شہر کی گلیوں میں ایک عجیب سا سکوت تھا، اور میں اندر ہی
اندر اس سکوت میں گم تھی۔ کسی انجانے طوفان سے بھاگتے ہوئے میں نے ہمیشہ
تنہائی تلاش کی، مگر یہ تنہائی بھی میرے بدن کی طرح بوجھل اور الجھی ہوئی
تھی۔ میرا بدن میرے اپنے لیے ایک اجنبی سا ہو گیا تھا، جیسے میرے اندر ہی
کوئی وحشت پل رہی ہو۔
لوگوں کے بیچ ہوتے ہوئے بھی میں ہمیشہ بے زبان اور تنہا محسوس کرتی تھی۔
اردگرد کی دنیا مجھے ایک اندھیرے میں ڈوبا ہوا بدن لگتی تھی، جو میری روح
کو جکڑے ہوئے تھی۔ میں اپنے بدن کے اس گھٹن زدہ قیدخانے سے باہر نکلنے کی
راہیں ڈھونڈتی رہی، مگر ایسا لگتا کہ ان اندھیروں سے چھٹکارا پانا ناممکن
ہے۔
ایک رات، جب شہر کی گلیاں خالی اور خاموشی میں لپٹی ہوئی تھیں، میں اپنے
کمرے میں بیٹھی اپنے بازو پر کچھ لکھ رہی تھی۔ یہ خراش شاید میری روح کی
گونج تھی، جیسے میں اپنے درد کو بدن پر نقش کرکے اسے محسوس کرنا چاہ رہی
تھی۔ یہ لمحے میرے لیے کسی اظہار کی مانند تھے، جیسے میرا بدن میری وحشت کو
بیان کرنے کا ذریعہ بن گیا ہو۔
دن گزرتے گئے، اور میرے بدن پر ان خراشوں کے نشان ایک کہانی بن گئے۔ یہ
نشان میرے درد اور میری خاموش چیخوں کی نمائندگی کرتے تھے۔ یوں لگتا کہ
میرا بدن ایک آئینہ بن گیا ہو، جو میری روح کی اذیت کو ظاہر کر رہا ہے۔ میں
چاہتی تھی کہ لوگ ان نشانات کو دیکھیں، میری وحشت کو محسوس کریں، مگر میرے
اردگرد کے لوگ—جو خود اندھے اور بہرے تھے—میرے درد کی گہرائی کو کبھی نہ
سمجھ پائے۔
ایک دن میں نے فیصلہ کیا کہ اب ان نشانوں کو اپنی بقا کا بوجھ نہیں بننے
دوں گی۔ میں نے اپنے بدن کے ہر نشان کو قبول کر لیا اور انہیں اپنی کہانی
کا ایک نیا آغاز بنا لیا۔ میں جانتی تھی کہ میری روح ہمیشہ آزاد رہے گی،
چاہے بدن پر کتنے ہی زخموں کے نشان کیوں نہ ہوں۔
یہ نشان میری وحشت کا اظہار بھی ہیں اور میری بقا کا ثبوت بھی۔
|