علم حدیث اورمحدثین عظام - قسط6

محدث کبیراِمام احمدبن علی نسائی ؒ:
کتب صحاح ستہ میں ایک نام ”نسائی شریف “ ہے ۔اس کتاب کے مولف کا نام احمد، کنیت ابوعبدالرحمن اور نسب نامہ یہ ہے:

احمد بن علی بن شعیب بن علی بن سنان بن بحربن دینار
جب سے خراسان اور ماوراءالنہرکے علاقوں پر اسلام کاآفتاب طلوع ہوا،اس وقت سے یہ علاقہ ہمیشہ علم وفن اور ارباب کمال کا مرکز رہا ہے ۔تاریخ اسلام کے سینکڑوں نامور فضلاءاسی خاک سے اُٹھے ہیں ،امام نسائیؒ بھی اسی خاک کے ایک مایہ ناز فرزند تھے،”نساء“،خراسان کا ایک شہر ہے جو ”مرو“ کے قریب واقع ہے، اس کو امام موصوف کے مولدومسکن ہونے کا شرف حاصل ہے اور اسی کی طرف منسوب ہو کر آپ نسائی کہلاتے ہیں بعض لوگ اس نسبت کو” نسائی “کے بجائے ”نسوی“پڑہتے ہیں اور قاعدے کی رو سے بھی یہی درست معلوم ہوتا ہے جیسا کہ دہلی کی نسبت سے دہلوی ، لکھنو کی نسبت سے لکھنوی، سکھر کی نسبت سے سکھروی وغیرہ لیکن بہرحال ”نسوی “نسبت کی بجائے ”نسائی“ کوزیادہ شہرت ملی ہے ۔مورخ ابن خلدون لکھتے ہیں:یہ نساءکی طرف نسبت ہے جس میں نون وسین دونوں پر زبر ہے ۔

امام نسائیؒ215 ھ میں پیدا ہوئے، خود فرماتے ہیں”یشبہ ان یکون مولدی فی سنة 215“(اندازہ ہے کہ میری پیدائش 215ھ میں ہوئی)

علامہ ابن حجرؒ نے طلب حدیث کیلئے سفرکا یہ ضابطہ بیان کیا ہے”وصفة الرحلة بحیث یبتدی بحدیث اہل بلدہ فیستوعبہ ثم یرحل فیحصل فی الرحلة مالیس عندہ“(اور طلب علم کے لئے سفر کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے شہر کے محدثین سے ابتداءکرے اور جب ان سے پورے طور سے علم حاصل کر چکے تو پھر اور شہروں کا سفر کرے اور اس سفر میں ان روایات کو حاصل کرے جو اس کے پاس نہ ہوں)

اسی ضابطہ کے مطابق امام نسائیؒ اپنے شہر کے شیوخِ حدیث سے اِستفادہ کے بعد 230 ھ میں سب سے پہلے محدث قتیبہ بن سعید کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔علامہ ذہبی فرماتے ہیں:”رحل الیٰ قتیبة ولہ خمس عشرة فقال ا قمت عندہ سنة وشہرین (سب سے پہلے امام قتیبہ کی خدمت میں سفر کرکے گئے جب کہ عمر شریف پندرہ سال کی تھی اور ان کے پاس ایک سال دو ماہ قیام رہا)ان کے علاوہ دوسرے شیوخ واساتذہ سے استفادہ کیلئے دنیائے اسلام کے مختلف حصوں کا سفر کیا)۔

شاہ عبدالعزیز صاحب ”بستان المحدثین“ میں لکھتے ہیں :”انہوں نے بہت سے شہروں کے محدثین واساتذہ سے استفادہ کیا۔ خراسان ، عراق ، جزیرہ ، شام اور مصر وغیرہ شہروں اور ملکوں کا سفر کیا“۔امام نسائی کے شیوخ واساتذہ کا دائرہ بہت وسیع ہے ۔حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں”سمع من خلائق لایحصون “ یعنی بے شمار شیوخِ حدیث سے علم حدیث حاصل کیا۔اوپر گزر چکا ہے کہ سب سے پہلے قتیبہ بن سعید المتوفی240ھ کی خدمت میں سفر کیا ،علامہ ذہبیؒ نے ان کو شیخ الحفاظ،محدث خراسان کے لقب سے یاد فرمایا ہے ،بلخ کے رہنے والے تھے ۔ ان کے دیگر نامور شیوخ میں اسحاق بن راہویہ،محمد بن بشار،امام ابوداﺅد سجستانی وغیر ہ ہیں،امام بخاریؒ کو بھی حافظ ابن حجرؒ نے امام نسائی کے اساتذہ میں شمار کیا ہے۔نیز امام ابوزرعہ رازی اورامام ابوحاتم رازی سے امام نسائی کا روایت کرنا بھی ثابت ہے ،جس سے یہ بھی ان کے اساتذہ قرار پاتے ہیں۔

