اگر ہم کچھ ماہ قبل پاکستان کے
حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ جو حالات پاکستان کے رہے ہیں وہ
پاکستان کی تاریخ کے بد ترین دور میں شمار ہوں گے ، یوں تو بے شمار واقعات
ہیں جو ملک کی سلامتی پر منفی اثرات چھوڑ گئے مگر سرسری نظر ڈالیں تو اجمل
قصاب ، ریمنڈ ڈیوس کے واقعات نے تو ملک کی سلامتی کو ناقابل تلافی نقصان
پہنچایا اسکے بعد ہم پی این ایس مہران اور سانحہ ایبٹ آباد جیسے واقعات نے
تو ہمارے عسکری ذرائع اور دفاع کا بھی پول کھول دیا ،ابھی پاکستان کے شہری
اس صدمے سے پوری طرح نکل ہی نکل نہیں پائے تھے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے
تحت کراچی جو پاکستان کی معشیت کا حب ہے وہاں بالکل وہی کھیل کھیلا گیا جو
بھارت میں گجرات کے مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا صرف فرق اتنا تھا کہ وہاں
ہندو بلوائیوں نے مسلمان بہنوں کے گھر ویران کیئے اور انکی املاک کو نقصان
پہنچایا ،یہاں تک کہ انکو انکے علاقوں سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا بالکل
اسی طرح کا کھیل کراچی میں کھیلا گیا اور یہاں سیاسی اور لسانی بنیادوں پر
فسادات کروائے گئے اور بالکل وہی واقعات یہاں بھی رونما ہوئے اور رمضان کے
اس مقدس مہینے میں جس میں اجروثواب کی بارش ہوتی ہے اور مغفرت کا مہینہ
ہوتا ہے اس مہینے میں کراچی میں خون کی ہولی کھیلی گئی ، کبھی پٹھانوں کی
بستیوں میں لوگوں کے گھر اجاڑے گئے اور کبھی مہاجروں کی بستیوں کو خون سے
نہلایا گیا ، اب اگر غور کریں تو گجرات فسادات میں بھی پولیس صرف تماشائی
بنی رہی اور کراچی میں تو پولیس کا وجود تک نظر نہیں آیا ، گجرات میں بھی
جب قتل وعام عروج پر پہنچا تب پولیس نظر آئی اور کراچی میں بھی جب بڑے آقا
نے فون کیا تو ہماری بے حس قیادت کو احساس ہوا کہ ہاں کراچی میں قتل و غارت
جیسے واقعات رونما ہوئے ہیں مگر ہمارے بڑے آقا اسلیئے پریشان ہوگئے تھے کہ
کراچی بند ہوگا تو نیٹو سپلائی بھی متاثر ہوگی اسلیئے انھوں نے مداخلت کی
جبکہ ہمارے حکمران جو پیسے کے لیئے کچھ بھی کرسکتے ہیں وہ اس لیئے پریشان
ہوئے کہ جب کراچی سے ریونیو نہیں ملے گا تو انکی جیب کا کیا بنے گا ؟
عیاشیاں کیسے ہوں گی ؟ غیر ملکی دورے کیسے ہوں گیں ؟ مگر بڑے آقا اور بے حس
حکمران نے انسانی جان کی خاطر نہیں بلکہ اپنے مفاد کی خا طر کراچی میں امن
کی ٹھان لی ، مگر ایک بات قابل غور ہے کہ کراچی میں جب بھی یہ واقعات رونما
ہوئے ہمارے وزیر داخلہ نے کہا کہ کوئی تیسرا ہاتھ ملوث ہے ؟ اور ہم آہنی
ہاتھوں سے ان سے نمٹے گیں ۔ مگر جب رینجرز کو اختیارات دیئے گئے تو ہمیں
ایسا لگا کہ جیسے کراچی کے حالات کبھی خراب ہی نہیں ہوئے تھے جرائم نام کی
کوئی چیز کراچی میں تھی ہی نہیں ۔ مگر کیا آلہ دین کا چراغ آگیا ہمارے
حکمرانوں کے پاس ؟ یا جادوئی چھڑی آگئی ؟ کیوں کہ اگر ہماری پولیس، عدلیہ
اور رینجرز میں اتنی قابلیت تھی تو وہ 300 قیمتی انسانی جانوں کے ضائع ہونے
کے بعد ہی کیوں ابھری ؟ اور جب ابھی انٹیلی جینس رپورٹ پر ٹارگٹڈ آپریشن
ہورہا ہے اور انکو معلومات ہیں ان دہشت گردوں کی تو اس وقت جب گھروں کو
