جغرافیائی سیاست نے، اللہ کا
احسان ہے، پاکستان کا جغرافیہ تو نہیں بگاڑا مگر ہاں، موسموں کی چال ضرور
بدل دی ہے۔ کل تک پاک وطن میں چار موسم ہوا کرتے تھے۔ سردی، گرمی، خزاں اور
بہار۔ پانچوں موسم، بقول شاعر، پیار اور انتظار کا ہوا کرتا تھا! مگر اب
ایک نیا پانچواں موسم متعارف ہوا ہے۔ تا حال یہ طے نہیں پایا کہ اِسے کیا
نام دیا جائے۔ سیلاب کا موسم؟ اِمداد کا موسم؟ جی حضوری کا موسم؟ وعدوں اور
دعووں کا موسم؟ یا پھر سیلاب زدگان کی امداد، بحالی اور آباد کاری کے نام
پر تجوریاں بھرنے کا موسم!
کل تک آسمان سے پانی برستا تھا تو زمین کی طرح غریبوں دِل بھی کِھل اُٹھتے
تھے۔ تقدیر میں بھلے ہی اندھیرے لِکھے ہوں، بارش سے غریبوں کی آنکھوں میں
اُمیدوں کی چمک پیدا ہوا کرتی تھی۔ بد اعمالیوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ
دُعائیں مستجاب ٹھہرتی ہیں اور آسمان سے رحمت برسنے کا عمل شروع ہوتا ہے تو
دِل دَہلنے لگتے ہیں۔ بارش ذرا زیادہ اور تیز ہو تو سیلاب کا سوچ سوچ کر
غریبوں کی جان پر بن آتی ہے اور جو سیلاب کو کنٹرول کرنے کا اختیار رکھتے
ہیں اُن کی تو جیسے مُراد بر آتی ہے!
سیلاب کی آمد کے بعد غریبوں کے ہونٹوں پر دُعائیں اور سامنے وبائیں ہوتی
ہیں۔ سیاست کا میدان کچھ اِس انداز سے سجا ہے کہ لاکھوں مفلس و نادار
میدانوں میں پڑے ہیں۔ سوال صرف بے گھری کا نہیں، در بہ دری کا بھی ہے۔ گھر
تو گھر، میدان میں بھی اِس قابل نہیں رہے کہ اُن کی آغوش میں کچھ دِن ڈھنگ
سے گزارے جائیں! سیلاب کے آنے سے ایک اکھاڑا سج جاتا ہے جس میں غریبوں کی
مدد کرنے کے بعد نام پر نُورا کشتی ہوتی رہتی ہے۔
کروڑوں کی اشتہار بازی کو حکمرانی سے وابستہ فرائض کا حاصل سمجھ لیا گیا
ہے۔ میڈیا کے ذریعے لوگوں کو امداد کے حوالے سے متحرک رکھنے کی کوشش کرنے
اور میڈیا ہی کو سیاسی کشتی کا اکھاڑا بنانے میں تو زمین آسمان کا فرق ہے۔
اگر ٹاک شو میں کی جانے والی باتوں سے پیٹ بھرا جاسکتا تو آج ہر پاکستانی
”انڈر ٹیکر“ ہوتا!
ساون کے اندھے کو ہرا ہی ہرا سوجھتا ہے۔ مگر ہمیں تو ساون نے ایسا بھگویا
ہے کہ چرنے کو صرف سبزہ رہ گیا ہے اور سبزیاں ٹارگٹ کلرز کی طرح ایسی روپوش
ہیں کہ کہیں اُن کا سُراغ نہیں ملتا! بارش اور سیلاب کے بعد وعدے اور دعوے
کرنے والوں کے سبز قدم کیا پڑے، سبز خوراک نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا! مسند
ہائے اقتدار پر متمکن اہل ستم نے کچھ ایسے گل کِھلائے ہیں کہ اسلامی دُنیا
کی واحد ایٹمی قوت ”جنم جات شترو“ بھارت سے ٹماٹر خریدنے پر مجبور ہے! اور
جس افغانستان کی اپنی پَرتیں پیاز کے چھلکوں کی طرح اُترتی جارہی ہیں وہ
ہمیں پیاز برآمد کر رہا ہے! زمانہ عالمگیریت کا ہے اِس لیے ہم امداد اور
درآمدات کے معاملے میں ایک دو ممالک کے در سے وابستہ نہیں رہنا چاہتے۔
سیلاب کے باعث فصل خراب ہونے سے سُرخ مرچوں کا بھی کال پڑا ہے اِس لیے اب
سُرخ مرچیں چین، بھارت اور برما سے منگوائی جارہی ہیں۔ فی الحال پیاز اور
