غلام اسحاق نے بحیثیت صدر اپنی ساخت کھو دی تھی

غلام اسحاق خان پاکستانی تاریخ کا ایک ایسا کردارہیں جنہوں نے بیوروکریسی سے صدرات تک کا وہ سفر طے کیا جس میں اُنکے اسٹبلشمنٹ سے تعلق یا یہ کہنا زیا دہ مناسب ہو گا کہ وہ بذات ِخوداسٹبلشمنٹ کا حصہ تھے، یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے نگراں کے طور پر غلام اسحاق خان نے ایک اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کیا۔

غلام اسحاق خان بے نظیر بھٹو اور نواز شریف

غلام اسحاق نے بحیثیت صدر اپنی ساخت کھو دی تھی

غلام اسحاق خان پاکستانی تاریخ کا ایک ایسا کردارہیں جنہوں نے بیوروکریسی سے صدرات تک کا وہ سفر طے کیا جس میں اُنکے اسٹبلشمنٹ سے تعلق یا یہ کہنا زیا دہ مناسب ہو گا کہ وہ بذات ِخوداسٹبلشمنٹ کا حصہ تھے، جنکو جب موقع ملا اُنھوں نے اپنے مہرے خوب کھیلے۔عام طور عوامی سطح پر ایسی شخصیت کیلئے " جہاں دیدہ"کی اصطلاح استعمال ہو تی ہے اور غلام اسحاق کے طویل کیرئیر میں یہ واضح نظر آتا ہے کہ اُنھوں نے بیورکریسی کی منازل جہاں اپنی اصول پرستی اور ایماندار ی سے خوب انداز میں طے کیں وہاں سیاسی و عسکری حلقوں میں بھی اپنے تعلقات مضبوط کرتے رہے۔بلکہ اسٹبلشمنٹ کا حصہ بننے کیلئے اُنکے عسکری شعبے سے تعلقات زیادہ بہتر نظر آتے ہیں!جیسے کہ:
ٓ) صدرفیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں چیئر مین واپڈ
) صدر جنرل آغامحمد یحییٰ خان کے سیکرٹریٹ میں کیبنٹ سیکرٹری
) صدر و سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرذوالفقار علی بھٹو کا حکومت سنبھالتے ہی اگلے روز اُنھیں اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا گورنر مقرر کرنا
) وزیر ِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کا 1975ء میں اُنھیں وزارت ِ دفاع کا سیکرٹری بنا دینا
) مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کا غلام اسحاق خان کو سیکرٹری جنرل انچیف کے عہدے پر فائز کرنا
) صدر جنرل ضیاء الحق کے دورِحکومت میں وزیر ِخزانہ کا قلمدان سنبھالا
) صدر جنرل ضیاء الحق کے اعتماد پر ہی سینٹ کے چیئرمین کا عہدہ بھی حاصل کر لیا
اہم عہدوں کے اِس مختصر خاکے دوران بھی اُنھوں نے بیوروکریسی سے حکومتی سطح تک مختلف عہدوں پر اپنی ذمہداریاں نبھائیں۔لہذا وہ اپنے طویل بیورو کریسی و سیاسی کیریر میں جوڑ توڑ، محلاتی سازشوں کے ساتھ اہم اور حساس امور پر مشاورت میں حکمرانوں کے قریب رہے اور قیاس کی جائے تو اسٹبلشمنٹ کی حیثیت میں اپنے مشورے بھی منوانے میں بضد رہتے ہوں گے۔
غلام اسحاق نے زندگی کی شطرنج اس باکمال انداز میں کھیلی کہ صدر جنرل ضیاء الحق کے ہوائی جہاز کے حادثے میں ہلاک ہو جانے کے باعث اُنھیں پاکستان کی صدارت کی گدی بھی مِل گئی،کیونکہ 1973 ء کے آئین مطابق صدر کی غیر موجودگی میں سینٹ کا چیئرمین نگران صدر کی حیثیت میں ذمہداری نبھاتا ہے۔ صدر جنرل ضیاء الحق کی حادثے میں ہلاکت کی خبر کے بعد پاکستانی فوج کے سینئر افسر بھی ملک کی باگ دوڑ سنبھال سکتے تھے لیکن غلام اسحاق کے آگے فوج نے سر تسلیم ِخم کر لیا اور ملک میں جمہوریت اور اگلے چند ماہ میں ہونے عام انتخابات کیلئے نگران صدر کو مکمل یقین دہانی بھی کروا دی۔ یہ اسٹبلشمنٹ کی پہلی کامیابی تھی۔
