جب آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے
میرے بندے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتادیجئے کہ میں ان سے قریب ہی ہوں‘
پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں‘ لہٰذا
انہیں میری دعوت قبول کرنی چاہیے اور مجھ پر ایمان لانا چاہیے
اسی (اللہ تعالیٰ) کو پکارنا برحق ہے اور یہ لوگ اس کو چھوڑ کر جن ہستیوں
کو پکارتے ہیں وہ ان کی دعائوں کا کوئی جواب نہیں دے سکتے‘ انہیںپکارنا تو
ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلا کر چاہے کہ پانی
(دور ہی سے) اس کے منہ پر آپہنچے۔ حالانکہ پانی اس تک کبھی نہیں پہنچ سکتا
بس اسی طرح کافروں کی دعائیں بے نتیجہ بھٹک رہی ہیں۔ (قرآن مجید‘ الرعد:
14)
جب آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے میرے بندے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں
بتادیجئے کہ میں ان سے قریب ہی ہوں‘ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں
اس کی دعا قبول کرتا ہوں‘ لہٰذا انہیں میری دعوت قبول کرنی چاہیے اور مجھ
پر ایمان لانا چاہیے تاکہ راہ راست پر چلیں۔ (قرآن مجید‘ البقرہ: 186)
وہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور ان کی برائیوں سے
درگزر کرتا ہے‘ اور وہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو‘ وہ ایمان لانے والوں
اور نیک عمل کرنے والوں کی دعا قبول کرتا ہے اور اپنے فضل سے ان کو اور
زیادہ دیتا ہے‘ رہے انکار کرنے والے تو ان کیلئے سخت عذاب ہے۔ (قرآن مجید‘
الشوریٰ‘ 26,25)
دعا صرف ایک طریقہ عبادت ہی نہیں بلکہ انسان کی روح عبودیت کی تجلی ہے اور
توانائی کا قوی ترین وسیلہ جس سے ہر انسان فیض یاب ہوسکتا ہے اگر آپ پرخلوص
دعا کو اپنی عادت بنالیں تو آپ اپنی زندگی کو یقیناً تابناک اور کامیاب
بناسکتے ہیں۔
دعا کرہ ارض کی کشش کی طرح ایک حقیقی اور واقعاتی طاقت ہے۔ طبیب کی حیثیت
سے میں نے بارہا دیکھا ہے کہ جب ہر قسم کی تدبیر ناکام اور دوا بے سود
ہوجاتی ہے تو عاجزانہ دعا کی برکت سے بیماری اور غم و انددہ کی گھٹائیں
حیرت انگیز طریقے سے چھٹ جاتی ہیں۔ ایسے واقعات کو خرق عادت یا معجزہ کہا
جاتا ہے لیکن جن مردوں اور عورتوں نے یہ دریافت کرلیا ہے کہ دعا سے روزمرہ
کی زندگی میں طاقت کی ایک رو مستقل طور پر بہتی رہتی ہے ان کے دلوں میں
خاموش معجزہ ہرآن رحمت کی جوت جگائے رہتا ہے۔
اکثر افراد دعا کو ایک رسم سمجھتے ہیں جس میں مخصوص الفاظ دہرائے جاتے ہیں
اور وہ سمجھتے ہیں کہ کمزور لوگ ان الفاظ میں پناہ ڈھونڈتے ہیں یا مادی
ضرووریات کے لیے طفلانہ عرض معروض کرتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ ایک ایسی سعی
ہے جو شخصیت کے پورے طور پر نشوونما پانے کیلئے لازمی ہے صرف دعا کے اندر
ہم جسم‘ ذہن اور روح کی مکمل ہم آہنگی سے ہم کنار ہوتے ہیں جو ایک ناتواں
انسان کو ناقابل شکست طاقت بخشتی ہے۔
دعا ہمیں ایسی اثرآفریں طاقت سے کس طرح مسلح کرتی ہے؟ اس سوال کا جواب
سائنس کے احاطے سے باہر ہے لیکن ہم اپنے آپ کو اس یقین دہانی سے باز نہیں
رکھ سکتے کہ دعا کے ذریعہ سے انسان اپنی محدود توانائی کا رشتہ توانائی
مطلق کے لامحدودمبداسے استوار کرلیتا ہے جس وقت ہم دعا کرتے ہیں اس وقت ہم
اس بے پایاں قدرت سے واصل ہوتے ہیں جو کارخانہ عالم کی روح رواں ہے ہم
التجا کرتے ہیں کہ اس لامحدود طاقت سے ہماری دستگیری کی جائے خود دعا ہماری
بشری کمزوریوں کو رفع کرتی اور ہمیں صحت اور قوت سے نوازتی ہے۔
دعا کیلئے کسی خاص ہیئت ‘ وقت اور مقام کی چنداں ضرورت نہیں ہے‘ قبولیت کا
دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے ایسی دعا بالکل بے معنی ہے کہ صبح کے وقت ہم
دعا کریں اوربقیہ دن بہیمانہ فسق و فجور میں گزاردیں‘ مخلصانہ اور صادق دعا
بجائے خود راہ عمل اور طریق ہدایت ہے۔ پاک بازی کی زندگی خود ایک قسم کی
دعا اور عین عبادت ہے۔ دعا مغز عبادت ہے دعا ایمان کی آواز ہوتی ہے‘ دعا دن
کے کاموں کی کنجی اور رات کا قفل ہے۔ دعا وہ التجا ہے جس کا رخ آسمان کی
طرف ہوتا ہے۔ |