جلایا جارہا تھا ، بسوں کو آگ لگائی جارہی تھی ، انسانی جانوں کے ساتھ
انسانیت سوز سلوک کیا جارہا تھا ،کتنے ہی بیٹوں کے گھر اجاڑے گئے ،کوئی
یتیم ہوگیا کوئی بیوہ کوئی معذور مگر تب کوئی پولیس اور رینجرز نہیں جاگی ؟
کیا یہ صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ تھی ؟ یا کسی سیایسی جماعت کو یہ باور
کرانا مقصود تھا کہ کراچی میں اپنی سیاسی سرگرمیاں ختم کردو؟ یا پھر یہ
کوئی بیرونی سازش تھی ؟ یا پھر اندرون سندھ آنے والے بد ترین سیلاب کی تباہ
کاریوں سے نظر ہٹانے کے لیئے کراچی میں یہ خونی ڈرامہ رچایا گیا ؟ یہ وہ
سوال ہیں کہ سب جاننا چاہتے ہیں ۔ دوسری طرف امریکی سیکریٹری دفاع مائیک
مولن نے دیکھا کہ کراچی میں امن ہورہا ہے اور معیشت کا پہیہ پھر چل پڑا ہے
تو اپنی معیاد ختم ہوتے ہی انھوں نے ایک بیان داغا کہ حقانی نیٹ ورک کو
پاکستان کی اینٹیلی جنس ایجنسی کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور وہ انکی مدد سے
کام کررہا ہے ۔ امریکہ کا یہ خیال تھا کہ امریکہ کا یہ بیان سچ سمجھ کر مان
لیا جائے گا اور امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر پاکستانی حدود میں داخل
ہو کر اپنی مرضی سے جیسے چاہے کاروائی کرے مگر اس دفعہ غیر متوقع طور پر
پاکستانی افواج نے دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ ہمارا حقانی نیٹ ورک سے
کوئی تعلق نہیں اور اگر ہماری حدود کو نشانہ بنایا گیا تو منہ توڑ جواب دیا
جائے گا یہ جواب بڑے آقا کے لیئے حیرت انگیز تھا کہ اتنی ہمت وہ بھی
پاکستان میں ؟ پھر جب ہمارے بے حس حکمرانوں نے دیکھا کہ ہماری فوج نے جواب
دے کر انکے اقتدار اور غیرت کو للکار دیا تو انھوں نے بھی اے پی سی بلائی
اور ملکی سلامتی پر کوئی آنچ آنے کی صورت میں دو ٹوک موقف اپنایا ۔ یہ بات
بتاتا چلو کہ شمالی علاقہ جات میں بد ترین زلزلے کے وقت پاکستانی عوام نے
جس یکجہتی کا مظاہرہ کیا تھا وہ اس سیلاب میں نظر نہں آیا اسکی وجہ جو
امداد بھیجی جاتی ہے اس میں کرپشن اور امداد کا مستحق لوگوں تک نہ پہنچنا
تھا جس میں ہمارے حکمران ملوث تھے مگر مائیک مولن کے اس بیان نے پاکستانی
عوام کو پھر سے ایک قوت کی صورت میں جمع کردیا جو کچھ عرصے پہلے تک
سیاسی،لسانی،مذیبی فرقوں میں بٹے ہوئے تھے اور وہ طالبان جو پاکستان سے
ناراض تھے انھوں نے بھی امریکہ کی دھمکی کے جواب میں پاکستان کا ساتھ دینے
کا اعلان کردیا ۔ دوسری طرف اللہ کی قدرت دیکھیں کہ یہ بے حس حکمران اسلامی
کلچر نہ لاسکے مگر اللہ نے ایک مچھر جسکو ڈینگی کے نام سے پکارا جاتا ہے سے
وہ کام لے لیا کیوں کہ یہ مچھر فجر کے وقت کاٹتا ہے جس کی وجہ سے لوگوں نے
فجر کی نماز پڑھنا شروع کردی اور پھر ہماری حوا کی بیٹیاں جو اپنی تہذیب
کھو چکی تھیں اب نقاب میں اور لانگ ڈریس میں نظر آنے لگی ہیں واہ اللہ واہ
کس طرح اللہ اپنا کام ایک چھوٹے سے مچھر سے کرالیتا ہے سبحان اللہ ۔ اللہ
اپنی طاقت کی بہت معمولی سی جھلک دکھا رہا ہے اے بے حس حکمرانوں اللہ
تمھارے بغیر بھی اپنا کام لے سکتا ہے سنبھل جاؤ سنھبل جاؤ اللہ کی گرفت بہت
مضبوط ہے ۔ |