ٹماٹر میں سے ہر ایک کی درآمد یومیہ ڈیڑھ سے دو ہزار ٹن تک ہے اور سُرخ مرچ
کی درآمد 100 ٹن یومیہ تک محدود ہے۔ طلب بڑھنے کے ساتھ ساتھ ”دو طرفہ“
تجارت کا حجم بھی بڑھتا جائے گا۔ بازار پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ
فصلیں خراب ہو جانے کے بعد دوسری سبزیاں بھی درآمد کرنا پڑیں گی۔
لوگ بجلی کو ترس رہے ہیں اور میڈیا پر سیاستدان ایک دوسرے کو الزامات اور
طعنوں کے جھٹکے دینے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ عوام جس کرنٹ کی
راہ تک رہے ہیں وہ کرنٹ افیئرز میں گھس گیا ہے۔ پہلے دریا بپھرے اور پھر
بجلی کے بحران پر پنجاب میں لوگ بپھر گئے۔
پنجاب میں ڈینگی نے قیامت ڈھائی ہے۔ مگر اِس قیامت کے ہاتھوں کچھ دِل بستگی
کا سامان بھی ہوا ہے۔ میڈیا کے جنگل میں بڑے بڑے سیاسی ہاتھی ایک دوسرے پر
ڈینگی کی پھبتی کَستے نظر آتے ہیں! سرکاری سطح پر ہنسانے والوں کی کمی
نہیں۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ٹیکسلا میں انڈر پاس کا
سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم بھی چاہتے تو ڈینگی
پر سیاست کرسکتے تھے! ہم تو سوچ سوچ کر تھک گئے مگر کچھ اندازہ نہ ہوسکا کہ
ڈینگی پر وفاقی حکومت کیا سیاست کرسکتی تھی! کیا ڈینگی وائرس کو مسلم لیگ
(ن) کی ٹیکنالوجی کا شاہکار قرار دیا جاتا؟ یا شہباز شریف کو ڈینگی کی
افزائش کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا جاتا؟
وزیر اعظم سمیت پوری کابینہ کا یہ حال ہے کہ احباب ایک بات کہتے ہیں اور
بیچ میں چھوڑ کر چل دیتے ہیں۔ عوام بے چارے سوچتے اور غور کرتے ہی رہ جاتے
ہیں کہ وہ بات کس سیاق و سباق میں کہی گئی ہے! اچھا ہے کہ کسی بھی بے سر و
پا نکتے کی ”شان نزول“ بھی عوام پر آشکار کردی جائے۔
گیلانی صاحب نے یہ شِکوہ بھی کیا کہ فوجی آمروں کو دس دس سال برداشت کیا
جاتا ہے اور کرپشن کا الزام عائد نہیں کیا جاتا، مگر سیاست دان اقتدار میں
آئیں تو برق رفتاری سے کرپشن کے الزامات عائد کرنے کا سلسلہ شروع کردیا
جاتا ہے۔ بات اِتنی سی ہے کہ سیاست دانوں کے آتے ہی کرپشن بھی برق رفتاری
کا مظاہرہ کرنے لگتی ہے۔ کرپشن فوجی اقتدار کے زمانے میں بھی ہوتی ہے مگر
بہرحال اُس کا بھی ایک ڈسپلن ہوتا ہے۔
حکومت دکھ درد کے ماروں کو اور کچھ تو دے نہیں سکتی اِس لیے تھوڑا بہت
ہنساتی رہتی ہے تاکہ وہ اپنے غم بھول جائیں۔ عام آدمی سے پوچھیے تو وہ وزرا
کی فوج ظفر موج کو قومی خزانے پر بوجھ قرار دے گا۔ مگر صاحب! سچ یہ ہے کہ
وزراءاور مشیروں کے دم سے ظرافت کے بازار کی رونق سلامت ہے۔ سندھ کے ایک
وزیر نے فرمایا ہے کہ نواز شریف قومی مجرم ہیں، اپنی باری کا انتظار کریں!
یہ جملہ اِس قدر خوبصورت ہے کہ پڑھ کر ہم تو ساکت رہ گئے۔ (”مبہوت“ ہم اِس
لیے نہیں لکھ رہے کہ لوگ ”بھوت“ پڑھ بیٹھیں گے!) اعلیٰ ظرفی کا تقاضا یہ ہے
کہ کوئی تبصرہ کرکے ہم ”قومی مجرم اور باری کے انتظار“ والے جملے کا حُسن
غارت نہ کریں! |