کہتے ہیں کہ انسان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ دوسروں
کی زندگیوں کو اپنے خوابوں کا معیار بنا لیتا ہے۔ آج کل کی دنیا میں یہ
غلطی ایک وبا بن چکی ہے۔ سماجی میڈیا ہو، یونیورسٹی کا ہاسٹل روم ہو، یا
خاندانی دعوت، ہر جگہ ہماری آنکھیں کسی نہ کسی کی "کامیابی" کے چمکتے ہوئے
پہلوؤں سے ٹکرا رہی ہوتی ہیں۔ مگر یہ چمک اکثر جعلی ہوتی ہے، جیسے کسی فلم
کا سیٹ جہاں صرف اگلے منظر کے لیے روشنیاں لگائی جاتی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ
ہم اسی جعلی روشنی میں اپنی اصلی زندگی کو تاریک کر لیتے ہیں۔ پاکستان میں
ہر سال 15,000 سے زائد نوجوان ڈپریشن کی وجہ سے پیشہ ورانہ مدد طلب کرتے
ہیں، اور ان میں سے 70% کا کہنا ہوتا ہے کہ انہیں "دوسروں سے پیچھے رہ جانے
کا خوف" ستا رہا ہوتا ہے۔
احساسِ کمتری کا آغاز اکثر ایک معمولی سی تقابل سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور
پر، انسٹاگرام پر کسی دوست کی نیویارک کی سیر کی تصویر دیکھ کر آپ کو اپنا
گھر تنگ لگنے لگتا ہے۔ یا پھر یونیورسٹی میں کسی کلاس فیلو کی پہلی نوکری
کا اعلان سن کر آپ اپنی ڈگری کو بے کار سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ احساس آہستہ
آہستہ آپ کے ذہن میں گھر کر لیتا ہے، جیسے کوئی کیڑا جو پھل کو اندر سے
کھوکھلا کر دے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ 2023 میں کی گئی ایک تحقیق کے
مطابق، پاکستان کے 60% نوجوانوں کا ماننا ہے کہ سماجی میڈیا پر وہ جتنی
خوشحال زندگی دکھاتے ہیں، اس کا اصل زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مگر پھر
بھی وہ یہ کھیل کھیلتے ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ کہیں وہ دوسروں سے
کم نہ سمجھے جائیں۔ یہی ڈر آخرکار انہیں جعلی شناختیں بنانے، قرضے لینے، یا
چھوٹے موٹے فراڈ کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ لاہور کے ایک نجی بینک کے
مطابق، 2022 میں 18 سے 25 سال کے نوجوانوں کے قرضوں میں 300% اضافہ ہوا،
اور ان میں سے 45% قرضے صرف "شادی کی تقریب میں دکھاوا" کرنے کے لیے لیے
گئے تھے۔
انسٹاگرام پر "پرفیکٹ لائف" کے چکمے نے نوجوان نسل کو ایک عجیب دوڑ میں لگا
دیا ہے۔ کسی کی بٹوے میں ڈالر ہیں، کسی کے پاس گاڑی ہے، تو کوئی بیرون ملک
کی سیر کر رہا ہے۔ مگر ان سب کے پیچھے چھپی حقیقت کو جان لیں تو بالکل ایسا
لگے گا جیسے آپ کوئی فلم دیکھ رہے ہوں جہاں صرف "ہیپی اینڈنگ" والے سین ہی
دکھائے جاتے ہیں۔ ایک دلچسپ مثال دیکھیے: کراچی کے ایک نوجوان نے اپنی سوشل
میڈیا پر موجود 50,000 فالوورز کو یہ باور کرایا کہ وہ دبئی میں ایک شاندار
