ممبئی سے شائع ہونے والے ادبی
رسالہ ماہنامہ تحریر نو کے جون کے شمارے میں معروف نقاد ڈاکٹر مناظر عاشق
ہرگانوی نے ایک مضمون ”خوش فہمی کے غار میں دھنسے اردو کے بعض قلمکار“ میں
افسانہ نگار شموئل احمد کے حوالے سے ان اردو قلمکاروں کے چہرے سے تصنع اور
ریاکاری کی نقاب نوچ پھینکنے کی کوشش کی ہے جو بزعم خویش اردو زبان و ادب
کے ٹھیکیدار ہیں اور جن کے دم قدم سے اردو کے سینے میں دل دھڑکتا رہتا ہے
اور جو خود کو اس دل کا پیس میکر تصور کرتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ اس خوش فہمی
کا کمبل بھی اوڑھے ہوتے ہیں کہ وہ صرف ”اردو بازار“ کے ہی نگینے نہیں ہیں
بلکہ ”ہندی بازار“ کے بھی پسندیدہ برانڈ اور اینٹک پیس ہیں اور اردو والے
انہیں قدر کی نگاہ سے بھلے نہ دیکھتے ہوں ہندی والے ”کرنسی بدست“ ہو کر ان
کی جانب دوڑ لگاتے ہیں۔
انہوں نے پبلیشروں کے حوالے سے بھی کچھ عرض حال کیا ہے اور جو کچھ بھی کہا
ہے بالکل درست کہا ہے۔ راقم الحروف اردو صحافت اور اردو زبان کا ایک معمولی
سا طالب علم اور ادنیٰ سا قاری ہے۔ اس کی بھی چند تصنیفات شائع ہو چکی ہیں
اور چند تصنیف و ترتیب اور طباعت کے مرحلے میں ہیں۔ پبلیشروں کی شاہکار کبر
ونخوت کا شکار یہ خاکسار بھی ہوا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے۔ کچھ تجربات آپ
لوگوں کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ میں میڈیا پر اپنی پہلی کتاب لے کر ایک
ایسے پبلیشر کے پاس گیا جن کاحلقہ ذرا وسیع ہے اور جو ملک بھر کی
لائبریریوں اور یونیورسٹیوں اور کالجوں تک اپنی چھاپی ہوئی کتابیں پہنچا
دیتے ہیں۔ مجھے اپنی کتاب کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اسے لوگ کس
طرح لیں گے، نہ ہی کوئی خوش فہمی یا غلط فہمی تھی۔ موصوف اپنی بازار شناس
اور مسودہ پرکھ نظروں کے اشاروں کنایوں کی زبان خوب سمجھتے ہیں۔ انہوں نے
مسودہ کی سرسری ورق گردانی سے تاڑ لیا کہ اس میں قارئین کی جیب کشی یا جیب
تراشی کی صلاحیت موجود ہے، لہذا پچاس نسخوں کے عوض اپنے خرچ پر کتاب شائع
کرنے کی آفر دے دی۔ مجھے لگا کہ پبلیشر پھنس گیا ہے اور جہاں دوسرے دس پانچ
نسخوں میں ٹرخانے کی کوشش کرتے ہیں وہیں اس نے پچاس نسخوں کی پیش کش کر دی
ہے۔ میں نے فوراً منظوری دے دی اور یہ بھی نہیں کہا کہ میں نے مسودے کی
کمپوزنگ پر جو خرچ کیا ہے وہ کیش کی صورت میں دے دیں۔ بعد میں ان کے ساتھ
ہوئے دوسرے تجربات کی روشنی میں اندازہ ہوا کہ اگر میں اس کا مطالبہ کرتا
تو وہ مجھے بیرنگ ہی لوٹا دیتے۔ کتاب شائع ہوئی اور خلاف توقع مقبول بھی ہو
گئی۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ اس وقت تک اس موضوع پر اردو میں کوئی کتاب نہیں
تھی(اب بھی چند ہی ہیں)۔ جبکہ اردو میں صحافت کا کورس کرنے والوں کو ایسی
کتاب کی بڑی ضرورت تھی۔ اس کتاب نے اس کمی کو بڑی حد تک پورا کر دیا۔ طرفہ
تماشہ دیکھئے کہ کتاب پر ”جملہ حقوق بحق مصنف “ کے (رسمی اور بے مصرف)
لاحقے کے باوجود پبلیشر نے بغیر اجازت اس کے دو ایڈیشن اور چھاپ لیے۔ جب
راقم کو خبر ہوئی اور اس بارے میں شکایت کی تو انہوں نے رائیلٹی کے نام پر
