سموگ یا خود کا لگایا ہوا روگ

دیکھے ہیں یہ دن اپنی ہی غفلت کی بدولت
سچ ہے کہ برے کام کا انجام برا ہے

سموگ کی بدولت ہر شخص آبدیدہ ہے

سموگ تو اب بڑھاپے کی طرح مستقل روگ بنتا جا رہا ہے۔ بڑے سے بڑا حوصلہ مند بھی آج کل آبدیدہ ہے۔ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ ملت کی اجتماعی بے حسی کے آنسو ہیں یا سموگ سے ہونے والی جلن کے۔ خیر جلن تو ہم کو ورثے میں ملی ہے، کسی کو کھاتا دیکھ لیں، آتا دیکھ لیں، جاتا دیکھ لیں جن کو ہونی ہے وہ ہوکے رہتے ہے، اسی لیے ٹرک والوں نے لکھوا رکھا ہوتا ہے کہ جلنے والے خد تجھے بھی دے، اس دعا کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ اللہ تم کو بھی ٹرک ڈرائیور بنا دے اس کا مطلب ہوتا ہے کہ خدا تم کو عقل دے کہ ایک لوڈ یافتہ گاڑی سے کیوں پنگہ آزمائی کر رہے ہو۔

بات ٹرک کی طرف نکل گئی ہے تو سننے میں آیا ہے کہ حکومت پنجاب نے دارالخلافہ لاہورمیں ہیوی ٹریفک کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا ہے کیونکہ بقول ان کے مشیروں کے ہیوی گاڑیوں سے دھواں نکلتا ہے اور سموگ پیدا ہوتی ہے بارش کے دوران کسی کو منع کرنا کہ فرش مت دھوئیں سڑک گیلی ہو جاتی ہے کہنے کا کیا فائدہ؟ ۔ یہ تو کسی گنجے کو بال سنوار کے رکھو کہنے کے مترادف ہے۔ کیا سارا سال بھنگ پی کے سوئے رہتے ہیں؟ تو ایک دوست بولا بھنگ سستی ہوتی ہے افسران بالا کو سستی نشے سے کیا کام؟

کتابوں میں پڑھا کرتے تھے کہ مشکل وقت میں لیڈر قوم کے اندر موجود ہوتا ہے، بڑی بڑی میٹنگ کینسل کر دیتا ہے، سرکاری دورے ملتوی کر دیے جاتے ہیں کہ میری قوم مشکل میں ہے میں ان کو اکیلا کیوں چھوڑوں؟ لیکن ہماری محترمہ وزیر عالی صاحبہ انگلینڈ تشریف لے گئی لاہور میں سموگ سے دم گھٹنے لگا تھا۔ شاید روز روز کے کام سے بھی اکتا گئی ہونگی پرانی ٹرالیوں، کوڑے دانوں اور کچرا اٹھانے والی گندی گاڑیوں کو رنگ تبدیل کروا کے مشہوری کروانا کونسا آسان کام ہے ۔ یہ تو وہی جانتے ہیں جو رنگ کے پیشہ سے منسلک ہوں کہ گندی مندی اور زنگ آلود ٹرالیوں، ہاتھ ریڑھیوں اور کچرے کے ڈبوں کو رنگ کرنا کتنا مشکل کام ہے۔

بات رنگ کرنے کی طرف چلی تو یاد آیا رنگ بازی میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے۔ کبھی لاہور دا پاوا۔ کبھی استاد قمر چوہے پکڑنے والا اور کبھی حکیم لوہا پاڑ۔ حد ہوتی ہے کہ سموگ کے تدارک کیلئے کوئی ان ٹک ٹاکروں سے ہی مدد لے لے، سارے کا سارا منظر ہی دھندلا سا گیا ہے۔ سموگ اور فوگ اتنے سر چڑھ چکے ہیں کہ چند میٹر کے فاصلے سے نا سڑک نظر آتی ہے نا کسی کا دکھ۔ ہر کوئی آبدیدہ ہے کچھ کو سموگ نے کر دیا کچھ کو معاشی مسائل نے۔ جب فصلوں کی باقیات کو آگ نہ لگانے کا قانون اور سزا موجود ہے تو سارا سال روک تھام کیوں نہیں کی جاتی ؟ تو جواب ملتا ہے قانون کہاں ہے ؟۔ سرکاری افسر ، اپنے دفتر میں آنے کی تنخواہ لیتے ہیں اور کام کرنے کے پیسے سائلین سے وصول کرتے ہیں تو اگر آپ چاہتے ہیں کہ سموگ کی روک تھام کیلئے سارا سال اقدامات ہوں تو جہاں آگ لگی دیکھیں فورا محکمہ کو اطلاع دیں،

اب بندہ کس کس آگ کی اطلاع دے ؟ دھواں تو ہر طرف سے اٹھ رہا ہے۔ بابا جی بولے پتر دعا کرنی چاہیے کہ رب ذوالجلال بارش عطا فرما دے اور جان چھوٹے اس سموگ کے روگ سے۔ موبائل استعمال کرتا منا جھٹ سے بولا ابا جی حکومت پنجاب نے مصنوعی بارش برسانے کے انتظامات کرنے شروع کر دیے ہیں بے فکر ہو جاؤ۔ سر اٹھا کے بابا جی کو دیکھا تو ٹپ ٹپ رو رہے تھے۔ پتر قدرت کے کاموں میں دخل اندازی مت کرو ورنہ بنی اسرائیل کے خود سے بارش برسوانے کے عمل کو ذرا پڑھ لو ، قدرت سے مقابلہ نہ کرو، اپنی اصلاح کرو۔ میں پاس بیٹھا سوچ رہا تھا کہ بابا جی کے آنسو افسوس، دکھ، تکلیف کی وجہ سے ہیں یا سموگ کی وجہ سے۔
 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Read More Articles by محمد قاسم وقار سیالوی: 13 Articles with 3408 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.