نوکری کر رہا ہے۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ اپنے چچا کے ساتھ موٹر مکینک کی دکان
پر کام کرتا تھا۔ وہ ہر ہفتے ایک پرانی عمارت کے سامنے کھڑے ہو کر "دبئی
والی" تصاویر بناتا، جبکہ اس کے پاس اپنے گھر کا کرایہ تک ادا کرنے کے لیے
پیسے نہیں ہوتے تھے۔ آخرکار جب اس کا یہ راز کھلا تو اس نے خود کو تنہائی
میں قید کر لیا، کیونکہ اسے ڈر تھا کہ لوگ اس کا مذاق اڑائیں گے۔
پاکستانی خاندانی دعوتوں کو اگر "تقابل کا اولمپکس" کہا جائے تو غلط نہ
ہوگا۔ یہاں ہر کوئی اپنی اولاد کی کامیابیوں کے ڈھول پیٹتا ہے، چاہے وہ
کامیابی حقیقی ہو یا جعلی۔ ایک مشہور واقعہ لاہور کے ایک گھرانے کا ہے جہاں
ایک لڑکے کے والد نے اسے مجبور کیا کہ وہ اپنے کزنز کو یہ باور کرائے کہ وہ
آسٹریلیا میں پڑھ رہا ہے، حالانکہ وہ گھر پر بیٹھا بے روزگاری کی تلخی نگل
رہا تھا۔ جب یہ بات کھلی تو لڑکے نے 6 ماہ تک گھر سے باہر قدم نہیں رکھا۔
یہ صرف ایک کہانی نہیں۔ پاکستان میں 40% والدین تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اپنے
بچوں کا موازنہ دوسروں سے کرتے ہیں۔ نتیجہ؟ ایک سروے کے مطابق، 35%
نوجوانوں نے اپنے گھر والوں سے جھوٹ بولنا شروع کر دیا ہے تاکہ وہ انہیں
"ناکام" نہ سمجھیں۔
یونیورسٹی کے وہ کمرے جہاں کتابیں کھلی ہوتی ہیں، وہاں اکثر دم گھٹنے والی
خاموشیاں بھی ہوتی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے اپنی ڈائری میں
لکھا: "میں نے آج تک کوئی امتحان 90% سے کم نہیں دیا، مگر آج جب میں کلاس
میں دوسرے نمبر پر آیا ہوں، تو مجھے لگتا ہے جیسے میری زندگی ختم ہو گئی۔"
یہ وہ لمحہ تھا جب اس نے اینٹی ڈپریشن گولیاں کھانا شروع کیں۔ ڈاکٹروں کے
مطابق، پاکستان میں ہر 5 میں سے 1 طالب علم ایسا ہے جو گریڈز کے دباؤ کی
وجہ سے نیند کی گولیاں استعمال کرتا ہے۔ ایک اور المناک مثال اسلام آباد کی
ایک لڑکی کی ہے جس نے میڈیکل کے امتحان میں ٹاپ کرنے کے لیے 6 ماہ تک سورج
طلوع ہوتے ہی کتابیں کھول لیں۔ جب وہ صرف 3 نمبروں سے ٹاپ نہ کر سکی، تو اس
نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے چھلانگ لگا دی۔ اس کی ڈائری کا آخری صفحہ تھا:
"میں نے سب کو مایوس کر دیا۔" پاکستان میں ہر گھنٹے 2 نوجوان سماجی میڈیا
پر اپنی شناخت چھپانے کے لیے جعلی اکاؤنٹس بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ 58%
پاکستانی خواتین کا ماننا ہے کہ ان کی جلد کا رنگ انہیں دوسروں سے کمتر
بناتا ہے۔ سال 2024 کے ایک سروے میں، 70% نوجوانوں نے اعتراف کیا کہ وہ
"دکھاوا" کرنے کے لیے اپنی تنخواہ کا 50% حصہ کپڑوں اور گاڑیوں پر لگا دیتے
ہیں۔
اس کہانی کو ذہن میں رکھیں جب ایک لڑکا جو ہمیشہ اپنے دوست کی نئی موبائل
فون دیکھ کر پریشان رہتا تھا۔ ایک دن اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی پرانی
