آج کل ہر فرد جو خیرات دینے کا اہل ہے تو وہ خیرات کرنے
والے کے ذہن میں جو سب سے اہم بات کا ہونا لازم ہے , وہ یہ نہیں کہ وہ کسی
مستحق کی مدد کر رہا ہے اور مستحق کو اسکی حالت کے مطابق دینا کافی ہے.
ہمارے معاشرے میں روایت بن چکی ہے کہ جب کوٸی اشیاٸے خورد و نوش , ہمارے
استعمال کے مطابق نہیں ہوتیں تو ہم خیرات کیلٸے رکھ لیتے ہیں ۔ جو لباس
اپنے لٸے موزوں نہیں لگتا وہ غریبوں میں بانٹنے کیلٸے رکھ لیتے ہیں ۔ گھر
میں خدمت کرنے والے ملازمین کو اپنا اترن دیتے ہیں اور قوی امید ہوتی ہے کہ
وہ غریب ملازم خوش ہو جاٸے گا اور اسکے دل سے نکلی ہوٸی دعا , ہماری جنت کی
سند بن جاٸے گی ۔ کبھی سوچا ہی نہیں کہ کیا معلوم اس نے وہ کپڑے لیتے ہوٸے
کتنی بار ہمارے زیب تن لباس کو حسرت سے دیکھا ہوگا ۔ کتنی بار سوچا ہوگا کہ
کاش ! وہ بھی نئے کپڑے پہنتا ۔ گھر میں کام کرنے والی ماسی جب ہر پلیٹ سے
بچا ہوا کھانا جمع کر رہی ہوتی ہے کہ جاکر اپنے بچوں کو بھی چند ہڈیاں
چوسنے کو دے گی ۔ تو ہم کبھی نہیں سوچتے کہ اسکے معصوم بچے بھی ہمارے بچوں
جیسے ہی دل رکھتے ہیں ۔ کیوں نہ اسے تازہ کھانے کا بندوبست کردیں ۔
یہ وہ ستم ظریفی ہے ، یہ وہ سوچ کی پستی ہے ، یہ وہ خود غرضی ہے ، جس نے
ہمارے معاشرہ کو طبقات میں تقسیم کر دیا ۔ ایک طبقہ نسل در نسل اشرافیہ ہے
اور ایک طبقہ نسل در نسل غلام ۔
ہم اپنے خول سے باہر نہ دیکھتے ہیں اور نہ سوچتے ہیں ۔ ہمیں صرف اپنے اپنے
بچوں کو کامیاب دیکھنے کا ارمان رہتا ہے ، کبھی خیال نہیں آتا کہ جن اقرباء
، یتامیٰ ، مساکین اور مستحقین کی خبر گیری کا ہمیں حکم ملا تھا ، ہم نے
انہیں یکسر بھلا رکھا ہے ۔ خیرات یہ نہیں تھی کہ بچا کچھا اور جو اپنے
استعمال کے لائق نہ رہے ، وہ دے دیا جائے ۔ خیرات کا تصور یہ تھا کہ جو
عزیز ہو، وہ دیا جائے ۔ اپنا شکم بھرنے سے پہلے ، کسی بھوکے کو تلاش کیا
جائے اور اپنے حصے میں سے اسے حصہ دیا جائے ۔ خیرات یہ تھی کہ جو زاید از
ضرورت ہے اسے ذخیرہ نہ کیا جائے تاکہ معاشرے سے بھوک ختم ہو ۔ اللہ سبحانہ
تعالیٰ نے اس خیرات کے بدلے کئی گنا دینے کا وعدہ کر رکھا ہے ، جو اسکے حکم
کے مطابق ہو ۔ بچے کھچے اور اپنی اترن دیکر خیرات کا تصور ہی غلط ہے ،
ادہورا ہے ۔ ہمیں اپنے اپنے رویوں کو دیکھنا ہوگا ، تبدیل کرنا ہوگا ۔
کیونکہ خیرات اسی کے نام پر دی جاتی ہے ، جو ہمیں خیرات دینے کے قابل کرتا
ہے اور وہ ہے اللہ کی ذات ۔ پھر بچا کھچا اور پھٹا پرانا دے کر ہم اپنے
اوپر اللہ کے فضل کا حق ادا نہیں کرتے ۔ اسکی قوی اور قادر ذات کیلئے کیا
مشکل تھا کہ خیرات کرنے والے ہاتھ کو خیرات لینے والا ہاتھ بنا دیتا تو کیا
صورت حال ہوتی ۔
اسلئے جب بھی خیرات کا ارادہ کریں تو سوچ کر کریں ۔ اللہ کے شکر کے طور پر
کریں
|