فیض احمد فیضؔ (20نومبر فیض احمد فیضؔ کی وفات کا دن)
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
معروف شاعر فیض احمد فیض کے یوم وفات پر |
|
فیض احمد فیضؔ (20نومبر فیض احمد فیضؔ کی وفات کا دن) ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی فیض صاحب 12 فروری1911ء میں پاکستان کے شہر سیال کوٹ کے نزدیک کالا قادر کے مقام پرپیدا ہوئے۔ فیض جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی جدید ادبی تحریک، ترقی پسند ادبی تحریک کے بانی ارکان میں سے تھے۔فیضؔ پاکستان کا بہت بڑا شاعر اور ہر دل عزیز شاعر بھی ہے، فیضؔ کی شاعر ی کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا، لکھا جارہا ہے اور آئندہ بھی لکھا جائے گا۔فیض ایک شاعر ہی نہیں بلکہ وہ ایک استاد اور ایک ماہر تعلیم، پروفیسر، منتظم اور کالج پرنسپل بھی رہے اور اس حیثیت سے انہوں نے آٹھ سال (1964ء۔1972ء) خدمات انجام دیں۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ فیض صاحب جب حاجی عبد اللہ ہارون کالج کراچی کے پرنسپل تھے تو میں اس کالج کا طالب علم تھا،دو سال (1968ء۔1970ء)میں اس کالج کا طالب علم رہا اور گریجویشن اسی کالج سے کیا۔۲۷۹۱ء میں حکومت نے تمام تعلیمی اداروں کوقومی تحویل میں لے لیا تو فیضؔ صاحب نے سرکاری ملازمت اختیار کرنا مناسب نہ سمجھا لیکن وہ جب بھی کراچی میں ہوتے کالج ضرور آیا کرتے، اس طرح مجھے فیضؔ صاحب کو ہر دو حیثیتوں سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ فیض صاحب نے اپنے کیرئیر کا آغاز ہی استاد کی حیثیت سے ایم اے او کالج امرتسر سے ۵۳۹۱ء میں کیا تھا،آپ برطانوی ہند میں فوج میں اعلیٰ عہد ہ پر بھی رہ چکے تھے، فیض احمد فیضؔ آٹھ برس(1964ء۔1972ء)کراچی کے ایک ڈگری کالج ”حاجی عبداللہ ہارون کالج“ کے پرنسپل رہے، آپ اس کالج کے بانی پرنسپل تھے۔ کالج کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ سر حاجی عبد اللہ ہارون بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے، قائد اعظم کو آپ پر مکمل اعتماد تھا یہی وجہ ہے کہ عبد اللہ ہارون ہر مر حلے پر قائد اعظم کے ہمراہ دکھا ئی دیتے ہیں جس کا ثبوت پیر علی محمدراشدی کے اس بیان سے ملتا ہے کہ”قائد اعظم محمد علی جناح ۸۳۹۱ء میں اوراس کے بعد عبد اللہ ہارون مرحوم کے انتقال تک جب بھی کراچی تشریف لاتے ان کا قیام ہمیشہ ”سیفیلڈ“ یعنی سر حاجی عبد اللہ ہارون کی رہائش واقع کلفٹن میں ہوتا۔ بر صغیر کے معروف تاجر اور سب سے بڑھ کر انسان دوست۔ آپ کی سیاسی، سماجی، طبی، تعلیمی اور قیام پاکستان کی جدوجہد میں بے لوث خدمات سے کسی کو انکار نہیں۔کراچی کی قدیم بستی”مچھروں کی بستی“ ہے جو ’کھڈا مارکیٹ‘ کہلاتی ہے،اب اسے ’نواآباد اور میمن سوسائیٹی‘ کہا جاتا ہے،یہی مچھیروں کی بستی کراچی کا نقطہ آغاز تھا۔ حاجی عبد اللہ ہارون نے اسی بستی میں ۳۲۹۱ء میں غریب لوگوں کے لیے ایک یتیم خانہ قائم کیا تھا، جو آج بھی قائم ہے، خود حاجی عبد اللہ ہارون اسی یتیم خانے کے احاطہ میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔فیض احمد فیضؔ کا ایک خو بصو رت شعر ؎ پھر نظر میں پُھول مہکے، دل میں پھِر شمعیں جلیں پھِر تصّور نے لِیا اُس بزم میں جانے کا نام فیض صاحب نے جب اس کالج کی پرنسپل شپ اختیار کی وہ اس وقت بھی ایک بڑے اور معروف شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے، ان کا بڑا نام تھا، کراچی کی غریب بستی میں نئے کالج کا سربراہ بننا، کیا مصلحت تھی، کیا راز تھا، اس بات کا جواب فیض صاحب کی اپنی زبان سے سنیے، فیضؔ صاحب نے ڈاکٹر غلام حسین اظہر کو ایک انٹر ویو میں دیا، یہ انٹر ویو ڈاکٹر طاہر تونسوی کی مرتب کردہ کتاب ”فیض کی تخلیقی شخصیت: تنقیدی مطالعہ“میں شامل ہے۔سوال کیا گیا کہ ’آپ نے اس ادارے کی سربراہی کیوں قبول کی تھی‘؟فیض صاحب کا کہنا تھا”جس علاقے میں حاجی عبد اللہ ہارون کالج قائم کیا تھا اس میں ہائی سکول کے علاوہ تعلیم کی اور سہولتیں نہ تھیں، اس علاقہ میں اکثریت غریب عوام کی ہے، ماہی گیر،گاڑی چلانے والے اور مزدور پیشہ لوگ جو بچوں کوکا لج نہیں بھجوا سکتے تھے، یہ علاقہ بُرے لوگوں کا مرکز تھا یہاں ہر قسم کا غیر مستحسن کاروبار کیا جاتا تھا، اکثر غلط راہ پر بچپن ہی سے پڑ جاتے تھے، یہاں عبد اللہ ہارون نے یتیم خانہ بنوایا تھا جو ہائی اسکول کے درجے تک پہنچ گیا تھا،باقی کچھ نہیں تھا،ان کے (حاجی عبد اللہ ہارون)جانشینوں کی مصروفیات کچھ اور تھیں، صرف لیڈی نصرت ہارون کو اس ادارے سے دلچسپی تھی۔لندن سے واپسی پر انھوں نے ہم سے فرمائش کی کہ ہم یہ کام سنبھال لیں۔ ہم نے جاکر علاقہ دیکھا، بہت ہی پسماندہ علاقہ تھا، یہاں انٹر میڈیٹ کالج بنایا، پھر ڈگری کالج پھر ٹیکنکل اسکول اور پھر آڈیٹوریم، کچھ رقم ہارون انڈسٹری سے خرچ کی گئی، کچھ ہم نے فراہم کی،ماہی گیروں کی سب سے بڑی کوآپریٹو سوسائیٹی بنی، انہوں نے ہمیں ڈائیریکٹر بنا لیا، ہم نے طے کیا کہ سوسائیٹی کے اخراجات سے بچوں کو مفت تعلیم دی جائے اور بچوں کے سب اخراجات یہی ادارہ برداشت کرے، اس کالج میں طلبہ کی اکثریت کو مفت تعلیم دی جاتی تھی“۔فیض صاحب کالج کی نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں میں بھر پور دلچسپی لیا کرتے تھے۔ فیض ایک سیدھے سادھے مسلمان تھے، افتخار عارف نے ایک انٹر ویو میں فیض صاحب سے پوچھا آپ جب پیچھے مڑکر اپنی زندگی کی طرف دیکھتے ہیں تو کوئی پچھتاوا تو نہیں ہوتا؟”فیض صاحب نے بغیر کسی تامل کے یہ بات کہی کہ زندگی میں دو پچھتاوے ہیں۔ ایک تو یہ کہ میں قرآن حفظ کرنا چاہتا تھا مگر چار پانچ پاروں کے حفظ کے بعد میں نے یہ سلسلہ منقطع کردیا۔ مجھے ساری عمر اس کا ملال رہا۔دوسرا یہ کہ میں کرکٹر بننا چاہتا تھا اور نہیں بن سکا“۔یہ بات تو اکثر لوگ جانتے ہیں کہ فیض صاحب عربی جانتے تھے اور انہوں نے عربی میں بھی ایم اے کیا ہوا تھا لیکن یہ بات کہ وہ قرآن مجید حفظ کرنا چاہتے تھے اور یہ کہ چند پارے حفظ بھی کر چکے تھے بہت کم لوگ اس سے آگاہ ہوں گے۔آپ کی اس بات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اندر کا فیض کیسا تھا۔ یہ بات آغاناصر نے اپنے مضمون ’فیض کی چند باتیں‘ جو اخبار اردو کی جلد 28 شمارہ 2، 2011ء کی اشاعت میں نقل کی ہے۔ عبداللہ ہارون کالج کے ایک استاد پروفیسر عبد الرشید راجہ جو ۰۳ سال اس کالج سے منسلک رہے،اسلامیات کے پروفیسر تھے، آپ نے بتا یا کہ جب تک فیض صاحب کالج کے پرنسپل رہے ہم نے فیض صاحب کو رمضان میں سگریٹ پیتے نہیں دیکھا، جب کے ڈاکٹر م۔ ر۔ حسان کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہوا کرتا تھا۔ فیض صاحب نے شہر کراچی میں رہتے ہوئے کئی ادبی، ثقافتی، تعلیمی اور سماجی تنظیموں کی سرپرستی بھی کی۔ کراچی میں ادارہ یاد گار غالب فیض احمد فیضؔ نے مرزا ظفر الحسن سے قائم کروا یا تھا۔ فیض صاحب تو اس ادارے کی سرپرستی کیا کرتے تھے، مرزا ظفر الحسن کی زندگی کا مقصدِ حیات یہ ادارہ تھا۔ ادارہ یاد گار غالب کے قیام کی روداد مرزا ظفر الحسن نے اپنے ایک مضمون ”فیضؔ ایلس اور میں“ میں اس طرح بیان کی کہ ”جنوری1968ء کے پہلے ہفتے میں سبط حسن نے ٹیلی فون پر کہا فیضؔ نے تمہیں بلا یا ہے۔ میں نے سبب پوچھا توکہا میرا اندازہ ہے کہ تم نے غالب کے پرزے اڑانے کی جو کوشش کی تھی اس کی کوئی سزا دینا چاہتے ہیں۔اس جملے کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آیا۔ دوسرے دن سبط کے گھر پہنچا جو سڑک پار فیضؔ کے پڑوس میں رہتے تھے۔ ہم دونوں فیضؔ کے گھر گئے جہاں انہوں نے کہا فروری 1968ء میں پاکستان، ہندوستان اور دوسرے ملکوں میں غالبؔ کی صد سالہ برسی منائی جانے والی ہے۔ ہمارا بھی ارادہ ہے کہ کراچی میں کچھ کام کریں۔ آپ ایک انجمن بنائیں اور شروع کردیں ”اس کے بعد کہا“ البتہ ایک بات یاد رکھیے ویسے تو ہم آپ کے ساتھ ہوں گے مگر از خود کوئی کام نہیں کریں گے۔ آپ جو کام ہمارے سپرد کریں، کریں گے“۔اس کے بعد اضافہ کیا ”دوسروں کے متعلق سمجھ لیجیے کہ وعدے سب کریں گے پورا کوئی نہیں کرے گا“۔ اس پر سبط حسن نے کہا ”ہم تو وعدہ بھی نہیں کرتے۔ سارا کام تم ہی کو کرنا ہوگا“۔ فیضؔ نے آخری جملہ کہا”با لکل تنہا“۔یہ میرے لیے کوئی چیلنج نہیں اعزاز تھا۔ کیوں کہ فیضؔ جیسی شخصیت کو مجھ پر اعتماد کہ میں انجمن بنا سکتا ہوں، صد سالہ برسی کا انتظام کرسکتا ہوں اور سب کچھ اکیلے۔ اس وقت نام طے کیا ”بزم غالب“اور پانچ سات منٹ ٹھہر کر آگیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس ملاقات سے پہلے یا اس کے بعد سبط اورفیضؔ میں میری بابت کیا گفتگوہوئی۔ نہ میں نے پوچھا نہ کسی نے بتایا۔بزم غالب کے قیام اور نام کا اعلان اخباروں میں چھپوادیا دو چار دن بعد بزم کے پیڈ بنوانے انجمن پریش گیا تو وہاں معلوم ہوا کہ اس نام کی ایک انجمن دس پندرہ برس سے قائم ہے۔ اس خیال سے کہ نام پر کیوں کسی سے جھگڑا مول لیں اور وہ بھی ابتدائی دنوں میں اپنے طور پر طے کیا کہ بزم غالبؔ کی بجائے ”ادارہئ یاد گارِ غالبؔ“نام رکھوں۔ فیضؔ سے پوچھا تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ اب نام کی تبدیلی کا اعلان اخباروں میں شائع کردیا۔جیب میں دھیلہ نہ دمڑی ادارہئ یاد گارِ غالبؔ قائم ہوگیا۔ ایک ہفتے بعد فیض ؔ کے بتائے ہوئے چند لوگوں کو ٹیلی فون کیا کہ فلاں اتوار کو صبح فیضؔ کے گھر جمع ہوں ادارے کی بابت کچھ گفتگو ہوگی۔ وہ سب آئے۔ میں نے تجویز پیش کی کہ فیضؔ ادارے کے صدر ہوں۔ سبط نے یا شاید فیضؔ نے میرانام لے کر کہا یہ اس کے معتمد ہ عمومی ہوں۔ اس کے بعد مجلس عاملہ تشکیل دی گئی جتنے مدعوئین اتنے ہی عہدے دار اور اراکین بلکہ بعض جو نہیں آئے تھے انھیں بھی رکن عاملہ بنا لیا گیا۔کوئی خالی ہاتھ نہ لوٹا۔ جاتے وقت سبط حسن نے پھر کہا تم نے ہمیں رکن تو بنا یا ہے کام ہم دمڑی کا نہین کریں گے۔ سید اپنے قول کاسچا نکلا“۔مرزا ظفر الحسن نے ادارے کی لائبریری کی عمارت کی تعمیر کے حوالے سے لکھا کہ ”عمارت کس طرح بنی، کس طرح ہاتھ سے نکل گئی ایک طویل کہا نی ہے۔ یہاں اتنا اشارہ کردوں کہ عمارت کو منہدم ہونے سے فیضؔ نے بچایا۔ اگر ان کانام اور شخصیت درمیان میں نہ ہوتی تو آج غالب لائبریری کی جگہ اس عمارت کا ملبہ ہوتا“۔ فیض ؔ نے 73برس کی عمر میں 20نومبر1984ء کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ آخر میں فیضؔ صا حب کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں ؎ تمہاری یاد کے جب زخم بھر نے لگتے ہیں کسی بہانے تمہیں یاد کر نے لگتے ہیں
|