علامہ محمد اقبال، جنہیں شعر و ادب کی دنیا میں "شاعر
مشرق" کے طور پر جانا جاتا ہے، صرف ایک عظیم شاعر اور فلسفی ہی نہیں بلکہ
وہ ایک ایسے رہنما تھے جنہوں نے مسلمانوں کی آزادی اور بقا کے لیے ایک
نظریاتی بنیاد فراہم کی۔ ان کی شاعری اور فلسفہ نہ صرف مسلمانوں کو بیدار
کرنے کے لیے تھی، بلکہ یہ ان کی قوم کے لیے ایک سیاسی وژن بھی پیش کرتا تھا،
جو بالآخر پاکستان کے قیام کی صورت میں حقیقت کا روپ دھار گیا۔
اقبال کا سیاسی اور فلسفیانہ کردار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انہوں نے
صرف مسلمانوں کی معاشی اور ثقافتی ترقی کو ہی اہم نہیں سمجھا بلکہ ان کی
آزادی اور خودمختاری کے لیے ایک مکمل سیاسی راہ بھی تجویز کی۔ علامہ اقبال
کی شاعری میں جو ایک نیا جہاد اور خودی کا تصور پیش کیا گیا، وہ دراصل
مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد کی اہمیت پر زور دیتا تھا۔ ان کے کلام میں ایک
جانب تو روحانیت کی گہرائی اور عشق کا پیغام تھا، تو دوسری جانب وہ
مسلمانوں کے لیے ایک نیا سیاسی عہد کا آغاز بھی تھا، جو بعد میں پاکستان کی
صورت میں ظہور پذیر ہوا۔
علامہ اقبال کا پاکستان کے قیام کے لیے جو کردار تھا، اس کی ابتدا 1905 میں
ایک خط سے ہوئی، جب اقبال نے انگلینڈ میں اپنی تعلیم مکمل کی اور واپس
ہندوستان آئے۔ اس وقت ہندوستان میں برطانوی راج تھا اور مسلمانوں کی سیاسی
طاقت کمزور ہو چکی تھی۔ اقبال کی نظریاتی جدوجہد کا آغاز اسی وقت سے ہوا،
جب انہوں نے مسلمانوں کو ان کی اصل شناخت کی اہمیت اور ان کی قوت کے بارے
میں آگاہی دینے کی کوشش کی۔
علامہ اقبال کی شاعری اور فکر کا بنیادی محور "خودی" اور "امت مسلمہ" تھا۔
ان کا ماننا تھا کہ مسلمان اپنے آپ کو پہچانیں اور اپنے اندر چھپی ہوئی
صلاحیتوں کو اجاگر کریں۔ اقبال کے مطابق، مسلمان صرف ایک مذہبی قوم نہیں
بلکہ ایک ایسی عظیم طاقت ہیں جو دنیا کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انہوں
نے مسلمانوں کو اپنی داخلی قوت اور خود اعتمادی کو پہچاننے کی ترغیب دی۔
اقبال کی نظر میں مسلمانوں کا مستقبل اس بات میں مضمر تھا کہ وہ اپنی اصل
روحانی اور ثقافتی ورثے سے جڑیں اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ
کو ڈھالیں۔
اسی فکر کی بنیاد پر اقبال نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کا تصور پیش
کیا، جس میں وہ اپنی مذہبی، ثقافتی اور سیاسی آزادی کے ساتھ زندگی گزار
سکیں۔ اقبال کا ماننا تھا کہ مسلمان جب تک اپنی جداگانہ شناخت کو محفوظ
رکھتے ہوئے ایک خودمختار ریاست کا قیام نہیں کرتے، وہ اپنی تقدیر کا فیصلہ
نہیں کر پائیں گے۔
علامہ اقبال کا فلسفہ دراصل انسان کی روحانیت اور خودی کے ارتقاء پر مبنی
تھا۔ وہ یقین رکھتے تھے کہ ہر فرد میں ایک داخلی قوت موجود ہے جو اسے
کامیابی کے راستے پر گامزن کر سکتی ہے۔ اقبال نے اس فلسفے کو اپنی شاعری
میں خوبصورتی سے پیش کیا۔ ان کے شعر "خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے
پہلے" میں یہی پیغام چھپا ہوا ہے کہ انسان اپنی تقدیر کو خود بناتا ہے، اور
اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر کی قوت کو پہچانے۔
علامہ اقبال کے فلسفے کا سیاسی پہلو بھی بہت اہم تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو
اس بات کی تلقین کی کہ وہ اپنی خودی کو تسلیم کریں اور دنیا میں اپنے حقوق
کے لیے لڑیں۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کا مستقبل اس بات میں تھا کہ وہ ایک
متحد اور خودمختار ریاست کے طور پر اپنی تقدیر کا فیصلہ کریں۔ اقبال نے
مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کا تصور پیش کیا، جہاں وہ اپنی مذہبی،
ثقافتی اور سیاسی آزادی کے ساتھ رہ سکیں۔
اقبال کی شاعری میں "پاکستان" کا تصور بار بار جھلکتا ہے۔ ان کی مشہور نظم
