وہ یقینا یہ کہے گا کہ خدا
کا وجود ہر جگہ موجود ہے لیکن ہمیں نظر نہیں آتا یہ ایک سیدھی سادی سی بات
ہے جس میں کوئی راکٹ سائنس .نہیں ۔ لیکن کیا یہ بات واقعی اتنی سیدھی ہے ؟
اگر اس پر گھنٹوں بیٹھ کر سوچا جائے تو کچھ حاصل ہو گا؟ یا صرف وقت ضائع ہو
گا؟ اس سیدھے سادے فقرے میں بھی کوئی گہرائی ہو سکتی ہے ؟ اگر میں کہوں ہاں
تو آپ یقین نہیں کریں گے شاید ۔ آئیے اس کی گہرائی میں اترتے ہیں۔ میں نے
اس بات کو کچھ اس طرح سے سمجھا اور پرکھا ہے۔ اس تحریر میں لکھا ہوا ایک
ایک حرف میرا اپنا سوچا ہوا ذاتی مشاہدہ ہے۔
آپ نے سکول میں سائنس میں DNA کا structure تو پڑھا ہوگا. نوے کی دہائی میں
"Human Genome Project" شروع ہوا اور 2024 میں مکمل ہوا . 30سال کے عرصے
میں ہمارے پاس DNA
کا مکمل نقشہ آگیا۔ اس DNA کو اگر سیدھی لکیر میں کھول کر رکھا جائے تو یہ
73 km trillion لمبا ہوگا۔ DNA کے اندر 5' سے 3' اور 3' سے 5' کے strands
ہوتے ہیں. phosphorus کے bases جو کہ Guanine ,Cytosine ,ThiamineAdenine
سے پکارے جاتے ہیں وہ موجود ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ DNA میں hydrogen ,
carbon, nitrogen, oxygen کے elements ہوتے ہیں۔ آپ نے Big Bang کے بارے
میں تو سنا ہو گا جس کے ذریعے کائنات وجود میں آئی۔ یعنی ہم انسان اور
اردگرد کی ہر چیز star dast سے بنی ہے ۔ اور یہ جو oxygen , nitrogen,
hydrogen ہمارے DNA میں ہیں، یہ stardust سے آئے ہوئے ہیں۔
یہاں پر آ کر chemistry اور biology کا ملاپ ہوتا ہے۔ سارے DNA مل کر
protein بناتے ہیں۔ لیکن DNA بھی تو کسی حد تک protein سے مل کر بنا ہے۔
Structure کا DNAپڑھ کر ہی آپ کا دماغ گھوم جاتا ہے۔ تو اتنی کمال کی چیز
کسی designer کے بغیر تو بن نہیں سکتی۔ اگر آپ خدا کو ڈھونڈنا ہی ہے تو وہ
آپ کے DNA میں ہے. آپ کے ارد گرد جو physics biology chemistry کے ملاپ سے
بنی ہوئی دنیا آپ کو نظر آرہی ہے ہے خدا اس میں ہے ۔ nature اور universe
میں خدا موجود ہے۔ خدا ہر جگہ موجود ہے ۔
اب ذرا اس فقرے پر دوبارہ غور کریں۔ خدا آپ کے ارد گرد موجود ہے۔ خدا آپ کے
DNA میں آپ کے ایک ایک cell میں آپ کے زمین و آسمان اور کائنات کی تخلیق
میں ، انسانی نفسیات و دماغ کی
تخلیق میں، قدرت کے . نظاروں میں ، نیز ہر چیز چیز میں آپ کو اپنے ہر جگہ
موجود ہونے کا کہہ کرخدا اپنی تخلیق کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا
ہے ۔ اللہ خود قرآن میں جگہ جگہ فرماتا ہے کہ میری کائنات میں سوچنے والوں
اور عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔ سوچنے اور غور کرنے پر زور دیتا ہے ۔
اس کا مطلب کیا ہے ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو سوچے گا اورجتنا باریک بینی سے
اور گہرائی میں سوچے گااس تک ہر چیز کا اصل مطلب پہنچ جائے گا۔میرے مطابق
تنہائی پسند overthinker خاص طور پر deepthinker introvert ہوئے بغیر،
majority minority کے چکر میں پڑے بغیر ، منفرد سوچ اور زاویہ رکھے بغیر آپ
ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے۔
|