ترکی کے جنگل کی گھنی وادیوں میں، جہاں دھوپ چھن کر زمین
کو سنہری کرتی تھی، ایک معصوم سی لڑکی روزانہ گزرتی تھی۔ اس کا نام زہرہ
تھا، لیکن پورے گاؤں میں اسے "سرخ ٹوپی" کہا جاتا تھا، کیونکہ وہ ہمیشہ
اپنی نانی کے ہاتھ سے بنی ہوئی سرخ اونی ٹوپی پہنا کرتی تھی۔ یہ ٹوپی اس کے
لیے خاص تھی، اس کی پہچان اور محبت کا نشان۔
ایک دن، زہرہ نے اپنی ماں کے کہنے پر نانی کے لیے کچھ کھانے پینے کی چیزیں
لے جانے کی تیاری کی۔ ٹوکری میں تازہ روٹیاں، شہد کا مرتبان، اور ایک خط
رکھا گیا، جس میں نانی کے لیے خاص پیغام تھا۔ زہرہ نے اپنی سرخ ٹوپی پہن کر
سفر شروع کیا۔
راستہ جنگل کے بیچ سے گزرتا تھا، اور زہرہ نے ہمیشہ ان درختوں کے بیچ عجیب
سی سرگوشیوں کو محسوس کیا تھا، لیکن اس دن سب کچھ غیر معمولی خاموش لگ رہا
تھا۔ جب وہ راستے کے درمیان پہنچی تو اچانک ایک بھیڑیا اس کے سامنے آیا۔
"کہاں جا رہی ہو، سرخ ٹوپی؟" بھیڑیا نے اپنی گہری آواز میں کہا۔
زہرہ نے گھبراہٹ کو چھپاتے ہوئے کہا، "میں اپنی نانی کے لیے کھانا لے جا
رہی ہوں۔"
بھیڑیا مسکرایا، اور اس کی مسکراہٹ عجیب تھی، لیکن زہرہ نے ڈرنے کے بجائے
مضبوطی سے کہا، "تمہارے دانت تیز ہیں، لیکن میں نے سنا ہے کہ جنگل کے تمام
جانوروں میں بھیڑیے سب سے سمجھدار ہوتے ہیں۔ کیا یہ سچ ہے؟"
بھیڑیا چونک گیا۔ وہ توقع کر رہا تھا کہ زہرہ ڈر کر بھاگے گی، لیکن یہ بچی
نہ صرف بے خوف تھی بلکہ بات چیت کرنے میں بھی ماہر تھی۔ اس نے پوچھا، "تم
ڈرتی کیوں نہیں ہو؟ میں تو ایک شکاری ہوں۔"
زہرہ نے مسکراتے ہوئے کہا، "میرے نانی کہتی ہیں کہ خوف انسان کے دل کا دشمن
ہے۔ اگر ہم کسی کو سمجھنے کی کوشش کریں تو دشمن بھی دوست بن سکتا ہے۔"
بھیڑیا چند لمحوں کے لیے خاموش رہا۔ پھر اس نے کہا، "میں تمہارے ساتھ چلتا
ہوں، لیکن یاد رکھنا، اگر تم نے دھوکہ دینے کی کوشش کی، تو یہ جنگل میرا
ہے۔"
زہرہ نے اثبات میں سر ہلایا، اور دونوں ساتھ چلنے لگے۔ راستے میں زہرہ نے
بھیڑیے کو اپنی سرخ ٹوپی کی کہانی سنائی۔ یہ ٹوپی اس کی نانی نے اس وقت
بنائی تھی جب زہرہ بیمار تھی۔ وہ کہانی سناتے ہوئے اتنی خوشی سے چمک رہی
تھی کہ بھیڑیے کے دل میں ایک عجیب سا سکون اتر آیا۔
جب وہ نانی کے گھر پہنچے، تو زہرہ نے بھیڑیے کو اندر آنے کی دعوت دی۔
بھیڑیا پہلے ہچکچایا لیکن پھر اندر آیا۔ نانی نے مسکراتے ہوئے کہا، "تو یہ
وہ رازدار ہے، جسے تم نے راستے میں اپنا دوست بنایا؟"
زہرہ نے حیرت سے پوچھا، "رازدار؟"
نانی نے خط کھولتے ہوئے کہا، "یہ خط صرف کھانے کے بارے میں نہیں تھا، بلکہ
یہ ایک پیغام تھا۔ محبت اور ہمت کا پیغام، جو تم نے اپنے دل سے سیکھا ہے۔
تمہاری سرخ ٹوپی محبت کی علامت ہے، اور آج یہ ثابت ہو گیا کہ محبت خوف کو
مات دے سکتی ہے۔"
بھیڑیا یہ سب سن کر دنگ رہ گیا۔ اس نے زہرہ کو دیکھتے ہوئے کہا، "تم واقعی
خاص ہو، سرخ ٹوپی۔ تم نے میرے دل میں ایسی چیز جگا دی ہے، جو شاید میں نے
کبھی محسوس نہیں کی۔"
زہرہ مسکرائی اور کہا، "بس یہی محبت کا جادو ہے۔"
اس دن کے بعد، بھیڑیا جنگل کا محافظ بن گیا، اور زہرہ کو "سرخ ٹوپی کا
رازدار" کہا جانے لگا۔ جنگل میں اب خوف نہیں، بلکہ دوستی اور ہم آہنگی کا
پیغام گونجتا تھا۔
|