تعلیمی نظام یا خواب شکن حقیقت؟ پاکستان کے مستقبل کا سوال

پاکستان کا تعلیمی نظام ہمیشہ سے تنقید کی زد میں رہا ہے، مگر یہ تنقید کبھی عملی اصلاحات میں تبدیل نہیں ہو سکی۔ یہ نظام جہاں ایک طرف طبقاتی تفریق کو بڑھاوا دیتا ہے، وہیں دوسری طرف طلبہ کو وہ مہارتیں اور علم فراہم کرنے میں ناکام ہے جو جدید دنیا کے تقاضوں کو پورا کر سکیں۔ اگرچہ تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد ہوتی ہے، مگر پاکستان کا تعلیمی نظام اس بنیادی اصول سے کوسوں دور ہے۔

سب سے بڑی خامی تعلیمی نظام میں طبقاتی تقسیم ہے۔ سرکاری اسکولوں کا معیار اس قدر کمزور ہے کہ غریب گھرانوں کے بچے زندگی کی دوڑ شروع ہونے سے پہلے ہی ہار جاتے ہیں۔ دوسری طرف، نجی اسکول ایک مخصوص طبقے کے لیے تعلیم کے دروازے کھولتے ہیں، مگر ان کی فیسیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ اس تفریق کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف وہ طبقہ ہے جو جدید تعلیم حاصل کر کے معاشرے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، جبکہ دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو روزگار کے مواقع سے محروم رہتا ہے۔ یہ نظام نہ صرف ناانصافی پر مبنی ہے بلکہ ملک میں معاشرتی عدم استحکام کا باعث بھی بنتا ہے۔

اس سے بھی زیادہ گہری خامی یہ ہے کہ پاکستانی تعلیمی نظام طلبہ کی اصل صلاحیتوں، دلچسپیوں اور رجحانات کو یکسر نظرانداز کر دیتا ہے۔ یہ نظام ایسے نصاب اور کورسز کو ترجیح دیتا ہے جو زیادہ تر طلبہ کے لیے غیر ضروری اور بے معنی ہوتے ہیں۔ طلبہ کو ان کے شوق یا فطری صلاحیتوں کے مطابق تربیت دینے کے بجائے، انہیں رٹنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ صرف طلبہ اپنی تخلیقی اور عملی صلاحیتوں کو ضائع کر بیٹھتے ہیں، بلکہ ملک کو بھی ایسے ہنر مند افراد کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو معیشت اور معاشرت کو حقیقی ترقی دے سکیں۔ اس رویے نے کامیابی اور خوشحالی کے عمل کو ایک سست رفتار اور غیر مستحکم راستے پر ڈال دیا ہے، جس کا خمیازہ پورا ملک بھگت رہا ہے۔

نصاب میں یکسانیت کا فقدان بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان میں مختلف تعلیمی بورڈز کے نصاب نہ صرف ایک دوسرے سے مختلف ہیں، بلکہ ان میں جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگی بھی نہیں۔ روایتی نصاب زیادہ تر رٹنے کی عادت کو پروان چڑھاتا ہے، جبکہ جدید کورسز چند مخصوص طبقوں تک محدود ہیں۔ نتیجتاً، طلبہ کی اکثریت نہ تو وہ مہارتیں حاصل کر پاتی ہے جو آج کی معیشت میں ضروری ہیں، اور نہ ہی وہ اعتماد جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھار سکے۔

اساتذہ کی تربیت کا نظام بھی ناکافی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں پڑھانے والے بیشتر اساتذہ جدید تدریسی طریقوں سے ناواقف ہیں اور طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے بجائے انہیں صرف کتابی علم تک محدود رکھتے ہیں۔ دوسری طرف، نجی اسکولوں میں تربیت یافتہ اساتذہ کی موجودگی کے باوجود ان کی تعداد اتنی کم ہے کہ وہ پورے تعلیمی نظام میں تبدیلی لانے کے لیے کافی نہیں۔
امتحانات کا نظام بھی اس بحران کا ایک حصہ ہے۔ یہ نظام طلبہ کی تخلیقی اور عملی مہارتوں کا جائزہ لینے کے بجائے، انہیں محض نمبروں کی دوڑ میں دھکیل دیتا ہے۔ طلبہ کے لیے کامیابی کا پیمانہ رٹے ہوئے جوابات دینے کی صلاحیت بن چکا ہے، جس کی وجہ سے وہ حقیقی علم اور تجربے سے دور رہتے ہیں۔

یہ تمام مسائل صرف تعلیم کے نظام تک محدود نہیں، بلکہ یہ ملک کے مجموعی مستقبل کو متاثر کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ چیلنجز گہرے اور پیچیدہ ہیں، لیکن ان کا حل ناممکن نہیں۔ پاکستان کو ایک ایسا تعلیمی نظام درکار ہے جو طلبہ کی صلاحیتوں اور رجحانات کو سمجھتے ہوئے ان کی تربیت کرے۔ طلبہ کو ان کے شوق اور فطری صلاحیتوں کے مطابق مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔

تعلیمی نصاب کو جدید دنیا کی ضروریات کے مطابق ڈھالنا اور پورے ملک میں یکساں تعلیمی معیار نافذ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ حکومت کو بجٹ میں تعلیم کے لیے زیادہ حصہ مختص کرتے ہوئے سرکاری اسکولوں کا معیار بہتر بنانا ہوگا۔ اساتذہ کی تربیت کے لیے خصوصی پروگرامز کا آغاز کیا جانا چاہیے جو انہیں جدید تدریسی تکنیکوں سے روشناس کرائیں۔ امتحانات کے نظام میں بھی بنیادی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ طلبہ کی تخلیقی اور عملی صلاحیتوں کو جانچ سکے، نہ کہ ان کی رٹنے کی صلاحیت کو۔

پاکستان کے تعلیمی نظام میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ یہ صرف طلبہ کا نہیں، بلکہ پورے ملک کے مستقبل کا سوال ہے۔ اگر یہ نظام طلبہ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے بجائے انہیں رٹنے اور غیر ضروری کورسز کے بوجھ تلے دبائے رکھے گا، تو ترقی کا خواب ایک سراب ہی رہے گا۔ تبدیلی ممکن ہے، بشرطیکہ ہم اپنے رویوں اور حکمت عملی کو بہتر کریں اور تعلیم کو واقعی ایک قومی ترجیح بنائیں
 

Ayesha Sajjad Arora
About the Author: Ayesha Sajjad Arora Read More Articles by Ayesha Sajjad Arora: 2 Articles with 222 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.