جی تو بچوں آج بہت عرصے بعد آپ کے لۓ ایک ذبردست کہانی لے
کر آئ ہوں۔ اس کہانی کی خاص بات یہ ہے کہ ایک تو یہ سچے واقعے کو بیان کرتی
ہے دوسرا یہ کہ ڈرؤانی بھی ہے۔ تو ہو گۓ ناں آپ سب تھوڑے پریشان۔ چلیں پھر
دل تھام لیں اور کہانی پڑھنا شروع کریں۔ یہ بتاتی چلوں کہ کہانی کے کرداروں
کے نام فرضی ہونگے۔
یہ واقعہ ایک ٹی وی پروگرام کے ہوسٹ (میزبان) کے ساتھ پیش آیا۔ ان کے
پروگرام کا مقصد ہی پرسرار، آسیب ذدہ اور خوفناک جگہوں پر جانا اور وہاں کے
مناظر اور تجربات کو ریکارڈ کر کے لوگوں کی ٹی وی سکرین پر لانا تھا۔
ایک دفعہ اُن صاحب جِن کا نام حسام تھا، کو ایک انجان نمبر سے ٹیلیفون کال
موصول ہوتی ہے۔ بات کرنے پر وہ خاصے حیران بھی ہوتے ہیں اور پریشان بھی کہ
ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ وہ فوراً ہی اپنے اسسٹنٹ کو لاہور سے راولپنڈی
کا سفر باندھنے کا کہتے ہیں۔
راولپنڈی پہنچنے تک کے سارے سفر میں حسام کچھ پریشان اور تذبذب کا شکار رہے
کہ نجانے اس گھر میں داخل ہوتے ہی ان کے ساتھ کیا معاملات درپیش آئیں۔ خیر
سفر تمام ہوا اور انہوں نے فراہم کردہ پتے پر پہنچ کر گھنٹی بجائ۔ دروازہ
کھولا گیا اور انہیں اندر آنے کو کہا گیا۔
چاۓ پانی اور تھوڑا سفر کی تھکان اتارنے کے بعد انہیں اس شخص سے ملوایا گیا
جس سے ملاقات کے لۓ انہیں وہاں مدعو کیا گیا تھا۔ کچن کے باہر پڑی چارپائ
پر ایک 18 سے 19 سال کا دبلا پتلا نوجوان بیٹھا دکھائ دیا۔ جس کا نام محبت
تھا۔ اسے دیکھ کر کوئ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ لڑکا دو سے تین کلو کچا گوشت
منٹوں میں چَٹ کر سکتا ہے۔ جی یہی تو وہ تھا جس کو وہ اپنی آنکھوں سے
دیکھنے آۓ تھے۔
دراصل انہیں یہی بتایا گیا تھا کہ محبت کچا گوشت دیکھتے ہی آپے سے باہر ہو
جاتا ہے اور گوشت پر یوں لپکتا ہے جیسے کوئ جنگلی جانور اپنے شکار پر۔ پھر
یوں اس گوشت کا منٹوں میں صفایا کرتا ہے کہ کسی کے یقین و گمان میں بھی
نہیں ہوتا۔
حسام سے محبت بہت اچھے سے پیش آیا۔ سلام دعا کے بعد حسام نے سوچا کہ اب
محبت کی اس انوکھی اور پراسرار عادت سے پردہ کیسے اٹھایا جاۓ؟ بس پھر کیا
انہوں نے اپنے اسسٹنٹ کے ساتھ بازار کا رخ کیا اوردو کلو کا ہنٹر گوشت کا
ٹکڑا لے آۓ۔
محبت باورچی خانے میں ہی تھا، حسام نے برآمدے میں ہی کھڑے ہو کر ابھی گوشت
کا تھیلا کھولا ہی تھا کہ محبت کی نظر پڑ گئ۔ بس پھر کیا تھا وہ کسی جانور
کی طرح تیزی سے حسام کی طرف لپکا۔ حسام کا اسسٹنٹ کیمرے سے سب فلمبند کرنا
چاہتا ہی تھا اور حسام، محبت کو گوشت سے دور رکھنے کی کوشش کر ہی رہے تھے
کہ سب نے انہیں منع کیا کہ ایسا کرنے سے ان کو محبت نقصان پہنچا سکتا ہے۔
محبت نے پلک جھپکتے گوشت کا ٹکڑا چھین کر یوں منٹوں میں چٹ کیا جیسے کچھ