موبائل کو ہی گھر کے پیچھے والے کمرے میں رکھ دے گا اور اسے صرف ضرورت کے
وقت استعمال کرے گا۔ کچھ ہفتوں بعد اس نے محسوس کیا کہ اب وہ اپنے دوست کی
فون کو دیکھ کر اتنا پریشان نہیں ہوتا۔ وجہ؟ جب ہم کسی چیز کو اپنی نظر سے
دور کر دیتے ہیں، تو وہ ہمارے دماغ سے بھی دور ہو جاتی ہے۔ یہی اصول سماجی
میڈیا پر لاگو ہوتا ہے۔ اگر آپ انسٹاگرام کو روزانہ 1 گھنٹے تک محدود کر
دیں، تو 3 ہفتوں میں آپ کا دماغ "دوسروں کی زندگیوں" کے بجائے اپنی زندگی
کو ترجیح دینے لگے گا۔ ایک تجربے میں، جن شرکاء نے 1 ماہ تک سماجی میڈیا کا
استعمال 50% کم کر دیا، ان میں خود اعتمادی کی شرح 40% بڑھ گئی۔
"میں کیوں؟" کا کھیل، جب بھی آپ کسی سے اپنا موازنہ کریں، تو خود سے پوچھیں
"کیا یہ شخص واقعی میری زندگی کے معیار کو طے کر سکتا ہے؟" مثال کے طور پر،
اگر آپ کسی کی مہنگی گاڑی دیکھ کر پریشان ہیں، تو سوچیں کیا اس گاڑی کے
مالک کی زندگی واقعی بے خوف اور پرسکون ہے؟ اکثر جواب "نہیں" ہوتا ہے۔
"ناکامی" کو گلے لگائیں جیسا کہ جاپان میں ایک دلچسپ روایت ہے جہاں لوگ
اپنی ناکامیوں کی تقریبات مناتے ہیں۔ کیا آپ اپنی چھوٹی ناکامیوں کو بھی
ایک کامیابی کی طرح منا سکتے ہیں؟ مثال کے طور پر، اگر آپ کا پروجیکٹ منظور
نہیں ہوا، تو اپنے آپ کو ایک کپ کافی تحفے میں دیں—کیونکہ آپ نے کم از کم
کوشش تو کی! مزید یہ کہ بےوقوف بنو، مگر خوش رہو": مشہور مصنفہ جے کے رولنگ
نے کہا تھا: "اپنی ناکامیوں کو اپنی طاقت بنائیں۔"ایک بار آزمائیں: اپنی
کسی کمزوری کو دوستوں کے سامنے مذاق کی طرح پیش کر دیں۔ جیسے کہیں "میرے
پاس تو گاڑی نہیں، مگر میں نے پیدل چل کر اتنی کیلوریز جلائی ہیں کہ آپ کی
گاڑی کا ایندھن ختم ہو جائے!" آپ دیکھیں گے کہ لوگ آپ کی ہنسی اڑانے کے
بجائے آپ کی خود اعتمادی کو سراہیں گے۔ احساسِ کمتری کی سب سے بڑی ستم
ظریفی یہ ہے کہ یہ ہمیں دوسروں کی روشنی میں اپنے آپ کو ڈھونڈنے پر مجبور
کرتا ہے، حالانکہ ہماری اپنی چمک ہمارے اندر ہی چھپی ہوتی ہے۔ یاد رکھیں:
سماجی میڈیا پر ہر وہ شخص جو آپ کو "کامیاب" نظر آتا ہے، شاید اپنی زندگی
کے کسی کونے میں بیٹھا آپ کی کامیابیوں سے جل رہا ہو۔
آخری بات یہ کہ تاریخ کے سب سے کامیاب لوگ وہ نہیں تھے جنہوں نے دوسروں کی
نقل کی، بلکہ وہ تھے جنہوں نے اپنی انوکھی راہ بنائی۔ جیسے بیل گیٹس نے
کالج چھوڑ کر مائیکروسافٹ بنائی، یا ایلون مسک نے لوگوں کے مذاق اڑانے کے
باوجود سپیس ایکس کو ممکن بنایا۔ تو پھر کیوں نہ آپ بھی اپنی انوکھی پہچان
بنانے کی کوشش کریں؟ ہو سکتا ہے، کل کوئی آپ کی زندگی دیکھ کر کہے: "دیکھو!
یہ وہ شخص ہے جس نے دوسروں کی نقل کرنے کے بجائے خود کو ڈھونڈ لیا۔"
|