مزاحمتی شاعری اور فراستؔ رضوی کا شعری مجموعہ ’سلام فلسطین‘

مزاحمتی شاعری اور فراستؔ رضوی کا شعری مجموعہ ’سلام فلسطین‘
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
مزاحمتی شاعری کو ادب کی اصناف میں ایک منفرد اور اثر انگیز مقام حاصل ہے۔ اس کی اہم اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ مُزاحمتی شاعری ظلم و ستم، ذیادتی، مصائب، مشکلات، پریشانیوں کو اجاگر کرتی ہے۔ مزاحمتی شاعری کی تعریف کچھ اس طرح بیان کی جاسکتی ہے ”مزاحمتی شاعری اردو ادب کی ایک ایسی صنف ہے جس میں زمانہ حال میں ہونے والی نا انصافیوں، جبر، ظلم، زیادتی، تشدد، ناانصافی، سیاسی نظام جو انصاف کے برعکس ہو کے خلاف آواز بلند کرنا، یہ سوچ و فکر نثر میں، نظم میں یا تقریر میں یا گفتگو میں ہو مزاحمتی ادب شمار ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ مزاحمتی ادب زمانہ حال میں موجود منفی صورت حال میں تبدیلی لانے میں ادبی کوشش ثابت ہوتا ہے۔
پاکستان کے بے شمارشاعروں نے مزاحمتی شاعری کی، نثر نگاروں نے مزاحمتی نثر لکھی۔یوتو بے شمار نا م لیے جاسکتے ہیں لیکن حبیب جالب کی مزاحمتی شاعری کو ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی لوگ اسے نہیں بھول پائے۔مزاحمتی شاعری کے خالق اور ہر آمرِ وقت کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے والے شاعر حبیب جالب ؔ ؔ کو جن لوگوں نے دیکھا اور سنا ان لوگوں میں مَیں بھی شامل ہوں۔ اس قدر بے باک مزا حمتی لہجہ اور خوبصورت انداز، لہن میں سوز اور درد، میں نے اپنی زندگی میں کوئی اور ایسا دیکھا نہ سنا۔حبیب جالب کے چند اشعار ؎
دوستو جگ ہنسائی نہ مانگو
موت مانگو رہا ئی نہ مانگو
عمر بھر سر جھکائے پھرو گے
سب سے نظریں بچائے پھروگے
اپنے حق میں برائی نہ مانگو
موت مانگو ، رہائی نہ مانگو
تم سے پہلے وہ جو اِک شخص یہاں تخت نشین تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقین تھا
چھوڑ نا گھر کا ہمیں یاد ہے جالب نہیں بھولے
تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صباء، بندہ کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر، دیوار کو در، کرگس کو ہُما کیا لکھنا
دیپ جس کا محلات ہی میں چلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا
پروفیسر فتح محمد ملک جنہوں نے مجموعہ کا فلیپ لکھا، لکھتے ہیں کہ ”علامہ اقبال سے لے کر فراست رضوی تک بیشتر اردو شاعروں نے فلسطینی عربوں کے مصائب پر بڑی مؤثرنظمیں لکھی ہیں مگر فراست رضوی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انہوں نے فقط ایک آدھ نظم پر اکتفا نہیں کیا بلکہ فکر انگیزنظموں پر مشتمل ایک پوری کتاب لکھ ڈالے ہے۔ یہ کتاب شعر و ادب کے ساتھ ساتھ تاریخ و سیاست کا بھی ایک ناقابل فراموش باب ہے۔ اس کتاب میں شاعری تاریخ بن گئی ہے اور سیاست شاعری“۔ صدی ہونے کو آئی فلسطین میں مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کی انتہا ہوچکی لیکن مسئلہ فلسطین مسئلہ کشمیر کی مانند حل نہ ہونے والا موضوع بنا ہوا ہے۔ سو سال ہوئے برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ اُس وقت شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر اقبال حیات تھے انہوں نے ”اعلان بالفور“ کی مذمت کی اور عرب عوام کو جو پیغام دیا تھا اس میں عملی طور پر طریقہ کار اپنا نے کی تلقین کی گئی تھی۔
