آج کی زندگی کے مسائل اور ان سے نمٹنے کا طریقہ
(Muhammad Hamza Talpur, Hyderabad)
موجودہ دور کی تیز ترین زندگی میں پیدا
ہونے والے مسائل کی نوعیت بھی گھمبیر صورت کی ہے۔ ان سے نکلنے کے لئے یا ان
کے ساتھ چلتے چلتے بہتری کے حصول کے لئے چند تدبیریں ضرور سوچی گئی ہیں۔
خاص معروضی حالات کے بجائے اگر بڑے پیرائے میں دیکھا جائے تو یہ تدبیریں
وقوع پذیر ہونے کے لئے اور انسان کو مصیبتوں کی گرداب سے نکالنے کے لئے جن
ضروریات کی متمنی رہی ہیں ان میں سے سرفہرست اپنے وجود کا احساس، تنقیدی
نقطہ نظر، حق کے ساتھ ہمیت، انسانیت کا درد اور سچائی شامل ہیں۔ آج کے بے
یقینی اور تیزی سے بھرپور دور میں انسان کو ذہنی دباؤ، معاشی تنگی، فکری و
نظریاتی زعف اور رشتوں اور تعلقات میں کشیدگی اور عدم توازن جیسی تکالیف
اور الجھنیں لاحق ہیں۔ ان سب پریشانیوں سے نکلنے اور دوسرے انسانوں کو
نکالنے کے لئے علمی دماغ مطالعے، مشاہدے اور تجربے کی بناء پر جن تدبیرات
پر غور کرتے رہے ہیں اور کررہے ہیں وہ اپنی ہیت میں طاقت ور اور عملاً
انتہائی موئثرانہ لیاقت کی حامل ہیں۔ وہ تمام اہم تدابیر جو اب ہمیں روز کے
معمولات زندگی میں پیوست کرلینی چاہیے درجہ بدرجہ ذیل بیان کی جارہی ہیں:
1. وقت اور صحت کی قدر۔ موجودہ تناظر میں جن دو چیزوں کے بارے میں انسان کو
سب سے زیادہ "احتیاط" برتنی چاہیے وہ اسکی صحت اور اسکا وقت ہے۔ صحت خدا کی
عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے۔ اس کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں۔ طبعیت میں
ناچاکی انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ اس معاملے میں ذرا سی غفلت اور بے
احتیاطی بہت سارے مسائل کا باعث جا بنتی ہے۔ صحت کو قائم اور نتیجتاً اپنے
آپ کو توانا رکھنے کے لئے محتاط رہنا ہی ایک واحد آپشن اور ضروری عمل ہے۔
جسطرح انسان کے لئے صحت کی بہتری اور درستگی ناگزیر ہے بلکل اسی طرح وقت کا
صحیح، مثبت اور متوازن استعمال انسان کی سماجی اور معاشی زندگی کے لئے
آکسیجن کی مانند ہے۔ دنیا میں آنے والی وہ تمام تغیرات جنہوں نے ترقی،
خوشحالی اور پرسکونی کو جنم دیا ہے ان کی پیدائش میں جہاں بہت سی اور
وجوہات شامل ہوں گی' لازماً وقت کا منطقی استعمال ایک اہم وجہ کی حیثیت سے
شامل ہوگا۔ لہذا وقت اور صحت کی قدر ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
2. جلدبازی سے اجتناب۔ آج کے دور کے انسان کو جتنی تیزی یا بے صبری کی
کیفیت لاحق ہے وہ انسانی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ معاملات اور کاموں
کو ان کی منطقی رفتار سے پہلے نمٹانے اور پورا کرنے کی سوچ انسان کے مزاج
میں تیزی کو پیدا کردیتی ہے جس کے باعث اسکے لئے صبر کا دامن تھامے رکھنا