امام صاحبؒ زہد وتقویٰ میں یکتائے روزگار تھے۔ جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اتنے بلند مقام تک پہنچایا ،”صوم داﺅدی“ کے پابند تھے یعنی ہر ایک دن کے وقفے سے روزہ رکھتے تھے ۔حافظ محمد بن مظفر فرماتے ہیں کہ میں نے مصر میں اپنے مشائخ سے سنا کہ امام نسائیؒ کے دن رات کا اکثر حصہ عبادت میں گزرتا تھا ،اکثر حج کیا کرتے تھے ،جہاد کا جذبہ بھی خوب تھا ،ایک مرتبہ امیر مصر کے ساتھ جہاد میں شرکت کی اور ایسی ہمت مردانہ سے بڑھ چڑھ کر وار کرتے رہے کہ لوگ بھی ان کی شجاعت وبہادری کے معترف ہو گئے ۔انہوں نے حضور ﷺ کی سنتوں کو قائم کرنے میں بڑی محنت کی اور بادشاہوں کی مجالس سے ہمیشہ گریز کیا ۔ کھانے پینے میں ہمیشہ کشادہ دست رہے ،شہادت تک ان کی زندگی اسی حالت پر قائم رہی ،پھر خاص کرسنت کی اشاعت اور بدعت سے نفرت پر ان کی شہادت کا واقعہ خود ایک واضح دلیل ہے ،نیز اس سے امام صاحبؒ کی حق گوئی وبیبا کی کا اندازہ بھی ہوتا ہے جو مردان خدا کا ہمیشہ سے شعار رہا ہے،کچھ دنوں تک حمص کے قضاءکے عہدہ پر بھی فائز رہے تھے۔

امام صاحب نے اپنے علوم کی نشر واشاعت اور درس وتدریس کے لئے مصر کو اپنا مرکز بنایا اور وہیں مستقل رہائش اختیار کی ۔ امام صاحب کو مصر میں جو شہرت ومقبولیت حاصل ہوئی اس کی بنا پر حاسدین نے حسد بھی کیا ،اس لئے انہوں نے ذیقعدہ302ھ میں مصر کو خیر باد کہا اور وہاں سے فلسطین کے ایک مقام رملہ آگئے تھے ۔سوءاتفاق سے اس وقت بعض ایسے شرپسند عناصر مسلم معاشرے میں سرایت کر چکے تھے جو حضرت علیؓ سے بدگمانی رکھتے تھے ، انہی کی سازشوں سے بہت ناواقف عوام بھی حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے بدگمان تھے،یہ صورتحال دیکھ کر امام نسائی دمشق تشریف لے گئے اور جامع دمشق میں ممبر پر چڑھ کراپنی کتاب” خصائص علیؓ “سنانی شروع کی، ابھی تھوڑی ہی سی پڑھی تھی کہ کسی سائل نے سوال کیا کہ آپ نے امیر معاویہؓ کے فضائل پر بھی کوئی کتاب لکھی ہے ؟اس پر انہوں نے فرمایا کہ مجھ کو ان کے مناقب میں سوائے اس حدیث کے ”لااشبع اللہ بطنہ“(عربی ضرب المثل میں یہ ایک دعائیہ جملہ ہے ) اور کوئی حدیث نہیں پہنچی۔اب یہ بات انہوں نے اپنے علم کے مطابق کہی تھی کہ مجھے ان کی فضیلت میں صرف یہ ایک حدیث معلوم ہے لیکن اس پر عوام نے مشتعل ہو کر امام صاحبؒ پر ناروا الزام لگاکر زدوکوب شروع کردی جس سے امام صاحبؒ کے نازک مقام پر چند سخت چوٹیں آئیں جن کے سبب سے امام صاحب نیم جاں ہو گئے ایسی حالت میں لوگ مکان پر لائے ،امام صاحبؒ نے فرمایا کہ مجھ کو مکہ مکرمہ لے چلو تاکہ میرا انتقال مکہ معظمہ میں ہو بالآخر ایسی حالت میں وہ اپنے خدا سے جا ملے اور مکہ مکرمہ میں امام صاحبؒ کا انتقال 13صفر 303 ھ بروزسوموار ہوا۔مقام تدفین کے بارے میں قدرے اختلاف ہے بعض مورخین نے کہاکہ صفاومروہ کے درمیان تدفین ہوئی ،جبکہ بعض دیگرروایتوں میں ہے کہ رملہ میں سپرد خاک کئے گئے اور ماہ شعبان میں وفات ہوئی ،انتقال کے وقت عمر 88 سال کی تھی۔

