پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی معیشت میں زراعت کو ریڑھ
کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان کی زمین نہایت زرخیز ہے اور اس میں مختلف
فصلوں کی کاشت کے لیے قدرتی صلاحیت موجود ہے۔ پنجاب اور سندھ کے کئی علاقوں
میں زرخیز زمین اور دریائی پانی کی دستیابی کے باوجود، پاکستان زرعی
پیداوار میں مسلسل پیچھے جا رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی زرخیز
زمین کے ہوتے ہوئے بھی پاکستان زرعی پیداوار میں نمایاں مقام کیوں حاصل
نہیں کر سکا؟ اس کمی کی کئی وجوہات ہیں، جن پر اگر فوری توجہ دی جائے تو
ملک کی زرعی پیداوار کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں زراعت کا شعبہ زیادہ تر روایتی طریقوں پر مبنی ہے۔ کسان جدید
زرعی ٹیکنالوجی سے لاعلم ہیں یا ان کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ عالمی سطح پر
جدید زرعی ٹیکنالوجی جیسے ڈرپ اریگیشن، جدید بیج، اور کیمیکل فرٹیلائزرز کا
استعمال فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کر رہا ہے، مگر پاکستان میں ان
ٹیکنالوجیز کے استعمال کی شرح نہایت کم ہے۔ کسانوں کو ان ٹیکنالوجیز تک
رسائی کے لیے حکومتی امداد اور تربیت کی ضرورت ہے تاکہ پیداوار میں اضافہ
کیا جا سکے۔
پانی کی قلت اور ناقص آبپاشی کا نظام بھی پاکستان کی زرعی پیداوار میں کمی
کا بڑا سبب ہے۔ پاکستان کی زراعت کا انحصار نہری پانی پر ہے، مگر نہری نظام
میں پانی کے ضیاع اور خرابیوں کی وجہ سے فصلیں مطلوبہ پانی نہیں پا سکتیں۔
عالمی سطح پر پانی کی بچت کے جدید طریقے اپنائے جا رہے ہیں، مگر پاکستان
میں ان پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ ڈرپ اور اسپرنکلر اریگیشن جیسے جدید
نظاموں کو فروغ دے کر پانی کے استعمال کو مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں معیاری بیج اور کیمیائی کھادوں کی عدم دستیابی بھی زرعی
پیداوار میں کمی کا باعث ہے۔ اکثر کسانوں کو جعلی بیج اور غیر معیاری کھاد
ملتی ہے جس سے فصلوں کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ جدید ممالک میں تحقیق اور
ٹیکنالوجی کے ذریعے فصلوں کی اقسام کو بہتر بنایا جاتا ہے، مگر پاکستان میں
زرعی تحقیق پر توجہ کم ہے۔ اگر حکومت بیج اور کھاد کی معیار کو یقینی بنائے
اور کسانوں کو جدید طریقوں کے مطابق تربیت دے تو پیداوار میں بہتری آسکتی
ہے۔
زرعی تحقیق کسی بھی ملک کی زرعی ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ بدقسمتی سے
پاکستان میں زرعی تحقیق کے لیے خاطر خواہ وسائل اور فنڈنگ نہیں ہے۔ جدید
ممالک اپنی تحقیق کے ذریعے فصلوں کی نئی اقسام، بیماریوں کا مقابلہ کرنے
والے بیج، اور بہتر زرعی طریقے تیار کرتے ہیں، مگر پاکستان میں ایسے ادارے
کم ہیں جو کسانوں کو ان جدید طریقوں سے روشناس کرا سکیں۔
زیادہ تر پاکستانی کسان مالی وسائل کی کمی کا شکار ہیں، اور زرعی قرضے حاصل
کرنا بھی ان کے لیے مشکل ہے۔ بنکوں اور مالیاتی اداروں کی جانب سے کسانوں
کو قرضوں کی فراہمی محدود ہے۔ اگر کسانوں کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کیے
جائیں، تو وہ بہتر بیج، کھاد، اور ٹیکنالوجی خرید کر اپنی پیداوار بڑھا
سکتے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی بھی زرعی پیداوار کو متاثر کر رہی ہے۔ پاکستان میں درجہ
حرارت میں اضافے، غیر متوقع بارشوں، سیلاب اور خشک سالی کی وجہ سے کسانوں
کی فصلیں برباد ہو رہی ہیں۔ ان موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں آگاہی اور مؤثر حکمت عملی کی کمی
ہے۔
پاکستان میں زرعی پالیسیز میں عدم تسلسل اور حکومتی توجہ کی کمی بھی ایک
بڑی وجہ ہے۔ زرعی شعبے کو ہمیشہ ترجیحی بنیادوں پر نہیں دیکھا گیا، اور
زرعی اصلاحات کی کمی کی وجہ سے پیداوار میں اضافہ نہیں ہو سکا۔ کسانوں کے
حقوق اور وسائل کے تحفظ کے لیے مضبوط حکومتی اقدامات کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں زرعی پیداوار کو بڑھانے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کیے جا سکتے
ہیں:
جدید ٹیکنالوجی کا استعمال: کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی کی تربیت دی جائے اور
انہیں ان کے استعمال میں آسانی فراہم کی جائے۔
پانی کے استعمال میں بچت: ڈرپ اور اسپرنکلر اریگیشن جیسے جدید آبپاشی
نظاموں کو فروغ دیا جائے۔
تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری: زرعی تحقیق کے اداروں کو وسائل فراہم کیے
جائیں تاکہ وہ کسانوں کو بہترین بیج اور کھاد فراہم کر سکیں۔
آسان زرعی قرضے: کسانوں کے لیے قرضے کے حصول کو آسان بنایا جائے تاکہ وہ
اپنی زمین کو بہتر بنا سکیں۔
ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف حکمت عملی: موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے
لیے مناسب حکمت عملی تیار کی جائے۔ پاکستان کی زراعت میں ترقی کی بے پناہ
صلاحیت ہے، مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ جدید ٹیکنالوجی، مناسب حکومتی
پالیسی، اور کسانوں کو سہولیات فراہم کی جائیں۔ اگر یہ اقدامات کیے جائیں
تو پاکستان اپنی زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتا ہے اور ملک کی
معیشت کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
|