کہا جاتا ہے کہ صدیوں پہلے آئس لینڈ میں ایک خون آشام
وجود میں آئی تھی جسے "فریجہ" (Freyja) کہا جاتا تھا۔ فریجہ نہ صرف اپنی
طاقتور صلاحیتوں کے لیے جانی جاتی تھی بلکہ اپنی بے مثال خوبصورتی اور
خطرناک سرخ آنکھوں کے لیے بھی مشہور تھی۔ اس کی داستان آئس لینڈ کی کہانیوں
میں خون آشاموں کی سردار کے طور پر لکھی گئی ہے۔
فریجہ ایک ویران شہر میں رہتی تھی، جہاں بلند و بالا عمارتیں اور سیاہ بادل
ہمیشہ خوف کی چادر اوڑھے رکھتے تھے۔ وہ ہر رات شہر کے اوپر چھتوں پر دوڑتی،
اپنے شکار کو تلاش کرتی، اور اپنی لافانی پیاس کو بجھانے کے لیے انسانی خون
پیتی تھی۔ مگر فریجہ کی زندگی میں ایک قید تھی۔
کہا جاتا ہے کہ ایک پرانی آئس لینڈ کی کتاب میں لکھا تھا کہ فریجہ کی زندگی
ایک خاص چاند کی رات کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اس چاند کی روشنی میں، اگر کوئی
اسے شکست دینے کی ہمت کرتا، تو وہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتی تھی۔ اس کتاب
کے مطابق، اس کے دل میں چھپی "سیاہ چمک" ہی اس کی لافانی طاقت کی بنیاد
تھی۔
ایک رات، جب آسمان پر سرمئی بادل چھائے ہوئے تھے اور شہر کی روشنی مدھم
تھی، فریجہ اپنے شکار کے تعاقب میں تھی۔ لیکن اسے علم نہ تھا کہ ایک جوان
آئس لینڈ کا سپاہی، جس کا نام فریر (Freyr) تھا، اس کا راز جان چکا تھا۔
فریر نے قدیم کتاب میں دی گئی ہدایات کو سمجھا اور فریجہ کا پیچھا شروع
کیا۔
جب فریجہ ایک بلند عمارت پر کھڑی، اپنے شکار کو دیکھ رہی تھی، تو فریر
اچانک ظاہر ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک خنجر تھا جس پر چاندنی سے چمکنے والا
جادوئی پانی لگا تھا۔ فریر نے فریجہ کی طرف بڑھتے ہوئے کہا، "تیرا وقت ختم
ہو چکا ہے، اے سایہ!"
فریجہ نے فریر کی طرف غصے سے دیکھا، لیکن پہلی بار اس کی آنکھوں میں خوف
جھلک رہا تھا۔ ایک طویل لڑائی کے بعد، فریر نے وہ خنجر فریجہ کے دل میں
پیوست کر دیا۔ ایک چیخ کے ساتھ، فریجہ کا وجود دھند میں تبدیل ہو گیا اور
ہمیشہ کے لیے غائب ہو گئی۔
کہا جاتا ہے کہ اس رات کے بعد وہ شہر دوبارہ پرسکون ہو گیا۔ لیکن آج بھی،
کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ فریجہ کے سایے کو دیکھ چکے ہیں، جو کسی ویران
چھت پر بیٹھی، اپنی کھوئی ہوئی طاقت کا ماتم کرتی ہے۔
|