رات کے پردے تلے، یہ ایک خیمہ، ایک شخص اور آسمان کی
وسعتوں کا منظر۔ ایک لمحہ جہاں خاموشی بولتی ہے اور روشنی کی ہر چمک، ایک
داستان سناتی ہے۔ یہ منظر تنہائی کا جشن ہے، جہاں انسان کائنات کے سامنے
خود کو ایک ذرہ محسوس کرتا ہے، مگر یہ ذرہ بھی اپنی پوری کہانی رکھتا ہے۔
یہ خیمہ، جو ایک عارضی گھر کی علامت ہے، انسان کی زندگی کے عارضی ہونے کا
استعارہ معلوم ہوتا ہے۔ زندگی کے تمام خواب، تمام ارادے، ایک خیمے کی طرح
ہیں، جو وقت کے تیز ہواؤں میں لرزتے ہیں اور پھر ایک دن ختم ہو جاتے ہیں۔
مگر وہ روشنی جو خیمے کے اندر جل رہی ہے، امید کا چراغ ہے، جو اندھیروں کو
چیر کر وجود کا احساس دلاتا ہے۔
اس تنہا شخص کی نظر آسمان پر جمی ہوئی ہے، جیسے وہ خود سے کچھ سوال کر رہا
ہو۔ کیا کائنات اتنی ہی وسیع ہے جتنی ہم دیکھتے ہیں؟ کیا زندگی کا مقصد صرف
جینا اور مر جانا ہے؟ یا ہم ان ستاروں سے کچھ سیکھ سکتے ہیں؟ یہ آسمان، یہ
ستارے، وقت اور جگہ کی کوئی قید نہیں رکھتے، مگر انسان اپنی حدود میں قید
رہتا ہے، اپنی خواہشوں، اپنے خوفوں، اور اپنی ضروریات کے دائروں میں۔
پانی کے قریب کھڑا یہ شخص، شاید زندگی کے بہاؤ کو محسوس کر رہا ہے۔ وہ پانی
جو خاموش ہے، مگر اپنی گہرائی میں ایک سمندر کی کہانی رکھتا ہے۔ یہ پانی،
زندگی کے جذبات کی طرح ہے؛ کبھی پر سکون، کبھی طوفانی۔ مگر اس کا بہاؤ کبھی
رک نہیں سکتا، جیسے زندگی رکنے کا نام نہیں۔
یہ منظر انسان کو یہ باور کراتا ہے کہ تنہائی ہمیشہ دکھ نہیں ہوتی۔ تنہائی
ایک موقع ہے، اپنی ذات کو جانچنے کا، اپنی سوچوں کو سنوارنے کا، اور اپنی
روح کے قریب آنے کا۔ ستارے گواہ ہیں کہ تنہائی میں بھی روشنی کے امکانات
موجود ہیں۔
یہ منظر فلسفہ حیات کی علامت ہے۔ زندگی ایک سفر ہے، جس میں ہم خیمے کی طرح
اپنی منزلیں بدلتے ہیں۔ کبھی ہم اپنی جڑوں کو تلاش کرتے ہیں، اور کبھی اپنی
منزل کو۔ مگر آسمان کی وسعت، پانی کی گہرائی، اور تنہائی کی گونج، ہمیشہ
ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زندگی ایک راز ہے، جو ہر لمحے خود کو بے نقاب کر رہی
ہے۔
|