جس سال پاکستان معرض وجود میں آیا اسی سال یعنی 1947ء میں اقوا م متحدہ نے فیصلہ دیا کہ فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کردیا جائے۔ مغربی علاقہ جہاں یہودیوں کی اکثریت آباد تھی کی ریاست قائم کریں اور مشرقی علاقہ میں اسرائیل وہاں یہودی، فلسطینی، عرب مسلمانوں کی ریاست قائم ہوجائے، جب کہ بیت المقدس اقوام متحدہ کے کنٹرول میں رہے۔ یہودیوں نے اس فارمولے کو قبول کر لیاجب کہ عرب ممالک نے اپنے درمیان فلسطینی مسلمانوں اور یہود ی ریاست کے قیام کو یکسر مسترد کردیا۔15 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا باقاعدہ اعلان کردیا، اس اعلان کے ساتھ ہی اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان جنگیں چھڑ گئیں جو ۵۷سال گزرجانے کے بعد بھی نہ صرف جاری ہے بلکہ اسرائیل کے ظلم و زیادیوں کی انتہا ہوگئی ہے۔ اس دن کو ”یوم نکبہ“ فلسطینی اسے قیامت کبریٰ بھی کہتے ہیں، وہ ہر سال اس دن کو اس طرح مناتے کہ وہ اپنے ہاتھوں میں چابیاں لے کرسڑکوں پر نکلتے ہیں اور احتجاج کرتے ہیں۔شاعر موصوف کے مجموعے میں ”یوم نکبہ“ کے عنوان سے ایک نظم ثلاثی میں کہی گئی ہے کے چند اشعار ؎
)الا ماں اے یوم نکبہ، الحذر یوم ِ سیاہ
سینہئ تاریخ پر ہے زخم کی صورت یہ دن
آج قابض ہوگئی اقصیٰ پہ باطل کی سپاہ
)اس قدر تکلیف دہ منظر کبھی دیکھا نہ تھا
آج کے دن ظلم کی تاریخ نو لکھی گئی
جارحیت جیت جائے گی کبھی سوچا نہ تھا
)آج کا دن نقشِ غم ہے وقت کے اوراق پر
آج کا دن عدل کے اقدار کی توہین ہے
آج کا دن داغ ہے پیشانیئ آفاق پر
مجموعے میں شامل تمام نظموں کا تعلق فلسطین کی مزاحمتی جدوجہد اور یہودیوں کے ظلم و ستم پر تخلیقی اور ادبی اظہار خیال ہے۔اس مجموعے کے خالق فراست رضوی جو شاعر ہونے کے علاوہ نثر نگار بھی ہیں نے اپنی شاعری کی صرف مزاحمتی نظموں پر مشتمل مجموعہ ”سلام فلسطین“ کے عنوان سے مرتب کیا جسے رنگِ ادب پبلی کیشن کے شاعر علی شاعر نے شائع کیا۔ فلسطین اور کشمیر پاکستان کے ادیبوں اور شاعروں کا خاص موضوع رہاہے۔ بے شمار شاعروں نے اپنی شاعری میں فلسطین اور کشمیر پر ہونے والے ظلم و زیادتی کو اپنا موضوع بناتے رہے ہیں۔ فراست رضوی کا ایک شعر ؎
ظلم کی شب سے نہ ڈرنا کہ اسی ظلمت سے
چاند نکلے گا فلسطین کی آزادی کا
فلسطین اور کشمیر میں ظلم و بربریت کا آغاز سابقہ صدی میں ہوا اور دونوں کے حالات اور واقعات ایک جیسے ہیں۔ فلسطین میں اسرائیل اور کشمیر میں بھارت نے مسلمانوں کو آزادی کے حق سے نہ صرف محروم کیا ہوا ہے بلکہ ان علاقوں کے لوگوں پر زندگی تنگ کر دی ہے۔ ادیب اور شاعر حساس دل لیے ہوئے ہوتے ہیں، وہ ظلم ہوتا دیکھ نہیں سکتے۔ ادیب کا قلم آواز بلند کرتا ہے تو شاعر کے احساسات و جذبات اشعار کے ذریعہ ظالم کو للکار تے ہیں۔ چنانچہ کشمیر پر ہونے والا ظلم اور فلسطین میں ہونے والی زیادتی کو شاعروں نے اپنے اپنے انداز سے بیان کیا۔ پیش نظر مجموعہ ”سلام فلسطین“ فراست رضوی کا مجموعہ کلام ہے۔ اس میں صرف اور صرف فلسطین کو موضوع بناتے ہوئے فراست رضوی نے متعدد نظمیں کہیں جو سب کی سب مزحمتی نظمیں ہیں۔ علامہ اقبال نے فلسطین پر ”شام و فلسطین“ جو اقبال کے مجموعے ”ضربِ کلیم“ میں شامل ہے۔ اقبال کی نظم کا ایک شعر ؎
ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عَرب کا
اقبال نے اپنی وفات سے چند ماہ قبل ایک خط 7اکتوبر 1937ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کو بھی لکھا۔ اس میں اقبال جو بیماری کے عالم میں تھے پھر بھی انہیں فلسطین کی صورت حال کی فکر تھی وہ اسرائیل کے قیام کو مسلمانوں کے لیے اہل مغر ب کا گٹھ جوڑ تصور کر رہے تھے۔
