ڈونلڈ ٹرمپ 2024 میں دوبارہ امریکہ کے صدر بن چکے ہیں، اور ان کی قیادت کا
یہ دوسرا دور عالمی سیاست پر کیا اثرات ڈالے گا، یہ ایک اہم سوال ہے جس پر
دنیا بھر کے سیاسی تجزیہ کار غور کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کی پالیسیوں اور ان کے
منفرد طرز حکمرانی نے پہلے دور میں ہی عالمی سطح پر خاصی تبدیلیاں پیدا کیں۔
اب جبکہ وہ دوبارہ اقتدار میں ہیں، ماہرین کا خیال ہے کہ عالمی طاقتوں کے
توازن، عالمی معیشت، ماحولیات، اور مشرقِ وسطیٰ میں مزید تبدیلیاں دیکھنے
کو مل سکتی ہیں۔
معروف امریکی تجزیہ کار رچرڈ ہاس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے پہلے دور میں "پہلے
امریکہ" (America First) کی پالیسی نے امریکی خارجہ پالیسی کو نئی سمت دی
تھی۔ ان کے مطابق، ٹرمپ کا دوبارہ صدر بننا عالمی اداروں جیسے نیٹو اور
اقوام متحدہ کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے، کیونکہ ٹرمپ ان اداروں میں
امریکی کردار کو محدود کرنے اور اخراجات کو کم کرنے پر زور دیتے ہیں۔ رچرڈ
ہاس کے بقول، ٹرمپ کے دوبارہ آنے سے امریکہ کے عالمی اتحادیوں میں اعتماد
کی کمی پیدا ہو سکتی ہے۔
نیویارک ٹائمز کے تجزیہ کار تھامس فریڈمین نے لکھا ہے کہ ٹرمپ کے دوبارہ
صدر بننے سے چین کے ساتھ کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ ان کے بقول،
ٹرمپ کی چین مخالف پالیسی، جس میں تجارتی پابندیاں اور ٹیکنالوجی کے شعبے
میں سختی شامل ہے، دنیا کو دو بلاکس میں تقسیم کر سکتی ہے۔ اس تقسیم سے
امریکہ اور اس کے اتحادی ایک طرف جبکہ چین اور اس کے حامی دوسری طرف ہو
سکتے ہیں۔ فریڈمین کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال دنیا کے تجارتی اور اقتصادی
نظام کو متاثر کر سکتی ہے۔
بروکنگز انسٹیٹیوٹ کے معروف تجزیہ کار مارٹن انڈک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا
دوبارہ صدر بننا مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں مزید عدم استحکام پیدا کر سکتا
ہے۔ ایران کے حوالے سے ٹرمپ کی سخت گیر پالیسی اور اسرائیل کے ساتھ گہری
دوستی نے پہلے بھی مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کو ہوا دی تھی۔ انڈک کے بقول،
ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے سے ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات مزید خراب
ہو سکتے ہیں، جو کہ خطے کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔
جرمنی کی چانسلر اَنجلہ مرکل کے مطابق، ٹرمپ کے "پہلے امریکہ" کے اصول نے
یورپ کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ انہیں اپنی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے
لیے امریکہ پر کم انحصار کرنا چاہیے۔ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد یورپی
ممالک جیسے جرمنی اور فرانس نے اپنے دفاعی اتحاد کو مزید مضبوط کرنے کے لیے
اقدامات کرنے شروع کر دیے ہیں۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے دور میں
امریکہ کے ساتھ ان کے تعلقات میں اعتماد کی کمی پیدا ہوئی ہے، جو یورپ کو
خود مختاری کی طرف لے جا رہی ہے۔
مشہور ماحولیاتی تجزیہ کار بل مک کِبِن کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے دوبارہ صدر
بننے سے ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے عالمی سطح پر کی جانے والی پیشرفت کو
دھچکا لگ سکتا ہے۔ مک کِبِن کے مطابق، ٹرمپ کے دوبارہ آنے سے امریکہ کا
ماحولیات سے متعلق بین الاقوامی معاہدوں سے انخلا ممکن ہے، جو کہ دنیا کے
لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ پہلے ہی پیرس ماحولیاتی معاہدے سے
امریکہ کو نکال چکے ہیں اور اب ان کا دوبارہ صدر بننا ماحولیاتی تبدیلی کے
خلاف اقدامات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
معروف تجزیہ کار فرید زکریا کا کہنا ہے کہ "ٹرمپ کا دوبارہ انتخاب عالمی
نظام کو ایسی سمت میں لے جا سکتا ہے جہاں دنیا دو مختلف سیاسی، اقتصادی،
اور عسکری بلاکوں میں تقسیم ہو جائے گی"۔ زکریا کے مطابق، ٹرمپ کا دوبارہ
صدر بننا نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کے لیے نئی مشکلات اور چیلنجز پیدا
کر سکتا ہے۔
ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے سے عالمی سیاست میں ایک مستقل نوعیت کی تبدیلی کا
امکان ہے۔ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا میں طاقت کا توازن تبدیل ہو سکتا
ہے اور نئے عالمی اتحاد بن سکتے ہیں۔ ان کی قیادت کا یہ نیا دور یقینی طور
پر دنیا کے لیے ایک نیا سیاسی منظرنامہ تخلیق کرے گا، جس کا اثر آنے والے
برسوں تک محسوس کیا جائے گا۔
|