"شمع و پروانہ" میں جہاں وہ فرد کی خودی اور اس کی جدوجہد کی بات کرتے ہیں،
وہیں "لبیک یا اقبال" اور "خاکی و نوری" کے اشعار میں پاکستان کی سیاسی
ضرورت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں میں ایک
نئی امید پیدا کی اور انہیں ایک آزاد ریاست کا تصور دیا، جو بعد میں
"پاکستان" کے نام سے ایک حقیقت بن گئی۔
تحریکِ پاکستان کی بنیاد اقبال کی شاعری اور فکر پر رکھی گئی۔ اگرچہ اقبال
نے براہ راست پاکستان کے قیام کا مطالبہ نہیں کیا تھا، لیکن ان کے افکار
اور نظریات نے مسلمانوں کو ایک آزاد ریاست کے قیام کے لیے تحریک دی۔ 1930
میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں اقبال نے اپنی مشہور "دلی خطبہ" دیا،
جس میں انہوں نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کے قیام کی ضرورت پر زور
دیا۔ اس خطاب میں اقبال نے ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی حالت کا تجزیہ
کیا اور کہا کہ ہندوستان میں مسلمان اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے ایک
خودمختار ریاست کی ضرورت رکھتے ہیں۔
اقبال نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کا تصور پیش کیا تھا، جسے بعد میں
قائداعظم محمد علی جناح نے حقیقت میں بدل دیا۔ اقبال کی باتوں کو مسلم لیگ
کے اجلاس میں تسلیم کیا گیا، اور یہی وہ وقت تھا جب پاکستان کے قیام کی
بنیاد رکھی گئی۔ اقبال کے مطابق، مسلمان نہ صرف ایک مذہبی گروہ ہیں بلکہ
ایک علیحدہ قوم ہیں، جو اپنی ثقافتی، تاریخی اور روحانی شناخت کے حامل ہیں۔
ان کا ماننا تھا کہ مسلمانوں کو اپنے لیے ایک الگ وطن چاہیے، جہاں وہ اپنی
زندگی کے تمام پہلوؤں میں آزاد ہوں۔
علامہ اقبال کی شاعری اور تحریکِ پاکستان کا رشتہ ایک گہرے نظریاتی تعلق پر
مبنی تھا۔ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو ایک الگ ریاست کے قیام
کے لیے تیار کیا۔ ان کی نظم "اسرارِ خودی" میں خودی کے تصور کو اجاگر کیا
گیا، جو بعد میں پاکستان کے قیام کی فلسفیانہ بنیاد بنی۔ اقبال کے کلام میں
جب "قوم" اور "رشتۂ ملت" کی اہمیت کی بات کی گئی، تو وہ دراصل ایک آزاد
ریاست کے قیام کے نظریہ کو تقویت دے رہے تھے۔
ایسی شاعری جو مسلمانوں میں آزادی کے لیے شعور بیدار کرے، وہ دراصل ایک
سیاسی پیغام بھی تھی۔ اقبال کی نظم "یادِ گرامی" میں وہ مسلمانوں کو یہ بتا
رہے تھے کہ ان کے اندر ایک عظیم طاقت چھپی ہوئی ہے جو ان کے لیے ایک آزاد
ریاست کے قیام میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ اقبال کا یہی پیغام تھا کہ
مسلمانوں کی تقدیر ان کے اپنے ہاتھ میں ہے، اور انہیں اپنی آزادی کے لیے
جدوجہد کرنی چاہیے۔
پاکستان کا خواب علامہ اقبال نے اپنی شاعری اور فکری نظام میں واضح طور پر
پیش کیا تھا۔ اقبال نے مسلمانوں کو ایک ایسی ریاست کا تصور دیا تھا جس میں
وہ اپنے مذہبی، ثقافتی اور سیاسی حقوق کو محفوظ رکھتے ہوئے اپنی تقدیر کا
فیصلہ کر سکیں۔ ان کا ماننا تھا کہ مسلمانوں کا کوئی سیاسی مستقبل ہندوستان
میں نہیں ہے کیونکہ وہاں ہندو اکثریت میں ہیں، اور مسلمانوں کے مفادات کی
صحیح طور پر حفاظت نہیں ہو سکتی۔ اقبال نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ
ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کو تب تک تحفظ نہیں دیا جا سکتا جب تک وہ
ایک الگ ریاست میں نہ ہوں۔
ان کے مطابق، پاکستان ایک اسلامی ریاست ہوگی، جہاں اسلام کے اصولوں کے
مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہوگی۔ انہوں نے اسلامی معاشرت، عدلیہ، اور
معیشت کے اصولوں کو اپنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ اقبال کا نظریہ پاکستان،
اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کی بنیاد پر تھا۔ |