زندگی کے سفر میں ہم میں سے ہر کسی کو کبھی نہ کبھی کسی
نہ کسی لمحے میں اکیلا پن اور غمگینی کا سامنا ہوتا ہے۔ "قدموں کے نشانات"
ایک ایسی گہری اور معنوی تحریر ہے جو انسان کی اندرونی تنہائی اور فکری
کشمکش کو اجاگر کرتی ہے۔ اس میں ایک خاموش، نظر نہ آنے والا وجود، جو ہمیشہ
ہمارے قریب ہوتا ہے، ہمارے خیالات میں بسی رہتا ہے، اور ہمیں خود سے سوالات
کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
شاعر کی زبانی، یہ وجود کبھی سایے کی طرح ہمارے ساتھ رہتا ہے، ہمیں دکھاتا
ہے کہ زندگی میں کبھی ہم اتنے تھک جاتے ہیں کہ ہمیں کوئی راستہ نہیں ملتا،
نہ آگے جانے کا، نہ پیچھے لوٹنے کا۔ چاند کی روشنی اور مدھم چراغوں کے نیچے،
جب ہمیں اکیلے پن کا احساس ہوتا ہے، یہ موجودگی ہمارے اردگرد آ کر ہمیں
اپنے وجود کا احساس دلاتی ہے۔ یہ ہمیں خود سے سوال کرنے پر مجبور کرتی ہے،
"کیوں تم کبھی مسکراتے نہیں؟"
یہ سوال نہ صرف دوسرے لوگوں سے پوچھا جا رہا ہے بلکہ یہ دراصل ایک اندرونی
سوال ہے، جو ہم اپنے آپ سے پوچھتے ہیں۔ ہماری مسکراہٹ، ہماری خوشی کہیں کھو
جاتی ہے، اور ہم صرف ایک خالی، تھکے ہوئے جسم کی طرح زندگی کے سفر کو طے
کرتے ہیں۔ یہ تحریر ہمیں یاد دلاتی ہے کہ کبھی کبھی ہمیں اپنے اندر جھانکنا
ضروری ہوتا ہے، تاکہ ہم اپنی اندرونی کیفیت کو سمجھ سکیں اور پھر اپنی
مسکراہٹ دوبارہ تلاش کر سکیں۔
یہ تحریر ہمیں بتاتی ہے کہ اگر ہم اپنی اندرونی جنگوں کا سامنا کریں، تو ہم
ان سے باہر نکل کر اپنے اندر کی خوشی کو دوبارہ پا سکتے ہیں۔
|