کھایا ہی نہ ہو۔ اس کے فوراً بعد وہ حسام اور ان کے اسسٹنٹ پر جھپٹنے کو
دوڑا۔
اپنی جان بچانے کو سب سیڑھیاں اترتے گرؤانڈ فلور پر پہنچے۔ اتنے میں کیا
دیکھتے ہیں کہ محبت اوپر سے ہی چھلانگ لگاتا ہے کسی خونخوار چیتے کی طرح
اور ان دونوں کے پیچھے بھاگنے لگتا ہے بغیر گرے، بغیرکوئ چوٹ کھاۓ۔ حسام
اور اسسٹنٹ گیراج میں کھڑی گاڑی کے چاروں طرف گول دائرے میں بھاگنے لگتے
ہیں۔ آخر کار کسی طرح مالک اپنے دو اور نوکروں کے ساتھ مل کر محبت کو قابو
کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
سانس بحال ہونے پر حسام نے دیکھا محبت کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ چند
لمحے گزرنے کے بعد محبت بالکل نارمل ہو گیا۔ آدھ گھنٹے کے وقفہ کے بعد حسام
اور محبت محو گفتگو تھے۔ حسام حیران تھے کہ اس دھان پان سے لڑکے میں اتنی
طاقت و توانائ کیسے آگئ تھی؟
اسی شام جس صاحب نے حسام کو مدعو کیا تھا انہیں کسی نے اطلاع دی کہ کوئ
پہنچے ہوۓ بابا جی راولپنڈی آۓ ہوۓ ہیں اگر انہوں نے محبت کو دکھانا ہے تو
لے آئیں۔ وہ صاحب، محبت، حسام اور ان کے اسسٹنٹ دیئے گۓ پتے پر پنہچے۔ کمرے
میں بابا جی موجود تھے۔ محبت کو دیکھتے ہی سمجھ گۓ کوئ اوپری اثر ہے۔ دل ہی
دل میں کچھ پڑھ کر دم کیا اور سوالات پوچھنا شروع کیے۔ اس پر ایک جن چمٹا
ہوا تھا اس نے بتایا کہ جب محبت سوات میں دریا کے کنارے کھیل رہا تھا، اس
نے ایک پتھر مارا جو میرے بیٹے کو لگا اور وہ مر گیا۔ بس تب سے مجھے اس سے
نفرت ہو گئ اور اسی لۓ جب بھی گوشت نظر آتا ہے میں محبت میں جاگ جاتا ہوں
اور خوب شوق سے گوشت کھاتا ہوں۔
بابا جی نے کہا محبت نے جان بوجھ کر تھوڑی نہ مارا تھا تمہارے بچے کو اور
اسے وہ کون سا نظر آ رہا تھا؟ اب تم کیا چاہتے ہو؟ تم فوراً محبت کا پیچھا
چھوڑ دو۔ جن نے کہا ٹھیک ہے اگر یہ معافی مانگ لے اور پھر کبھی اپنے آبائ
گاؤں نہ جاۓ تو۔
محبت نے معافی مانگی اور دل پر پتھر رکھ کر دوبارہ سوات نہ جانے کا وعدہ
کیا۔ بابا جی نے دوبارہ کچھ پڑھ کر محبت پر دَم کیا اور پھر سب نے بابا جی
کا شکریہ ادا کرتے ہوۓ رخصت چاہی۔
گھر واپس پہنچ کر، حسام نے لاہور واپس جانے کا ارادہ کیا۔ ان صاحب اور محبت
سے گلے مل کر دعا دی کہ اب وہ جن سے چھٹکارا حاصل کر کے ہمیشہ خیریت سے
رہے۔
واپسی کے سفر پر بھی حسام کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ سب کچھ خود دیکھ،
محسوس اور بُھگت کر آ رہے ہیں۔ انہوں نے اللہ پاک کا شکر ادا کیا کہ وہ خیر
خیریت سے اپنے گھر جا رہے ہیں۔
پیارے بچوں کیسی لگی آپ کو یہ کہانی۔ ان شاء اللہ جلد ہی ایک نئ ومنفرد
کہانی لے کر آؤنگی آپ کے لۓ۔ خوش رہیں اور دل لگا کر پڑھیں۔ فی امان اللہ
|