کچھ بچے اسکول کی چار دیواری میں اپنے ہاتھوں میں قلم
تھامے، کتاب کے صفحات پر نظریں گاڑے، الفاظ کو پہچاننے کی جنگ لڑتے ہیں۔ ان
کی آنکھوں میں ایک سوال ہوتا ہے: "میں کیوں نہیں پڑھ پاتا؟" جواب میں انہیں
ڈانٹ پڑتی ہے: "کوشش نہیں کرتے! محنت نہیں کرتے!" یہ بچے ڈسلیکسیا کے ساتھ
جی رہے ہوتے ہیں، ایک ایسی عصابی خرابی جو پڑھنے، لکھنے، اور ہجے کرنے کی
صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔ لیکن پاکستان میں، جہاں تعلیمی نظام ہی نہیں بلکہ
سماجی رویے بھی "عام" سے ہٹ کر کسی چیز کو برداشت نہیں کرتے، یہ بچے صرف "سست"
یا "کاہل" قرار پاتے ہیں۔ والدین کی بے حسی، اساتذہ کی لا علمی، اور نظام
کی بے عملی نے ان بچوں کی نفسیاتی صحت، خود اعتمادی، اور تعلقات کو تباہ کر
دیا ہے۔ یہ کہانی صرف ڈسلیکسیا کی نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی بے حسی کی ہے۔
یہ ایک ایسی المناک داستان ہے جس کے ہر باب میں بچوں کی خاموش چیخیں، ان کے
زخم ہوئے خواب، اور معاشرے کی طرف سے مسلسل نظراندازی کے اندھیرے شامل ہیں۔
ڈسلیکسیا ایک عصابی (نیورولوجیکل) حالت ہے جس میں دماغ الفاظ کو پہچاننے،
ان کے ہجے کرنے، اور زبان سے متعلق معلومات پر کارروائی کرنے میں دشواری
محسوس کرتا ہے۔ یہ کسی کی ذہانت سے کوئی تعلق نہیں رکھتی—البرٹ آئن سٹائن،
لیونارڈو ڈا ونچی، اور محمد علی جناح جیسی شخصیات بھی ڈسلیکسیا کے ساتھ
جیتی رہیں۔ لیکن پاکستان میں، جہاں تعلیم کا بنیادی مقصد "رٹہ" ہوتا ہے،
ڈسلیکسیا کو اکثر "پڑھائی میں کمزوری" سمجھا جاتا ہے۔ والدین اور اساتذہ کی
اکثریت کو علم ہی نہیں کہ یہ ایک طبی مسئلہ ہے جس کے لیے تشخیص، مشاورت،
اور خصوصی تعلیمی حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسکولوں کے نصاب میں یکسانیت
کی وجہ سے ایسے بچوں کی صلاحیتیں دب کر رہ جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک
بچہ جو ریاضی یا آرٹ میں ماہر ہو سکتا ہے، وہ صرف اس لیے ناکام سمجھا جاتا
ہے کہ وہ انگلش کے الفاظ کو تیزی سے نہیں پڑھ پاتا۔ یہ صورتحال صرف تعلیمی
میدان تک محدود نہیں رہتی بلکہ بچے کی شخصیت کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی
ہے۔
عالمی سطح پر ہر 5 میں سے 1 بچہ ڈسلیکسیا کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان
میں یہ شرح 15% سے زیادہ ہے (یونیسف، 2021)، لیکن تشخیص کی سہولیات نہ ہونے
کے برابر ہیں۔ ڈسلیکسیا ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق، صرف 2% بچوں کو
اس حالت کے بارے میں آگاہی حاصل ہے۔ لاہور کے ایک اسکول میں کی گئی تحقیق
کے مطابق، 70% اساتذہ نے ڈسلیکسیا کی اصطلاح ہی نہیں سنی تھی۔ مزید
تشویشناک بات یہ ہے کہ 80% والدین ایسے بچوں کو ڈانٹنے، مارنے، یا نفسیاتی
