پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے

مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا

اسلامی اقدار کا فروغ بھی ہماری ذمہ داری ہے

تمام خواتین و حضرات نوٹ فرما لیں کہ پاکستان کا اصل نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ جس میں سے پاکستان ١٩٤٧ کو معرض وجود میں آگیا تھا۔ اس کے بعد جمہوریہ کو درست کرتے سالہاسال لگ گئے ہیں نا اچھا مستری ملا نہ جمہوریت پٹری پر چڑھی، کچھ نے جمہوریت کو بستر قرار دے کر اوڑھنا بچھونا بنا لیا ، کسی نے چپل پہن کر اس کی حفاظت کی تو کوئی بوٹوں سمیت اس پر چڑھ دوڑا۔ کمال لوگوں کو اس میں مسکن میں، اعلی تعلیم کیلئے بچوں کو انگریزی سکولوں میں پڑھاتے ہیں بچپن سے شیں جوانی تک انگریزی تلفظ درست کرواتے چلے جاتے ہیں، جب جمہوریت کا راگ الاپنا ہو تو اسی انگریزی ماڈل بچے سے شستہ اردو کی امیدیں لگا کے بیٹھ جاتے ہیں۔

بات اردو کی چل نکلی تو یاد آیا کہ یہ بھی ہماری قومی زبان ہے۔ معاف کیجئے گا میں اس میں ۔۔۔یہی۔۔۔ کا لفظ نہیں لکھ سکا کیونکہ ہم سکولوں میں ایڈمیشن کرواتے اور ہسپتال میں داخلہ تو یہی کچھ بچنا ہے ہمارے پاس۔ اس قوم کو جب الو بنانا ہو تو مالی معاونت کے فارم بھی انگریزی میں چھاپے جاتے ہیں کہ نا کسی کوسمجھ آئے نا وہ غور کرے کہ بلاسود قرض کی مد میں اس کے خاندان کو ہی گروی رکھ دیا جاتا ہے۔ بات الو کی ہے تو آج تک جمہوریت کے رکھوالوں کا وہی سیدھا نہیں ہوا۔

خیر سیدھا تو یہاں صرف وہی بندہ ہے جس کا ٹی وی ، میڈیا، سوشل میڈیا سے واسطہ نہیں، ورنہ ہر چیز ٹیڑھی ہی ہے چاہے کسی کی آنکھ ہو یا معدے کی آنت۔ ہسپتال بھرے پڑے ہیں کہ کوئی چیز ہضم نہیں ہوتی دوسرے طرف قوم کا اربوں کھربوں ڈکار گئے اور معدے خراب تک نہیں ہوا۔ لیکن جمہوریت سلامت ہے۔ بسا اوقات اردو میں انگریزی کا پنکچر بھی خوب جچتا ہے جیسے کہتے ہیں جمہوریت ڈی ریل نہیں ہونی چاہیے۔ معیشت، انصاف، قانون، عوام، سکون ہر چیز ڈی ریل ہوئے جمہوریت کا پہیہ چلنا چاہیے کیونکہ یہ واحد راگ ہے جو جس وقت بھی الاپا جائے پورے سُر میں رہتا ہے ۔

چلو فیر سُر کی سُر لے لیں کسی سُریلے بندے نے کہا تھا کہ جو بے سُرے ہیں وہ ہسپتال بنا رہے ہیں اور جو سُر والے ہیں وہ اس میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہاں بڑے بڑے خاندانی گلوکار کسمپرسی کی حالت میں دنیا سے سدھار گئے اور دوسری طرف چاہت فتح علی اپنی بہترین جگہ بنا گئے۔ خیر جگہ تو ہمارے پاس کافی ہے کھیت کھلیان پر ایسے ہی فضول پیسہ لگا دیتے ہیں قالونی بنائیں، پلازے کھڑے کریں اور پیسے کمائیں کوئی پوچھنے آئے کہ یہ زرخیز زمین تھی اس پر کالونی کیسے بنا لی تو فورا وہ نمائندہ آڑے آجاتا ہے جس کو جمہوریت کی حفاظت کیلئے اسمبلیوں میں بھیج رکھا ہے۔ ہر کوئی اجڑ جائے لیکن جمہوریت کی گاڑی نہیں رکنی چاہیے کیونکہ اس سے وابستہ لوگوں کا کاروبار ٹھپ ہوجاتا ہے۔

کاروبار کی کیا بات کریں صاحب یہ تو ہوائی روزی ہے۔ کسی کی ایک نہیں چلتی کسی کے ٹرک چل جاتے ہیں۔ بات جمہوریت سے آگے نا بڑھے تو اسلامی ٹچ دے دیتے ہیں کیونکہ پاکستان کا اصل نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ یہاں پاکستان بننے سے آج تک اسلام کے نفاذ کی کوششیں ہورہی ہیں اور کوشش وہ افراد کر رہے ہیں جن کی تعلیم یا تو پاکستان کے انگریزی سکولوں میں ہوئی یا اصلی انگریزوں کی یونیورسٹیوں میں۔ رہے دینی مدارس تو ان کو چندہ جمع کرنے سے فرصت ملے تو اسلام کی خبر لیں۔ بینک میں مدرسہ، مسجد کا اکاؤنٹ کھلوانا ہاتھی کو سٹول پر بٹھانے کے مترادف ہے لیکن ہاتھی پھر بھی بیٹھ جاتا ہے بینک والوں کے نخرے ختم نہیں ہوتے لیکن حج درخواستوں اور تکافل کے وقت یہی مساجد اور مدارس ان کو یاد آجاتے ہیں۔

پاکستان میں جمہوریت قائم ہو جائے تو اسلام کی طرف بھی توجہ دی جائے تاکہ ہمارے وزراء باتدبیر کو سورہ اخلاص سناتے وقت سبکی کا سامنا نہ ہو یا نماز پڑھنے کے دوران دوسروں کو دیکھ کے نہ سیکھنا پڑے کہ اب ہاتھ کانوں تک اٹھانے ہیں یا رکوع میں جانا ہے ۔
 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Read More Articles by محمد قاسم وقار سیالوی: 15 Articles with 3519 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.