چند نسخے دے دیے۔ دوسرا طرفہ تماشہ یہ کہ انہوں نے ہم سے کہا کہ اگر آپ کو
کتابیں درکار ہوں گی تو ہم آپ کو پچاس فیصد کمیشن پر دے دیں گے۔ گویا اس
طرح انہوں نے حاتم کی قبر پر شاہ خرچی کی اور ہماری پشت پر احسانات کی لات
رسید کر دی۔ تیسرا طرفہ تماشہ ملاحظہ فرمائیں کہ راقم نے تمام نسخے علم
نواز دوستوں میں تقسیم کر دیے اور اس کے بعد بھی متعدد دوستوں کی
فرمائشیںباقی رہیں اور ہم نے پبلیشر محترم سے وقتاً فوقتاًتقریباً چار ہزار
کی کتابیں نصف قیمت پر خریدیں اور انہوں نے بھی پوری تاجرانہ دیانت داری
برتتے ہوئے دو دو چار چار روپے کی شکل میں چینج بھی بہ اصرار ہم سے وصول کر
لیے۔ بعد میں ہم ایک اور مسودہ لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس بار
بڑے زعم کے ساتھ یہ سوچ کر گئے کہ ہماری یہ کتاب بھی میڈیا پر ہے اور اچھی
بھی ہے۔ لہذا ہم سو نسخوں سے کم پر بات بھی نہیں کریں گے۔ لیکن پبلیشر
محترم کی دزدیدہ نگاہوں اور شکن ہائے ابرو و پیشانی کی تاب نہیں لا سکے اور
ان کی تاجرانہ صلاحیتوں کے آگے اپنی تخلیقانہ صلاحیتوں کے ہتھیار ڈال دیے۔
اس بار انہوں نے از راہ کرم پانچ نسخوں کا اضافہ کر دیا اور ہم 65نسخوں پر
سودا کر کے اپنا سا منھ لے کر واپس آگئے۔ البتہ اس بار ہم نے بہت کوشش کر
کے ہمت جٹائی اور بڑے تمکنت کے ساتھ کہا کہ ہم نے کمپوزنگ پر جو خرچ کیا ہے
وہ تو آپ کو دینے پڑیں گے۔ اس پر انہوںنے ہم پر بہت غضبناک نظر ڈالی اور
کہا کہ ایسی بات ہے تو آپ مسودہ لے جائیے، بہار سے ہمارے پاس بہت سے کمپوزڈ
مسودے آتے ہیں اور وہ ہم سے کمپوزنگ کی قیمت نہیں مانگتے۔ اور ہم نے تو آپ
کو اتنے زیادہ نسخے دے دیے دوسروں کو تو ہم دس پانچ سے زیادہ نہیں دیتے۔ ہم
لاجواب ہو گئے اور اپنی ”جرات رندانہ“ کو کوستے ہوئے واپس آگئے۔ بعد میں
ہمارے کئی مصنف دوستوں نے کہا کہ واقعی تم خوش قسمت ثابت ہوئے ہو۔ یہ لوگ
تو چھپائی کی پوری قیمت لیتے ہیں، ایک ہزار سے کم چھاپتے نہیں، مصنف کو
تعداد اشاعت کی ہوا نہیں لگنے دیتے اوراس کو کچھ نسخے پکڑا دیتے ہیں اور
پھر کتاب فروخت کر کے ساری کمائی اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں۔ دوسرے
پبلیشروں سے معاہدے کے مواقع پر بھی ہمیں تقریباً ایسے ہی تجربات سے گزرنا
پڑا۔ اسی کے ساتھ یہ انکشاف بھی ہوا کہ دوسرے تمام پبلیشر یا تو اپنے خرچ
پر چھاپتے ہی نہیں یا چھاپتے بھی ہیں تو مصنف کو از راہ ترحم اتنے نسخے دے
دیتے ہیں کہ اگر ان کا شمار کیا جائے تو دونوں ہاتھوں کی انگلیاں فاضل پڑ
جائیں ۔ اس طرح ہم اپنی کئی کتابوں کے جملہ حقوق غیر اعلانیہ طور پر ایسے
تجارت پسند پبلیشروں کے نام وقف کر چکے ہیں۔
یہ عجیب المیہ ہے کہ تخلیق کار دنوں کا سکون، راتوں کا چین غارت کر کے اور
خون جگر جلا جلا کر اور ”تخلیقی درد زہ“ سے گزر کر جب کوئی فن پارہ تخلیق
کرتا ہے تو اس کے حصے میں محض مصنف یا تخلیق کار کا تمغہ آتا ہے اور مالی
فائدہ پبلیشر بٹور لے جاتا ہے۔ یہ صورت حال اردو میں زیادہ سنگین ہے بلکہ
سنگین تر اور سنگین ترین ہے۔ البتہ انگریزی کے بیشتر مصنفین کو، جن کی