دباؤ ڈالنے کو "تربیت" سمجھتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف ایک ہلکی سی جھلک
ہیں اس سماجی المیے کی جو ہمارے بچوں کو نگل رہا ہے۔ دیہی علاقوں میں
صورتحال اور بھی دگرگوں ہے جہاں تعلیم تک رسائی ہی ایک خواب ہے۔ وہاں
ڈسلیکسیا کے شکار بچوں کو اکثر اسکول سے ہی نکال دیا جاتا ہے، اور انہیں
معذور سمجھ کر گھر کی چار دیواری میں قید کر دیا جاتا ہے۔ ان بچوں کی
صلاحیتیں جو شاید کبھی پروان چڑھ سکتی تھیں، وہ عدم توجہی کی نذر ہو جاتی
ہیں۔
پاکستانی سماج میں تعلیمی ناکامی کو "شرم" کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔
ڈسلیکسیا کے شکار بچے جب امتحانات میں فیل ہوتے ہیں تو گھر میں انہیں "کم
عقل" کہا جاتا ہے۔ اکثر ایسے بچوں کو کلاس رومز کے پیچھے بٹھا دیا جاتا ہے،
جہاں وہ نہ صرف تعلیمی بلکہ سماجی طور پر بھی پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یہ رویہ
نہ صرف بچے کی تعلیمی ترقی کو روکتا ہے بلکہ اسے سماجی طور پر بھی الگ تھلگ
کر دیتا ہے۔ کراچی کے ایک پرائیویٹ اسکول میں ڈسلیکسیا کے شکار ایک بچے کو
روزانہ کلاس کے باہر کھڑے رہنے کی سزا دی جاتی تھی، کیونکہ وہ اسباق کو
دہرا نہیں پاتا تھا۔ یہ سزا نہیں، بلکہ ایک نفسیاتی تشدد ہے جو بچے کے اندر
کے فنکار، سائنسدان، یا لیڈر کو مار دیتا ہے۔
ڈسلیکسیا کے شکار بچے بار بار کی ناکامیوں کے بعد یہ یقین کر لیتے ہیں کہ
وہ "کچھ نہیں کر سکتے۔" کلاس رومز میں ہنسی کے نشانہ بننے والے بچے اکثر
اپنی صلاحیتوں پر شک کرنے لگتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، 60% ڈسلیکسیا کے شکار
بچے ڈپریشن یا اضطراب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے 30% خودکشی کے خیالات
تک لے آتے ہیں (پاکستان سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن، 2023)۔ یہ وہ المناک
حقیقت ہے جس پر ہم سب کو شرمندہ ہونا چاہیے۔ ایک بچہ جو فٹبال میں گول کر
سکتا ہے، جو پینٹنگز بنا سکتا ہے، جو کمپیوٹر کے ٹیکنالوجی میں ماہر ہو
سکتا ہے، وہ صرف اس لیے خود کو ناکارہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کا دماغ الفاظ
کو مختلف طریقے سے پروسیس کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی بچہ کسی اور میدان
میں کامیابی حاصل بھی کر لے تو اسے تعلیمی ناکامی کے داغ سے آزاد نہیں کیا
جاتا۔ معاشرہ اسے ہمیشہ "کم تر" ہی سمجھتا ہے۔
تعلقات اور دوستیاں بھی ڈسلیکسیا کے شکار بچوں کے لیے ایک جنگ بن جاتی ہیں۔
وہ اپنے ہم عمر بچوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں، کھیلوں، تقریری مقابلوں، یا
گروپ اسٹڈیز میں حصہ نہیں لے پاتے۔ سماجی تقریبات سے دور بھاگتے ہیں کیونکہ
انہیں خوف ہوتا ہے کہ لوگ ان کی "کمزوری" کو جان جائیں گے۔ یہ خوف انہیں
