میانہ روی ہر شے کو خوب صورت بناتی ہے، بہت سی قباحتیں
اسی کی بدولت جنم لینے دے بچ جاتی ہیں، اللہ نے دین گھر کے کسی ایک فرد کے
لئے نہیں اتارا کہ ہم اسے ہر طرف سے رویوں کی مار مار کر چیک کرتے رہیں کہ
آیا یہ اب بھی ہمارے حقوق ادا کرتا ہے کہ نہیں... بڑی تلخ حقیقت ہے کہ
تربیت کا فقدان، مزاج کی بے اعتدالی اور طبیعت کی بے قابو اونچ نیچ ہم سے
وہ وہ خطائیں سر زد کرواتی ہے اور ہمارے ہاتھوں دوسرے کی اتنی حق تلفی
کرواتی ہے کہ الامان الحفیظ...
25 سال تک ہم بیٹے کو پالتے ہیں، بہنیں لاڈ اٹھواتی ہیں یا اٹھاتی ہیں، پھر
وقت کروٹ لیتا ہے اور بھائی اور بیٹا شوہر بھی بن جاتا ہے. اب ناز اٹھوانے
کو اور اپنی منوانے کو ایک نیا فرد گھر میں آ جاتا ہے... ایک رویہ یہ ہے کہ
مائیں، بہنیں مرد کی ایک ایک حرکت پر تنقیدی نظر رکھ رکھ کر اس کی حالت
کٹہرے میں کھڑے مجرم کی سی کر دیتی یہاں تک کہ خلوت کے اوقات میں بھی در
اندازی جاری رہتی ہے، دوسری طرف یہ رویہ بھی بڑا عام ہے کہ مرد اپنی گھر
ہستی میں اتنا مگن ہو جاتا کہ بہنوں اور ماں کے جذبات سے قطعی غافل ہو جاتا
ہے، اس صورت میں بھی لاوا پک کر جب پھٹتا ہے تو بڑی تباہی لاتا ہے.
یہاں ایک بات ہے انداز تخیل اور سوچ کی... ایک لمبی عمر تک لاڈ اٹھوانے
والا بھائی جب شادی کے بعد سنت پر عمل کرتے ہوئے گھریلو کاموں میں بیوی کا
دست و بازو بنتا ہے تو بہنیں دل برداشتہ اور ماں صدمے میں چلی جاتی ہے،
دوسری طرف ایسے شوہر بھی ہیں جو شادی کے بعد بیوی کو گھریلو معاملات میں
مسلسل اپنی ماؤں، بہنوں (ساس، نند) کے تابع رکھنے کی روش پر چلتے ہیں یہاں
تک کہ ماؤں، بہنوں سے مشاورت کی کارنر میٹنگز کر کے اور بیوی کے جذبات سے
تغافل برت کر اسے دبو شخصیت بنا دیتے ہیں.
اب دیکھنا یہ ہے کہ توسط اور اعتدال کی روش کیا ہے، میانہ روی کا تقاضا کیا
ہے..
.. میانہ روی یہ ہے... کہ ایسی مشاورتی میٹنگز میں تمام اہل خانہ ہوں جن کا
تعلق سب افراد سے ہو، سب سے بڑھ کر اعتماد کی فضاء قائم کرنا گھر کے ہر فرد
کی ذمہ داری ہے، سچائی اور دیانتداری سے ایک دوسرے سے معاملات ہی آپس میں
اعتماد کی فضا پیدا کرتے ہیں... توسط یہ ہے کہ مائیں، بہنیں، زوجین کے رشتے
کی نزاکت سمجھیں اور جانتی ہوں کہ بیوی اپنے شوہر کو ایک بھی بہن کی ٹریٹ
کرے گی نہ ایک ماں جیسے اس کے اپنے شوہر کے متعلق جذبات ہوں گے، بیوی بھی
سمجھ لے کہ اسے گھر داری میں معروف کے مطابق چلنا ہو گا. شوہر کے لئے
اعتدال کی روش یہ ہے کہ وہ آنکھیں اور کان کھلے رکھتے ہوئے رشتوں کی نزاکت
دیکھے اور سمجھے اور اگر ایک گھر میں رہنا محال ہو جائے تو انصاف کی راہ
اختیار کرے. اللہ ہمیں خانگی اور تمام معاملات میں اعتدال کی روش پر چلنے
کی توفیق عطا فرمائے، آمین
|