غلام اسحاق خان نے اسکے بعد سُپریم کورٹ کے 2ِ اکتوبر 1988ء کے اُس فیصلے کو بھی صدق ِ دِل سے قبول کیا جو پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما محترمہ بینظیر بھٹو کی ایک آئینی درخواست پر دیا کہ آئندہ ملک میں انتخابات جماعتی بُنیادوں پر منعقد ہونگے۔ انتخابات میں پیپلز پارٹی مرکز اور صوبوں میں کامیاب ضرور رہی لیکن مرکز میں حکومت بنانے کیلئے واضح اکثریت کی ضرورت تھی۔یہاں بھی غلام اسحاق پر ذمہداری آگئی کہ وہ کس کو حکومت بنانے کی دعوت دیں گے؟ 11 سال اقتدار سے دور رہنے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے اور موومنٹ فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی (ایم آر ڈی) چلانے کے بعد پیپلز پارٹی کسی بھی طور پر اقتدار میں آنے کا یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی۔لہذا بے نظیر بھٹو نے صدر غلام اسحاق خان سے اُنکی پارٹی کو حکومت بنانے کی دعوت دینے کیلئے مذاکرات کیئے۔
شطرنج پر بیٹھے کھلاڑیوں کی چال اُنکی سوچ کے مطابق رہی اور ایک طرف وہ بے نظیر بھٹو کو وزیراعظم قبول کرنے پر آمادہ ہو گئے اور سیاست کا المیہ دیکھیں! دوسری طرف غلام اسحاق خان کو اگلے 5سال کیلئے صدر قبول کرنا بے نظیر بھٹو کی سیاسی مجبوری قرار پائی اور قربانی دی سیاست دان نوابزادہ نصراللہ خان کی جنہوں نے غلام اسحاق کے مد ِمقابل صدارتی الیکشن لڑا۔یہ تھی اسٹبلشمنٹ کی دوسری کامیابی۔
مرکز اور دوصوبوں سندھ اور کے پی کے میں پی پی پی حکومتیں بنانے میں کامیاب رہی جبکہ پاکستان کے سب سے بڑے اکثریتی صوبے پنجاب میں صوبائیت کا نعرہ لگا کر میاں نواز شریف آئی جے آئی (اتحادی جماعتوں کے گروپ) کی طرف سے وزیرِاعلیٰ پنجاب منتخب ہو گئے۔تاریخ میں ایسے شواہد سامنے آئے جس میں آئی جے آئی کے گٹھ جوڑ کی کہانی حکومتی سطح پر ایک سیاسی جماعت کو روکنے کیلئے لکھی گئی اور اس میں اسٹبلشمنٹ کا وہ کردار اہم تھا جسکی وجہ سے یہ اتحاد بنوایا گیا تھا۔کیونکہ مرکز اور پنجاب کی حکومت میں شدید محاذآرائی شروع ہو گئی اور آئے دِن ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑنظر آتی۔
اِن حالات میں پاکستانی سیاست اور محلاتی سازشوں میں پنجاب کے وزیر ِاعلیٰ نواز شریف اہم سیاسی شخصیت کا روُپ دھار چکے تھے اوراس دوران جمہوری انداز میں وزیر ِاعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک بھی ناکام ہوچکی تھی۔لہذا ایک ہی حل تھا کہ حکومت مخالف سیاسی شخصیات چوری آنکھوں صدر ِپاکستان کو 8ویں ترمیم استعمال کرنے کا اشارہ کریں۔پھر پرنٹ میڈیا کی حکومت مخالف شہ سُرخیوں نے حزب ِاختلاف کا ساتھ دیااور صدر غلام اسحاق نے 18 ماہ بعد ہی محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کر دیا اور مرکزی اور صوبائی اسمبلیاں توڑ کر نگران حکوتیں تشکیل دے دیں۔یوں بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت اقتدار سے رخصت ہوئی۔ صدر کی طرف سے کرپشن، اقربا پروری اور بری طرزِ حکمرانی کے الزامات عائد کیے گئے۔ 58 ٹو بی ایک اور منتخب حکومت کو نگل گئی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک اہم سابق رہنماء غلام مصطفی جتوئی کو نگران وزیر ِاعظم مقر کر دیا گیا اور اور اگلے90د ِن کے دوران اکتوبر1990ء میں عام انتخابات منعقد کروا کر آئی جے آئی کی کامیابی پر اسٹبلشمنٹ نے شطرنج کی چال میں اپنا اگلا پیادہ چلادیا۔غلام مصطفیٰ جتوئی اور محمدخان جونیجو کی کامیابی کے باوجود پنجاب سے میاں نواز شریف کو وزیر ِاعظم نامزد کروا دیا۔