ایک ایسے خول میں بند کر دیتا ہے جہاں وہ خود کو محفوظ سمجھتے ہیں، لیکن
درحقیقت یہ خول ان کی شخصیت کو زندہ درگور کر دیتا ہے۔ پشاور کی ایک رپورٹ
کے مطابق، ڈسلیکسیا کے شکار 50% بچے اپنی عمر کے دیگر بچوں کے مقابلے میں
تنہائی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ تنہائی نہ صرف بچپن کو متاثر کرتی ہے بلکہ
بالغ ہونے پر ان کے رشتوں پر بھی اثر ڈالتی ہے۔
حالات کو بدلنے کے لیے ہم سب کو اپنے رویوں، نظاموں، اور پالیسیوں پر
نظرثانی کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو آگاہی کی اشد ضرورت ہے۔ میڈیا، اسکول،
اور کمیونٹی لیول پر ڈسلیکسیا کے بارے میں بات ہونی چاہیے۔ والدین کو
سمجھانا ہوگا کہ ڈسلیکسیا کوئی "نقص" نہیں بلکہ ایک "انفرادیت" ہے۔ اساتذہ
کی تربیت ناگزیر ہے—ہر ٹیچر کو ڈسلیکسیا کی بنیادی علامات، تشخیص کے طریقے،
اور تدریسی حکمت عملیوں سے آگاہ کیا جانا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ
ڈسلیکسیا کے لیے قومی پالیسی بنائے، اسکولوں میں اسکریننگ پروگرامز لازمی
کرے، اور خصوصی تعلیمی وسائل کو فروغ دے۔ نجی شعبے کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے
بچوں کے لیے اسکالرشپس اور کیرئیر گائیڈنس پروگرامز شروع کریں۔ مثال کے طور
پر، ڈسلیکسیا ایسوسی ایشن آف پاکستان نے کچھ اسکولوں کے ساتھ مل کر خصوصی
ٹولز متعارف کرائے ہیں، جیسے آڈیو کتابیں، رنگین ہدایات، اور تفریحی لرننگ
ایکٹیویٹیز۔ ان اقدامات کے بعد بچوں کی کارکردگی میں 40% تک بہتری دیکھی
گئی ہے۔
لیکن اس سب کے لیے سب سے اہم چیز ہماری سوچ میں تبدیلی ہے۔ ہمیں یہ تسلیم
کرنا ہوگا کہ ہر بچہ انوکھا ہے، اور تعلیم کا مقصد صرف نمبرز لینا نہیں
بلکہ صلاحیتوں کو نکھارنا ہے۔ جب تک ہم اپنے تعلیمی نظام کو لچکدار نہیں
بنائیں گے، اساتذہ کو تربیت نہیں دیں گے، اور والدین کو شعور نہیں دیں گے،
ہزاروں بچے خاموشی سے اپنی صلاحیتوں کو دفن کرتے رہیں گے۔ یہ بچے ہمارے
مستقبل کا حصہ ہیں—کیا ہم انہیں مایوسی کے اندھیرے میں دھکیلنے کے مجاز
ہیں؟ ان کی خاموش چیخیں ہماری اجتماعی ضمیر کو للکارتی ہیں۔ ہر ڈسلیکسیا کا
شکار بچہ جو خود کو ناکارہ سمجھتا ہے، درحقیقت ہماری ناکامی کا منہ بولتا
ثبوت ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم ان بچوں کی آواز بنیں، ان کے خوابوں کو پروان
چڑھائیں، اور انہیں بتائیں کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔ کیونکہ خاموش چیخیں کب تک
سنی جائیں گی؟
(یہ کالم صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک آواز ہے ان بے آواز بچوں کے
لیے جو ہمارے درمیان ہیں۔ ہماری خاموشی ان کے زخموں پر مرہم رکھ سکتی ہے،
یا نمک چھڑک سکتی ہے۔ انتخاب ہمارا ہے۔)
|