علامہ ابن حجر اور علامہ ابن کثیر اسی نوع سے متعلق یہ واقعہ نقل کرتے ہیں کہ اس کے بعدشر پسند لوگوں نے ان کے متعلق غلط باتیں پھیلانے لگے تو امام صاحبؒ نے صورتحال کی صحیح وضاحت کے لئے ”فضائل صحابہؓ “پر مستقل ایک تصنیف فرمائی جس سے بے بنیاد شبہات خود بخود ختم ہوجاتے ہیں البتہ اس کا احتمال ہو سکتا ہے کہ حالات کے پیش نظر حضرت علیؓ واہل بیت کے دفاع میں ان سے کچھ تشدد پیدا ہوگیا ہو ورنہ ان کی ”سنن نسائی “کے مطالعہ کے بعد یہ حقیقت بالکل واشگاف ہو جاتی ہے کہ خلفاءراشدین میں امام نسائیؒ اسی ترتیب اور ان کی عظمت کے قائل ہیں جو جمہور اہل السنت والجماعت کا مسلک ہے۔مثلاخود امام نسائی ؒ نے اپنی معروف تری کتاب ”نسائی شریف“ کے” باب امامة اہل العلم والفضل“ میں یہ حدیث نقل کی ہے:
لماقبض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قالت الانصار منا امیر ومنکم امیر فاتا ہم عمرؓ فقال الستم تعلمون ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قد امرابابکر ان یصلی بالناس فایکم تطیب نفسہ ان یتقد م ابابکر قالوانعوذ باللہ ان نتقدم ابابکر۔

نبی کریم ﷺ کے انتقال کے بعد انصار کہنے لگے کہ ایک امیر ہماری طرف سے ہوگا ، ایک تم مہاجرین کی طرف سے ، اسی دوران حضرت عمرؓ تشریف لائے اور یہ صورت دیکھ کر کہنے لگے ، کیا تم نہیں جانتے کہ نبی کریم ﷺ نے (اپنی زندگی میں ) حضرت ابوبکرؓ کو نماز کا امام بنایا (جو دین کا سب سے اہم معاملہ ہے ) اب کون اس بات کو پسند کرتا ہے کہ ابوبکرؓ سے آگے بڑھے ؟ اس پر سب کہنے لگے کہ :اللہ کی پناہ! ہم ابوبکرؓ سے آگے نہیں بڑھنا چاہتے ۔

امام نسائیؒ کو حق تعالیٰ نے حسن سیرت کے ساتھ حسن صورت بھی عطا کیا تھا امام صاحب بڑے وجیہ وشکیل تھے چہرہ نہایت پرشکوہ اور روشن تھا رنگ نہایت سرخ وسفید تھا یہاں تک کہ بڑھاپے میں بھی حسن وتازگی میں فرق نہیں آیا تھا۔

امام صاحب نے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں ، جن کتابوں کے نام سوانح نگاروں نے لکھے ہیں وہ درج ذیل ہیں:السُنن الکُبری، السُنن الصُغریٰ،خصائص علیؓ ،مسند علیؓ، مسند مالک ،الکُنیٰ ،عمل یوم ولیلة ،اسماءالرواة والتمییز بینہم ،الضعفاءوالمتروکین ، مسند منصور بن زاذان ، وغیرہ ۔

امام نسائیؒ کی تالیفات میں سُنن کے نام سے ان کی دو کتابیں ہیں ۔ سنن کبری ،سنن صغری ،ان دونوں میں سے سنن صغری صحاح ستہ میں شامل ہے جس کادوسرا مشہور نام ”المجتبیٰ“ اور قدرے غیر معروف نام ”المجتنیٰ“ ہے ۔امام صاحب زمانہ کے لحاظ سے صحاح ستہ میں سب سے موخر ہیں اور امام بخاری کی شخصیت سے زیادہ متاثر معلوم ہوتے ہیں ،اس لئے انہوں نے اپنی کتاب میں امام بخاری اورامام مسلم کے طریقے کو جمع کرنے کی کوشش فرمائی ہے نیز حسن ترتیب وتالیف میں بھی ممتاز ہے ۔علامہ ابن رشدفرماتے ہیں:”علم سُنن میں جتنی کتابیں تالیف ہوئی ہیں ،ان سب میںیہ کتاب تصنیف کے لحاظ سے نرالی اورترتیب کے لحاظ بہترین ہے ،اس میں امام بخاری اورامام مسلم دونوں کے طریقوں کو جمع کیا گیا ہے “۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372831 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.