میرا صاحب انگریزی اینگتا ہے

انگریزی بولنے کے شوق نے ہمیں پھسٹڈی قوم بنا دیا ہے‘ سیاستدان‘ امرائ‘ طلبائ‘ ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ باوردی اور بے وردی چھوٹے بڑے افسران ،کبھی کبھار دیہاتوں میں جانے والے شہری اور شہروں میں نوکری کرنے والے دیہاتی‘ ماڈرن بننے اور نظر آنے والی خواتین‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ نظر آنے کے خواہش مند بی اے فیل اورمیٹرک پاس خواتین و حضرات دوران گفتگو انگریزی کے الفاظ یا ٹوٹے پھوٹے جملے استعمال کر کے دوسروں پر دھاک بڑھانے کی مضحکہ خیز کوشش کرتے ہیں، اس کی ایک وجہ احساس کمتری‘ دوسری ذہنی غلامی اور تیسری فیشن ہے، انگریزی بولنے کے شوقینوں کی اکثریت عموماً اس وقت انگریزی جھاڑتی ہے جب محفل میں انگریزی بولنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم حضرات و خواتین موجود ہوں،کبھی ایسا ہوتا ہے بظاہر ”چٹا ان پڑھ“ نظر آنے والا شخص، پڑھے لکھے دیسی انگریز کی انگریزی پر پہلے تو مسکراتا ہے اور پھر اچانک ایسی انگریزی برساتا ہے کہ دیسی انگریز کو دن میں سٹارز نظر آنے لگتے ہیں ،دیسی انگریز مقابلے کی کوشش کرتا مگر دو چار جملوں کے بعد جب اس کا سٹاک ختم ہو جاتا ہے تو وہ ہر جملے کے جواب میں صرف YesیاNo کہہ کر کام چلاتا ہے لیکن ظاہر ہے Yes‘No سے کام کب چلتا ہے لہٰذا دیسی انگریز کچھ دیر ایں ایں کرتا ہے اور پھر انگریزی سے اردو کی طرف اورآخر کار اپنی مادری زبان یعنی اپنی ”تھاں“ پر آ جاتا ہے۔ تقریبات میں عورتوں کی انگریزی سن کر لطف دوبالا ہو جاتا ہے انکی گفتگو میں مختلف Coloursکے نام Beautiful‘ Hasband‘ Stylish‘ Actualy‘ Cute‘ Hair‘ Busy‘ You know‘ Engagementاور Selfishجیسے الفاظ بکثرت استعمال ہوتے ہیں لیکن زیادہ پرلطف چیز وہ انداز ہے جو عورتیں آپس میں ملتے اور بات چیت کرتے ہوئے اپناتی ہیں، یونیورسٹی میں جب لڑکیاں اکٹھی ہوتی تھیں تو بعض دفعہ ”مجبوراً “ان کی گفتگو سننے کا موقع مل جاتاتھا: اری شمیم آج تو غضب ڈھا رہی ہو‘ قسم سے believe me یہ colourتمہیں بہت suitکرتا ہے, really wonderfulیہ تو بتاؤ یہ خریدا کہاں سے ہے؟ (شمیم شرماتے ہوئے( وہ دراصل میری engagement.... کیا تمہاری engagementہو گئی ہے‘ کب ہوئی ہے‘ اف اللہ کتنی ظالم ہوidiot ہمیں informہی نہیں کیا‘ کتنی salfishہو‘ جاؤ میں تم سے نہیں بولتی۔ نائلہ وہ دراصل یہ سب کچھ اتنا suddenlyہوا کہ مجھے کسی کو Informکرنے کا chanceہی نہیں ملا، الفاظ کو لمبا کر کے یا دبادبا کر یا پتلی آواز میں چیختے ہوئے ادا کرنا بھی انگریزی فیشن کا حصہ ہے۔

صاحب لوگ اپنی برتری ثابت کرنے کیلئے انگریزی الفاظ اور جملوں کا استعمال کچھ اس طرح کرتے ہیں: دیکھیں جی مسئلہ fundsکا ہے‘we dont have fundsتو tell meپھر ہم یہ کام کیسے کرائیں‘ actualy ہمارے ہاں resourcesکی utilizationکا مسئلہ ہے untill we don,t have a proper way میرا مطلب ہے کہ جب تک وسائل resources جو کہ موجودہیں یعنی resources which are available ان کے استعمال کا کوئی proper نظام proper systemنہیں بنتا‘ اس وقت تک ہمارے مسائل ہمارے problems حل نہیں ہو سکتے so we must have a proper system and میں یہ بھی کہوں گا publicکوبھی اپنی responsibilities کا احساس کرنا چاہئے‘ ہماری publicکو اپنی responsibilitiesکا پتہ ہی نہیں ہے ”آپ کے ملک ''کے عوام کو پتہ ہی نہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ They don,t know their responsibilityتو آپ ہی بتائیں ملک ترقی کیسے کرے؟