ادیب اور شاعر حساس ہوتے ہیں۔ اقبال کے علاوہ دیگر کئی شعرا نے فلسطین اور کشمیر کے لیے مزاحمتی شاعری کی۔ ان میں زیادہ سبقت فیض احمد فیضؔکو حاصل ہے۔ اس کی وجہ سحر انصاری صاحب نے یہ بیان کی کہ”فیصؔ کی نظریاتی اور جذباتی وابستگی اور دوسری وجہ یہ کہ وہ خود بیروت اور فلسطین میں بہ نفسِ نفیس موجود رہے تھے۔ انہوں نے بیروت میں رسالے ’لاٹس‘ کے مدیر اور یاسر عرفات کے ذاتی دوست کی حیثیت سے ماہ سال بسر کیے اور فلسطین کے دکھوں کو بہت قریب سے دیکھا“۔ فیضؔ نے اپنی نظموں کے ذریعے فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والی زیادتی اور مظالم کی ترجمانی دلیری کے ساتھ کی۔ اپنی شاعری کے توسط سے دنیا کے لوگوں کے ضمیر کو بیدار کرنے کی سعئی کی۔ ان کی شاعری میں فلسطین اور فلسطینیوں کے لیے جو استعارے استعمال کیے گئے وہ دیگر شعرا کے ہاں کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ جب وہ بیروت میں تھے تو انہوں نے ”ایک ترانہ مجاہدین فلسطین کے لیے“ کے عنوان سے لکھا، اس ترانے کو مزاحمتی شاعری میں نمایاں مقام حاصل ہوا۔ فیض نے اپنے اس ترانے میں کہا ”ہم جیتیں گے...حقَا ہم اک دن جیتیں گے...بالا خر اک دن جیتیں گے...کیا خوف زِ یلغار اعداء... ہے سینہ سپر ہر غازی کا...کیا خوف زِیورش جیشِ قضا..صف بستہ ہیں ارواح الشہداء...ڈرکاہے کا...ہم جیتیں گے...حقَا ہم جیتیں گے.... قد جاء الحق و زحق الباطل...فرمودہئ رب اکبر...ہے جنت اپنے پاؤتلے...اور سایہ رحمت سر پر ہے...پھر کیا ڈر ہے... ہم جیتیں گے... حقَااک دن جیتیں گے... بالا َخر اک دن جیتیں گے۔ان کے علاوہ فیضؔ نے فلسطین کے حوالے سے دو مشہور نظمیں ”فلسطین شہداء“ اور ”فلسطینی بچے کے لیے لوری“ جو بہت مقبول ہوئی۔فیض کی ایک نظم کے دو شعر ؎
جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم
لہلہا تا ہے وہاں ارض فلطین کا علم
تیرے اعادانے کیا ایک فلسطین برباد
میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطین آباد
فراست رضوی کی مزاحمتی نظموں کے چند اشعار ؎
یقین:
ہم کو دیوار گریہ نہیں چاہیے
سایئہ خوف میں ہم کو جینا نہیں
کشتِ احساس میں
بُزدلی کا کوئی بیج بونا نہیں
ہم کو رونا نہیں
ہم دیوار گریہ نہیں چاہیے
سنو اے غاصبو :
تم نے ہمیں نفرت کی تیغوں سے کیا زخمی
ہمارے پیرہن پر
خون کے دھبے سجائے
ہماری بستیوں پر بم گرائے
ہماری عورتوں بچوں کو
بوڑھوں کو، جوانوں کو
اتارا موت کی وادی میں تم نے
مکانوں کو ہمارے کردیا
بارود کے شعلوں سے خاکستر
ایک فلسطینی کا شکوہ:
قبضے میں ہے اغیار کے اب مسجدِ اقصیٰ
کب ہوگی یہوکی کے تسلَط سے یہ آزاد
کوئی دن آئے گا:
اے فلسطین، بہت زخم ملے ہیں تجھ کو
تیراپیرہن جاں خون میں ڈوبا ہوا ہے
تیراحق چھین لیا اہلِ جفا نے تجھ سے
بے وطن ہونے کا غم روح میں اُتر ا ہوا ہے
القدس ہمارا ہے :
قابض ہیں ہماری بستی پر
سفاک یہودی حیلہ گر
نفرت ہے بھری اج کے اندر
ہم بھی ہیں مگر لوہے کا چنا
القُدس لنا ، القُدس لنا
یوم القدس:
یوم القدس ہے
ماہ رمضان کا جمعہ آخری
عالمی یوم القُدس ہے
یاد اقصیٰ کا دن، بیتِ مقدس سے
اظہار ِ الفت کا دن
سو برس ہوگئے :
غلم کے عہد غم ناک کو سو برس ہوگئے
امن کے دامنِ چاک کو سوبرس ہوگئے
رات کیسی ہے یہ
اک صدی ہوگئی اور جاتی نہیں
حُریت کا سویرا نجانے کہا ں سوگیا
مغرب سازشوں کی گھنٹی دُھند میں
راستہ کھو گیا
سو برس ہوگئے۔
پیس نظر مزاحمتی شعری مجموعہ پر مصنف کو مبارک باد، یہ یقینا ایک یاد گار کارنامہ ہے۔ پروفیسر سحر انصاری نے سچ لکھا کہ فراست رضوی کا مجموعہ ”سلام فلسطین“ جدید اُردو شاعری میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ (19 نومبر2024ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1436289 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More