بہت مشکل ہو جاتا ہے اور نتیجتاً یہ حالت انسان کو جلدباز بنادیتی ہے۔ ایسا
انسان کسی تحریک سے متاثر ہوکر اگر فہم سے معاملہ کرنے کی کوشش بھی کرے تو
زیادہ دیر تک آن دا ٹریک نہیں رہ پاتا اور کچھ ہی لمحوں بعد وہی اس کے مزاج
کی تیزی اسے جلدبازی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کی چوکھٹ پر آ سجدہ
ریز کرواتی ہے۔ وہ تمام کام جو بغیر تیزی دکھائے اور باآسانی حل کئے جاسکتے
ہوں، جلدبازی کی وجہ سے ایسے بگڑ جاتے ہیں جن پر پھر قابو پانا تقریباً
ناممکن ہو جاتا ہے۔ جلدبازی اور بے صبری خونی رشتوں سے لیکر عمومی روزمرہ
کے معاملات تک سب کے لئے انتہائی مضر ہیں اور اس سے بچنے کا آسان اور سادہ
حل محض عقل کو بروئے کار لانا ہے۔
3. انٹرنیٹ کا مثبت استعمال۔ آج کے دور میں پیدا ہونے والے انسان کو خدا کا
لاکھ شکر ادا کرنے چاہیے کیونکہ اس کی پیدائش ایسے دور میں عمل میں آئی ہے
جس کے طور طریقے، اقدار اور اصول ہزاروں سال کی کوششوں اور ریاضتوں کا نچوڑ
ہیں۔ ٹیکنالوجی کی دنیا میں انٹرنیٹ کی طاقت ایک ایسی قوت کے طور پر سامنے
آچکی ہے جس کے بعد دنیا کا سماجی، تعلیمی، معاشی، معاشرتی، سیاسی، دینی اور
عصری ڈھانچہ پائیدار جدیدیت کا روپ دھارتا چلا جارہا ہے۔ ایسا کوئی دنیا
میں شعبہ نہیں بچا جہاں انٹرنیٹ کی آمد سے تبدیلیاں واقع نہ ہوئی ہوں۔ اسکی
طاقت نے دنیا کو ایک نئی سمت دی ہے اور بہت سے اور نظریات کے برابر ہوکر
انسان پر اس دنیا کی اصل حقیقت بھی واضح کردی ہے۔ اس دنیا کی اصل حقیقت یہ
ہے کہ یہ خالصتاً امتحان ہے اور یہاں تمام حوالوں اور ضابطوں سے کسی ایک
چیز کا ناگزیر ہونا اور قائم رہنا ناممکن ہے۔ یہاں اچھائی کے ساتھ ساتھ شر
بھی پایا جائے گا، نیکی بدی دونوں مشاہدے میں آئیں گی، بدکلامی کی جائے گی
تو شائستگی کا مظاہرہ بھی ہوگا اور تباہی کے دور آئیں گے تو خوشحالی کے
زمانے بھی قائم ہونگے لہذا اس دنیا کو اس کی تمام جبلتوں کے ساتھ دیکھنا ہی
اس کی حقیقت کو پرکھنے کا نام ہے۔ آج کی ڈیجیٹل دنیا بھی اسی حقیقت کو مان
کر کام کرنے کی کوشش پر زور دیتی ہے۔ انٹرنیٹ جس کے بعد اب اس دنیا میں ایک
نیا دور شروع ہوا ہے' کہ مثبت استعمال سے آپ اپنے لئے ایک نیا مستقبل تشکیل
دے سکتے ہیں اور منفی اثرات سے آپ اپنے ساتھ ساتھ مجموعی طور پر پوری
انسانیت کا وجود دفن کرسکتے ہیں۔ کیا ہونا ہے یہ البتہ اب انسانوں ہی پر
منحصر ہے۔
4. وسیع النظر منصوبہ سازی۔ ماضی کی غلطیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اور معروضی
حالات کے تحت ایک بہتر مستقبل کے لئے لائحہ عمل مرتب کرنا منصوبہ سازی
کہلاتا ہے۔ بہتر اور جامع منصوبہ سازی کی کمی یا مکمل طور پر غیر موجودگی
انسان کو ایک خلا میں مہلک رکھتی ہے جہاں انسان مثبت اقدار اور نتائج سے تو