افسر اپنے ماتحت سے گفتگو کرتے ہوئے : دیکھوyoungman یہ competitionکا دور ہے تم خوش قسمت ہو you are lucky کہ تمہیں jobمل گئی اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو تو you will have to workhard میرا مطلب ہے i meanکہ you must be regular and punctual you must pay full attention to your work. under stand.ok

جب شہری بچے دیہات میں جاتے ہیں تو دیہاتی بچوں سے ان کی گفتگو کچھ اس طرح ہوتی ہے۔ نومی (شہری بچہ) عطاءاللہ (دیہاتی بچہ) سے: میرے dadyاور میری mamaنے مجھے بہت سارے toysلے کر دئیے ہیں میرے پاس ایک aeroplane‘ ایک بھالو‘ دوball‘ ایک train اور ایک pianoہے اور بھی میرے پاس بہت سارے toys ہیں۔ میرے dadyاور mamaمجھے zooبھی لے کر گئے تھے وہاں میں نے elephant‘ tigar‘ lion‘deer‘ bearاور parrot اورpigeonاور zebra اورrabitاور monkiesاور ،اور بہت سارے animalsدیکھے تھے۔ عطاءاللہ نومی سے: میرے ابا نے بھی مجھے اتنے سارے ”کھڈونڑیں“ ”گھن“ کے دئیے ہیں‘ میرے پاس ”چھنڑکلا“ ٹرکٹُر ”داند“ جیپ اور تریے” بھو کانے“ ہیں۔ میں ابے کے ساتھ”مًیرے “ پر گیا تھا ادھر اتنا وڈا ”گدڑ“ ہم نے دیکھاتھا”مًیرے“ پر چڑیاں‘ طوطے‘ ”کلبوتر“ چوہے‘ لومڑیاں اور تتر بھی ہوتے ہیں۔ ادھر ہم نے بیر بھی کھائے تھے۔

شہری عورتیں جب دیہاتوں میں جاتی ہیں: بچوں کے exames ختم ہو گئے تو ہم نے سوچا گاؤں کا چکر لگاآئیں،بچے بھی تھوڑے freshہو جائیں گے‘ بچارے ہروقت studyکرتے رہتے ہیں، آج کل booksاتنی difficultہیں ہمیں تو سمجھ ہی نہیں آتی، ان کے dady کو بھی timeنہیں ملتاoffice سے واپس آتے آتے 8بج جاتے ہیں ، پہلے ہم نے ان کی Tutationلگوائی تھی لیکن آنے جانے میں timeبہت Waste ہوتا تھا اب tutorگھر پر ہی آتا ہے، آج کل اتنا سخت competitionہے توبہ توبہ۔ آپ لوگوں کا washroom کدھر ہے؟(دیہاتی عورت) اُدھر مہمان بیٹھے ہیں‘ آپ اِدھر”پساری“ میں ہی بیٹھ جائیں۔ میں washroomکا پوچھ رہی ہوں‘latrine...toilet۔ اچھا اچھاخالہ جی وہ "letreen"تو ہمارے گھر میں نہیں ہے۔ ہائے اللہ آپ کے گھر میں toiletنہیں ہے تو آپ لوگ کیا کرتے ہیں، خالہ جی وہ دراصل ہم لوگ ”کَسی“ میں جاتے ہیں‘ ہائے میں مر گئی!!

رحمت شاہ اسلام آباد میں ایک دفتر میں کام کرتا ہے‘ ایک دن وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا سر یہ صاحب لوگ سیدھی زبان میں بات کیوں نہیں کرتے‘ انہیں پتا ہے ہم چوکیدار لوگ ان پڑھ ہوتے ہیں تو پھر یہ ہمارے ساتھ اردو کی بجائے انگریزی میں بات کیوں کرتے ہیں؟ ہمارے ساتھ انگریزی بول کر یہ ہم پر رعب جھاڑتے ہیں لیکن جب کبھی ہمارے دفتر میں گورے آتے ہیں تو ہمارا صاحب ان کے سامنے ایں ایں کرنے لگتا ہے، ان کے سامنے انگریزی بولیں تو پتہ چلے،ان کے سامنے ایک جملہ بولتے ہیں اورپھر پانچ منٹ تک
ایں ایں ہوتی رہتی ہے، نوابی صاحب میں آپ کو کیا بتاؤں، میرا صاحب تو انگریزی بولتا نہیں بلکہ انگریزی”اینگتا “ ہے۔
Saeed Nawabi
About the Author: Saeed Nawabi Read More Articles by Saeed Nawabi: 23 Articles with 33112 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.