ابتدائیہ:
قائد ملت اسلامیہ شیخ الحدیث والتفسیر امیر المجاہدین فنا فی خاتم النبیین
ﷺحضرت علامہ حافظ خادم حسین رضوی ابن لعل خان اعوان رحمۃ اللہ علیہ کو
علمائے عجم ان القابات سے یاد کرتے ہیں: آبرو سنیت، شہنشاہ ِخطابت، مخدوم
ِملت، عاشقِ صادق،فنا فی خاتم النبیین ﷺ، مردِمجاہد، شیخ الحدیث، شیخ
التفسیر، حافظِ کلیاتِ اقبال، امیر المجاہدین، قائدِ ملتِ اسلامیہ، امام
الصرف، مجدد دوراں، امام غیرت و حمیت، محافظ ختم نبوت، باباجی وغیرہ۔
علمائے عرب آپ رحمۃ اللہ علیہ کو ان القابات سے یاد کرتے ہیں: العلامۃ
الجلیل، المجاھد، امام المحدث، الصوفی الجلیل، اسد السنہ، شیخ الحدیث و
التفسیر، فضیلۃ الشیخ، محدث پاکستان وغیرہ۔
امیر المجاہدین رحمۃ اللہ علیہ کو فنا فی خاتم النبیین ﷺ کا لقب آپ کے حضور
ﷺ سے والہانہ عشق اور بے پناہ عقیدت کی بنا پر دیا گیا ،آپ نے خود بھی حضور
خاتم النبیین ﷺ سے بے پناہ عشق کیا اور لوگوں کو بھی اُس عشق کے جام پلائے۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کو تمام مکاتبِ فکر نے عاشقِ صادق مانا۔
عشق رسولﷺ:
آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "یہ عشق ِرسولﷺمجھے اپنی ماں کی گود سے
ملا ہے، میری والدہ اٹھتے بیٹھتے ہر بات میں 'صدقے یارسول اللہﷺ' کہا
کرتیں"،بس والدہ کا یہ جملہ میری روح اور بدن میں بس گیا ہے۔ آپ رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: "تمہیں مقام رسول ﷺ کا پتہ ہی نہیں لوگ اگر مگر کرتے ہیں
، اگر مگر سے ناموس رسالت ﷺپر پہراتھوڑی ہونا ہے، پہرا رسول اللہ ﷺ کی عزت
پر اسی طرح ہونا ہے جس طرح پہرا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے دیا اور جس
طرح حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نےپہرا دیا۔"
حافظ اعلیٰ حضرت اور علامہ اقبال :
آپ رحمۃ اللہ علیہ مفکر اسلام امامِ اہلسنت اعلیٰ حضرت مفتی احمد رضا خان
فا ضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اور مفکرپاکستان شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر
محمداقبال رحمۃ اللہ علیہ سے بڑے متا ثر تھے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنی تقاریر
میں جہاں کثیر تعداد میں قرآن و حدیث کے دلائل پیش کرتے، وہیں اعلیٰ حضرت
اور اقبال کی شاعری سے اپنی تقاریر کو مزین کرتے۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا رسول اللہﷺ سے بے انتہا
عشق دیکھا تو "رضوی"نسبت کو اپنے ساتھ منسلک کر لیا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے
فتاویٰ رضویہ پر ایک مقالہ بھی لکھا۔جو آج فتاویٰ رضویہ کا حصہ ہے۔
اس کے علاوہ علامہ خادم حسین رضوی رحمۃ اللہ علیہ نے جس طرح اقبال کی سوچ و
فکر کو اجاگر کیا، اب تک کوئی مفکر اس کمال تک نہ پہنچ سکا ، بلکہ اگر یوں
کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگاکہ کلامِ اقبال پڑھنے کا حقیقی معنوں میں اگر
کسی نے حق ادا کیا ہے تو وہ علامہ خادم حسین رضوی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔
سیاسی سفر کا آغاز:
آپ رحمۃ اللہ علیہ نےسیاسی سفر کا آغاز بھی نظام ِ مصطفیٰ ﷺ کے لئے کیا، آپ
رحمۃ اللہ علیہ نے صرف حضورخاتم النبیین ﷺ سے ہی وفا نہیں کی بلکہ رسول
اللہ ﷺ کے وفاداروں سے بھی وفا کی۔ جب غازی ملک ممتاز قادری رحمۃ اللہ علیہ
کی رہائی کیلئے علمائے اہلسنت نے تحریک چلائی تو اس میں صفِ اوّل آپ رحمۃ
اللہ علیہ ہی نظر آئے۔ جب حکومتی اداروں کی جانب سے سختیاں کی جانے لگیں
اُس وقت بھی غازی رہائی تحریک میں آپ رحمۃ اللہ علیہ سیسہ پلائی دیوار کی
مانند کھڑے رہے اور غازی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کے بعد آپ رحمۃ اللہ