میاں نواز شریف وزیر ِاعظم تو بن گئے لیکن اقتدار کی کشمکش میں اب مخالفانہ طاقت دِکھانے کی باری پی پی پی کی تھی۔بے نظیر بھٹو کی جماعت نے اس کوشش کیلئے لانگ مارچ بھی کیا لیکن شاید اُس کے اثرات اتنے خاص سامنے نہ آسکے جیتنا نواز شریف کو اپنے آپکو اسٹبلشمنٹ کی طاقت سے نکالنے کی کوشش میں اسٹبلشمنٹ کو دھچکا محسوس ہوا۔ بس ماضی کی طرح محلاتی سازشوں کا گڑھ صدارتی محل ہی بنا اور صدر غلام اسحاق نے ایک مرتبہ پھر 58 ٹو بی کا ستعمال کر کے نواز حکومت کو ڈھائی سال بعد ہی گھر بھیج دیا اور ملک کا نگران وزیر ِاعظم میر بلخ شیرخان مزاری کو بنا دیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کو 8ویں ترمیم کے ذریعے برطرف کروانے میں پیش پیش رہنے والے میاں نواز شریف نے اُسی ترمیم کے ذریعے برطرف ہونے پر بہت ہاتھ پاؤں مارے۔صدر نے تو نہ سُنی لیکن سُپریم کورٹ میں اپیل کرنے پر عدالتی حُکم میں نواز حکومت بحال کر دی گئی۔ نواز شریف کو کُرسی تو دوبارہ مِل گئی لیکن بیٹھنا نصیب نہیں ہو رہا تھا۔ہر روز صدارتی محل اور وزیرِاعظم ہاؤس سے کوئی نہ کوئی چال چلی جاتی جسکی وجہ سے ملک میں ایک سیاسی افراتفری کا ماحول پیدا ہو گیا۔اِن حالات میں فوج نے براہ ِراست مداخلت کر کے معاملہ سُلجھایا،لیکن اُس میں نواز شریف کی یہ ضد کام کر گئی کہ اگر وہ وزارتِ عُظمیٰ سے استعفیٰ دیں گے تو اس بار صدر غلام اسحاق کو بھی استعفیٰ دینا پڑے گا۔ اسٹبلشمنٹ نے اشارہ دے دیا کہ غلام اسحاق خان آپ نے اپنی ذمہداریاں بخوبی انجام دیں۔اب شکریہ!
پاکستانی عوام کو چند ماہ پہلے پارلیمنٹ میں غلام اسحاق خان کی تقریر کے دوران پی پی پی کی طرف سے " گو باباگوبابا" کے نعرے یاد تھے اور صدر کی طرف سے استعفیٰ دینے والی رات ملک کی وہ تمام سیاسی جماعتیں اور اُنکی حمایتی عوام جو صدر غلام اسحاق خان سے دونوں حکومتوں کو برطرف کروانے کیلئے8ویں ترمیم کی 58 ٹو بی کا استعمال کر نے کااشارہ کرتی رہیں وہ بی کہہ رہی تھیں " گو با باگوبا با"۔
غلام اسحاق خان کی بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومت سے کیوں نہ نبھ سکی اور دِلچسپ یہ بھی رہا کہ غلام اسحاق خان صدارت سے الگ ہو نے کے بعد سیاسی منظرنامے سے مکمل طور پر کیوں غائب ہوگئے؟وہ صحافیوں کو انٹرویو دینے سے گریز کرتے۔ اُنھوں نے اپنی کوئی خودنوشت بھی نہیں لکھی جبکہ وہ چار دہائیوں تک اقتدار کے ایوانوں کا اہم حصہ رہے تھے۔
یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے نگراں کے طور پر غلام اسحاق خان نے ایک اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اس سے بھی اِنکار نہیں کہ بیوروکریٹ اور معاشی امور کے ماہر کے طور پر وہ بے داغ شخصیت ضرور رہے،لیکن سیاسی داؤ پیچ کھیلتے کھیلتے وہ اس تالاب کی اُس گہرائی تک اُتر گئے جہاں اندھیرا تھا۔ لہذا تاریخ میں اُنکا نام ایک ایسے صدر کے طور پر درج ہو گیا جس نے دو منتخب وزرائے اعظم کو وہ ہتھیار استعمال کرتے ہوئے گھر بھیجا، جسے کبھی صدر جنرل ضیاالحق نے سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو کو رخصت کرنے کیلئے استعمال کیا تھا۔دوسری طرف اسٹبلشمنٹ نے شطرنج کی ایک اور کامیاب بساط لپیٹ دی اور اگلی بازی کیلئے پرانے کھلاڑیوں کو پھر مقابلے کیلئے آمنے سامنے لا کھڑاکیا۔
نوٹ:(اصغر خان کیس کے فیصلے میں کیا ہے؟ عبداللہ فاروقی،(عہدہ,بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، اسلام آباد...8مئی 2018 ء)
ذیل میں دیئے گئے لنک سے اُس دور کے بارے میں مزید مختصر معلومات پڑھی جا سکتی ہیں:
لنک:https://www.bbc.com/urdu/pakistan-44041507

Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 207 Articles with 344277 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More