تصنیفات بڑے پبلیشنگ ادارے چھاپتے ہیں، رائیلٹی کی صورت میں خطیر رقم ملتی
ہے اور اگر کتاب مقبول ہو گئی اور اس کے مزید ایڈیشن بھی چھپنے لگے تو
رائیلٹی مسلسل ملتی رہتی ہے۔ شہرت بونس میں ملتی ہے۔ بڑے ادارے جو اردو کی
کتابیں کم چھاپتے ہیں اس بارے میں قدرے دیانت دار ہوتے ہیں اور اگر چہ وہ
کتاب کی اشاعت سے قبل مسودے میں ایسی ترمیمات کرواتے ہیں کہ مصنف کو صبر
آزما دور سے گزرنا پڑتا ہے لیکن اشاعت کے بعد ساری کلفتیں دور ہو جاتی ہیں
اور تخلیق کار کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کا ”تخلیقی درد“ ضائع نہیں ہوا ہے۔
اردو میں تو یہ حال ہے کہ مصنفوں کو اپنی اچھی تصنیفات پر بھی مالی فائدے
کی خواہشوں کا ”ابارشن“ کرانا پڑ جاتا ہے۔ ایک طرف پبلیشر یہ رونا روتے ہیں
کہ جناب اردو کی کتابیں کون خریدتا ہے ، یہ تو بکتی ہی نہیں، ان میں تو
پیسہ پھنسانا بلکہ ڈبوناہوتا ہے اور دوسری طرف دھڑا دھڑ اردو کتابیں شائع
ہوتی ہیں۔ اگر آپ صرف دہلی کے اردو بازار کا دورہ کریں تو پائیں گے یومیہ
کوینٹل کی کوینٹل کتابیں دوسرے شہروں میں بہ تعمیل آرڈر بھیجی جاتی ہیں اور
ہزاروں روپے کی کتابیں ایک ایک دکان سے یومیہ فروخت ہوتی ہیں۔ لیکن اس
مرثیے کا ٹیپ کبھی بند نہیں ہوتا کہ اردو کی کتابیں کون خریدتا ہے اور کون
پڑھتا ہے، اس میں لگایا جانے والا پیسہ ضائع ہو جاتا ہے۔ لیکن یہی پبلیشر
جو مصنف کو اس کا حق المحنت دینا گوارہ نہیں کرتے ، اگر مفت میں مسودہ مل
جائے تو فوراً شائع کر دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں اس کی لاگت ضائع نہیں ہوتی۔
اس لیے راقم الحروف کے ذہن ودماغ میں بار بار یہ خیال آتا ہے کہ اگر ایک
عدد ”انجمن رائیلٹی پسند مصنفین“ قائم ہو جائے اور تمام تخلیق کار اور مصنف
یہ عہد کر لیں کہ ہم اپنا مسودہ یا تو خود چھاپیں گے یا بغیر رائیلٹی کے
پبلیشر کو نہیں دیں گے، تو میرا خیال ہے کہ ایک تکلیف دہ اور صبر آزما
مرحلے کے بعد وہ صبح ضرور طلوع ہوگی جب پبلیشر محترم مصنفوں اور تخلیق
کاروں سے کہیں گے کہ جناب آپ کو رائیلٹی ہی چاہیے، اس میں کیا بات ہے۔ آئیے
ہم آپ کو رائیٹی دیتے ہیں ، آپ اپنا مسودہ ہمیں ہی دیجئے۔ لیکن یہ صبح جلد
طلوع نہیں ہوگی۔ اس سے پہلے ایک طویل اور سیاہ شب ہمارے سروں پر مسلط ہو گی
اور ہمیں اسے برداشت کرنا ہوگا اور اس تاریکی کو دن کے اجالے میں بدلنا
ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی جب تک یہ صبح اپنا رخ زیبا نہ دکھائے ہمیں اپنی غیر
مطبوعہ تصنیفات کو کسی پرندے کے ان بچوں کی مانند اپنی خواہشات کے پروں میں
چھپائے رکھنا ہوگا جن بچو ںکو ان کی مائیں دشمنوں سے محفوظ رکھنے کے لیے
گھونسلے سے باہر نہیں نکلنے دیتیں۔ اگر تخلیق کار اور مصنف حضرات اس جاں
گسل، حوصلہ کش اور خواہشات شکن مرحلے سے گزرنے کو تیار ہیں تو انہیں ایک
عدد ”انجمن رائیلٹی پسند مصنفین“ کی داغ بیل ڈالنی چاہئے ورنہ ان سپاہیوں
کی مانند اپنے عافیت کدوں میں سمٹ سمٹا کر بیٹھے رہنا چاہئے جن کے اندر
دشمن فوج سے مقابلے کا حوصلہ نہیں ہوتا اور جو محض بد دعاؤں کے بل بوتے پر
جنگ جیتنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ |