تیز دھوپ میں چوک پر کھڑا ایک بوڑھا بھکاری ہاتھ میں ایک
پرانا کٹورا لیے آہستہ آہستہ گاڑیوں کے پاس جا رہا تھا۔ وہ سست قدموں سے
آگے بڑھتا، کبھی کسی گاڑی کے شیشے پر ہلکی سی دستک دیتا، تو کبھی کسی
راہگیر کو بلاتا۔ چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں تھے، آنکھوں میں بے بسی کی
چمک تھی۔
ایک چمکتی ہوئی گاڑی اس کے پاس رکتی ہے۔ شیشہ نیچے ہوتا ہے اور اندر بیٹھا
ایک سوٹ پہنے شخص، جس کی آنکھوں میں بے رحمی جھلک رہی تھی، سوال کرتا ہے:
"بابو جی، میں بہت مجبور ہوں،" بھکاری نے عاجزی سے کہا۔
"کون مجبور نہیں ہے؟" گاڑی میں بیٹھے آدمی نے بے نیازی سے کہا۔
"میں بہت مجبور ہوں،" بوڑھے بھکاری نے ایک بار پھر اپنی حالت بیان کی۔
"سب بہت مجبور ہیں۔ تم کام کیوں نہیں کرتے؟" آدمی نے سوال کیا۔
بھکاری نے تھوڑا سا سر جھکا کر کہا، "جی، کام ہی تو کرتا ہوں۔"
"کیا کام کرتے ہو؟" گاڑی والا آدمی حیران ہوا۔
"بھیک مانگتا ہوں،" بھکاری نے آہستہ سے جواب دیا۔
آدمی نے طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے کہا، "یہ کام تھوڑی ہے؟ یہ کوئی ہنر تھوڑی
ہے؟ جس کام کا کوئی نام نہیں ہے، وہ کام کوئی کام نہیں ہے۔"
بھکاری نے تھوڑا سانس لیا، پھر دھیرے سے کہا، "ذرا گاڑی سے باہر آئیں ناں،
ایک منٹ کے لیے اس چوک پر لوگوں کی نظروں کو میری نظروں سے دیکھیں۔ ایسی
تپتی گرمی میں کسی سے اک سوال کرکے دیکھیں، اس سے زیادہ حوصلے کا کوئی کام
نہیں ہے۔"
بھکاری کی بات سن کر آدمی کچھ پل کے لیے خاموش ہو گیا۔ اسے اندازہ ہوا کہ
بھیک مانگنا محض ایک ضرورت نہیں بلکہ زندہ رہنے کی جدوجہد ہے۔ بھکاری نے
دوبارہ بولنا شروع کیا، "دن رات کی محنت پر بھی میرا کوئی نام نہیں ہے۔"
آدمی نے شیشہ چڑھایا، گاڑی کا انجن سٹارٹ کیا اور بغیر کچھ کہے آگے بڑھ
گیا۔ بھکاری وہیں کھڑا رہا، ایک ہاتھ میں کٹورا اور دوسرے ہاتھ میں وہ غیر
مرئی محنت جس کا کوئی نام نہیں تھا، کوئی پہچان نہیں تھی، اور شاید کبھی
ہوگی بھی نہیں۔
|