دور رہتا ہی ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس خلا میں رہنے کے باعث منفی راستوں
کی جانب سفر گامزن ہونے لگتا ہے۔ مستقبل کی سوچ اور اس کے لئے حکمت عملی
انسان کو ہر پل یہ باوور کرائے ہوئے ہوتی ہے کہ کسی بھی قسم کی منفی سرگرمی
اور کسی بھی لحاظ سے محنت اور کوشش میں کمی بھیانک انجام سے دوچار کرسکتی
ہے۔ منصوبہ سازی ہمیشہ ماضی کی ہوئی غلطیوں اور مستقبل قریب کے رجحانات کو
پیشِ نظر رکھ کر کئے جانے والا عمل ہے۔ کسی بھی قسم کی سنجیدہ اور جامع
منصوبہ سازی کے اندر یہ دو بنیادی خصلتیں ہیں اور ان کی غیر موجودگی میں
بنائی جانے والی منصوبہ سازی اپنی اصل طاقت سے ہمیشہ محروم رہے گی۔ کل کیا
ہوگا یا ہوسکتا ہے، آج کیا صورتحال ہے اور جب یہی معاملہ ماضی میں ہوا تو
اس کی کامیابی کے پیچھے کیا راز اور ناکامی کے پیچھے کیا وجوہات تھیں جیسے
اہم ترین وسیع النظر سوالوں کے جواب اگر کوئی منصوبہ سازی نہیں دے پاتی تو
اس کی ناکامی کا معاملہ تقدیر کا فیصلہ سمجھا جائے۔
5. وسیع مطالعے کی عادت۔ دنیا کے تمام راز کتابوں میں درج ہیں۔ کتاب پڑھنے
سے انسان ایسی علمی حقیقتوں سے آشنا ہو جاتا ہے جس کے بعد اسکا شعوری طرز
ایک نئی جہت اپنا لیتا ہے۔ کتاب کو بہترین دوست کیوں کہا گیا ہے؟ اس سوال
کے جواب میں ہمیں پہلے بہترین دوست کے وصف سمجھنے چاہیے۔ بہترین دوست ایک
شفاف آئینہ ہوتا ہے جس میں آپ جیسے ہیں، جتنے ہیں ایمانداری سے دکھائی دے
سکیں۔ وہ آئینہ یعنی دوست آپکو بتا سکنے کی صلاحیت رکھتا ہو کے کہاں آپ
درست ہیں اور کہاں غلط؟ کہاں انتہاء درجے کی توانائی سے کام کررہے ہیں اور
کہاں غفلت ہے؟ بہترین دوست اس صورت میں اور اپنائیت کا احساس دلائے گا جب
وہ بتانے کے قابل ہو کہ آپ کے لئے کونسا انسان کیسا ہے؟ کونسا انسان سچائی
کے ساتھ چل رہا ہے اور کون محض ساتھ چل رہا ہے؟ یہاں آپ کا نظریاتی زعف ہے
اور کہاں آپ فکری طور پر غیر معمولی ہیں؟ آپ کا مختلف چیزوں کے بارے میں
ایک حد تک یہ رائے ٹھیک اور یہاں یہاں آپ علمی حوالوں سے بے شعور ہیں۔
بہترین دوست غلطیاں اور کمزوریاں کان میں یعنی تنہائی میں اور خوبیاں سب کے
سامنے واضح کرتا ہے۔ اگر یہ بہترین دوستی کے لئے ضروری اجزاء ہیں تو سوچنے
کا مقام ہے کہ اس دنیا میں ایسی کتنی دوستیاں ہونگی جو ایسے معاملات پر
گفتگو کرتی ہوئی پائی جاتی ہونگی؟ اس ضمن میں یہ بات ٹھیک نہیں کہ کتاب ایک
بہترین دوست کی مانند ہے کیونکہ کتاب تو ان سب کا مجموعہ ہے۔ اگر یہ سب وصف
کتاب سمیٹیں ہوئے ہیں تو پھر ان کو تو علم کے وسیع سمندر قرار دیے جانا ایک
روشن حقیقت کی طرح ہے۔ ایک کتاب کے اندر ہی کی فکری طاقت کے اگر دیرپا
اثرات مرتب ہوسکتے ہیں تو جب مطالعے کو وسیع پیمانے پر عمل میں لایا جائے
تو یہ شعور کے حصول کے لئے ایک ضرورت اور اسی دنیا میں ہی جنت کا سامان ہے۔
|
|