علیہ نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا اور تحریک لبیک پاکستان کی بنیاد
"اسلام، پاکستان اور عوام" کے منشور پر رکھی، تاکہ پاکستان میں نظامِ
مصفطیٰ ﷺ کو نافذ کیا جاسکے،جہاں ہر امیر و غریب کیلئے یکساں نظامِ زندگی،
ہر مظلوم کیلئے عدل وانصاف اورہر پاکستانی کیلئے زندگی گزارنے کی تمام
بنیادی سہولیات موجود ہوں اور ساتھ ہی پاکستان کو سیکیورٹی اور معاشی بحران
سے باہر نکال کر، دنیا میں باعزت اور باوقار مقام دلواکر، پاکستان کو ترقی
یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کیا جاسکے۔امیر المجاہدین رحمۃ اللہ علیہ
فرمایا کرتے :
"اس تحریک لبیک یارسول اللہ ﷺ کا ساتھ دو اور بڑی دلیری کے ساتھ دو"
"انسان دلیر اسی وقت ہوتا ہے جب اس کے دل میں رسول اللہ ﷺ کی محبت ہو"
دعویدار تو بہت آئے مگر حضور خاتم النبیین ﷺ سے علامہ خادم حسین رضوی رحمۃ
اللہ علیہ کےجیسے عشق کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کبھی حق
کے راستے سے پیچھے نہیں ہٹے بلکہ ڈٹ کر عالمِ کفر کو بھی للکارا اور
پاکستان کی بقا و سلامتی کی بھی بات کی۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کی پاور ہے،اس پاور کے ساتھ ہم نے پاکستان
میں تبدیلی لانی ہے۔ "
وصال :
آپ رحمۃ اللہ علیہ حضور خاتم النبیین ﷺ سے بے پناہ محبت کیا کرتے تھے، جب
فرانس کے صدر نے رسول اللہ ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کی تو آپ رحمۃ اللہ
علیہ بس یہی سوچتے رہتے کہ ہمارے ہوتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی بے ادبی و
گستاخی ہوگئی، ہم کچھ نہیں کرسکتے تو اس سے بہتر ہے کہ سب مر جائیں۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ حضور خاتم النبیین ﷺ کی عزت و آبرو پر پہرا دیتے ہوئے 4
ربیع الثانی بمطابق 19 نومبر 2020 کو اس دنیائے فانی سے پردہ فرما گئے۔آپ
رحمۃ اللہ علیہ کو تمام مکاتبِ فکر نے عاشقِ صادق مانا۔ آپ کے عشق ِ رسولﷺ
نے امت مسلمہ کو ایک سوچ و فکر دی کہ اپنے نبیﷺ کی عزت و ناموس کی خاطر
کھڑے ہو جائیں۔ عاشق صادق ، قاسم عشق مصطفیﷺ علامہ خادم حسین رضوی رحمۃ
اللہ علیہ نے تو اپنا کام پورا کر دیا اور ایسا کام کر گئے کہ صدیوں تک
بلکہ تا قیامت اس کام سے امت مسلمہ مستفیض ہوتی رہے گی۔ آج ہما ری بھی ذمہ
داری ہے کہ ہم سب دین متین ، دین حق کے راستے کو چن لیں ناجانے کب یہ
آنکھیں بند ہوجائیں، قبر میں رسول اللہ ﷺ کو کیا منہ دکھائیں گے۔
آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے پھر نہ مانیں گے قیامت میں گر تو مان
گیا
چندفرامینِ امیر المجاہدین رحمۃ اللہ علیہ :
• جو اپنا مقام جاننا چاہتا ہے میں اسے معیار بتا رہا ہوں وہ اپنے دل میں
جھانکے حضورﷺ کی کتنی محبت ہے؟ پھر وہ سمجھ جائے کہ وہ کتنا بلند مقام
رکھتا ہے۔
• منافق وہ ہوتا ہے جو اپنی مرضی سے دین پر چلے جبکہ مومن وہ ہوتا ہے جو
اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی مرضی سے دین پر چلے۔
• بزدل بندے کا کام ہی نہیں کے وہ دین کی تر جمانی کرے۔
• اس سے پہلے کہ زبان بند ہو جائے رسول اللہ ﷺ کی عزت کی بات کرو۔
• گناہ گار کے لئے معافی ہے غدار کے لئے معافی نہیں۔
• جس طرح مسلمان ہونے کےلئے کلمہ پڑھنا ضروری ہے ،اسی طرح مسلمان رہنے کے
لئے حضور اکرم ﷺکو خاتم النبیین ﷺ ماننا ضروری ہے۔
• ایک ہی تو جرم ہے جس سے بندے کا شعور ختم ہوجاتا ہے وہ ہے گستاخی رسولﷺ
وہ خود کرے یا اس کا کوئی ساتھ دے۔
• پاکستان کی ترقی ناموس رسالتﷺ اور ختم نبوتﷺ پر ڈاکہ ڈال کر نہیں بلکہ
تحفظ کر کے ہے۔
• اقبال کہتا ہے اس بندے سے دین کی خوشبو نہیں آتی جس بندے کے دل میں عشق
رسول ﷺ نہ ہو۔
کی محمد ﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
|