چل پڑے شوق آوارگی میں

( سیزن 6 بہالپور )

زمانہ طالب علمی سے ہی سیاحت سے دلچسپی ہمیشہ رہی ہے. کبھی کالج ٹوورز تو کبھی یونیورسٹی ٹوورز کے باعث یہ شوق اور پروان چڑھتا گیا پھر تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد تلاش معاش بھی ایسا ملا کے جب تک پاکستان میں رہے فیلڈ جابس میں پاکستان کے شہر شہر گاؤں گاؤں وغیرہ میں سفر وسیلہ ظفر رہے یہ سلسلہ بعد میں دیار غیر میں بھی برقرار رہا.

ہمیشہ یہی آس رہی کہ جب بھی پاکستان جائینگے بہالپور کو وزٹ ضرور کرینگے کیونکہ اس شہر کے ماضی کے دور کی ریاست بہاولپور کی تاریخی عمارتوں کو قریب سے دیکھنے کا شرف حاصل کرینگے کئی عرصہ سے بہاولپور دیکھنے کا شوق تھا مگر ہر دفعہ کوئی ایسا کام نکل آتا کے اپنا فیصلہ کئی دفعہ موخر کرنا پڑا خیر اس دفعہ یہ سفر پر جانا بہاولپور حقیقت کا روپ میں بدل گیا ارادہ تو یہی تھا کہ دسمبر میں بہاولپور کا سفر کیا جائے، اور آخر کار دسمبر ہی کے مہینہ کا قرعہ فال نکلا.

سوچ تو یہی تھی کے بائے روڈ بہاولپور جایا جائے مگر جس طرح کے کراچی سے حیدرآباد موٹروے کا سفر ایک ہفتہ پہلے کیا تھا یہ دو گھنٹے کا سفر ایسا معلوم ہوا کہ جیسے کہیں کچے کے علاقہ کا سفر کررہے ہیں. جس طرح کی موٹروے کی حالت ناقابل بیان ہے اکثر مقامات پر رونگ سائیڈ پر گاڑیوں کی آمدورفت ایسا لگتا کہ یہ موٹروے نہیں یہ کوئی پنڈ سے لنک روڈ نکال دیا جب دو گھنٹے کے سفر چار گھنٹے کے سفر ہر اختتام ہو. یہی سوچ کہ جب دو گھنٹے کے سفر کا یہ حال ہے تو آگے سندھ کے آخری شہر کے روڈ تک کیا ہوگا اور اپنا بائی روڈ سے جانے کا فیصلہ موخر کرکے بائی ائیر کراچی سے ملتان کا پروگرام فائنل ہوگیا. وہ دن بھی آگیا آخر کار کراچی ائیرپورٹ پر شام پانچ بجے پہنچ گئے مختلف مراحل سے گزر کر ایک گھنٹے پہلے جہاز پر براجمان تھے.

پی آئی اے میں کافی عرصہ بعد فلائی کررہے تھے تو عجیب سا لگ رہا تھا. خیر جتنی بھی دُعایں یاد تھی وہ ٹیک آف وہ لینڈنگ کرتے پڑھ ڈالیں مگر جو پی آئی اے کے بارے میں جس طرح بتایا جاتا تھا وہ سب ہمیں ایسا لگا کہ سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں جتنی بھی انٹرنیشنل ائیر لائینز سے مڈل ایسٹ ، یورپ یا امریکہ کا سفر کیا وہ ہمیں کراچی اور ملتان کے پی آئی اے کے سفر نے ہمیں یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ پی آئی اے کے پائیلٹ و اسٹاف انٹرنیشنل ائیر لائینز سے کہیں پیچھے نہیں بس ان کے ادارے کو بھی ایک ایماندار و محنتی و میرٹ سے بھر پور لیڈر چاہیے. خیر رات ہم ملتان ائیرپورٹ پہنچ چکے تھے. ائیرپورٹ پر ہی عشاء کی نماز پڑھی اس کے بعد ملتان ائیرپورٹ سے رات ہی بہاولپور کی راہ لی راستے میں ہی ہوٹل پر پرتکلف اور لذیذ کھانا تناول فرمایا کیونکہ بہاولپور ہوٹل پہنچنے کے بعد اس تھکاؤٹ سے کھانا خانہ مشکل ہوجاتا. خیر رات دس بجے خیریت سے بہاولپور ہوٹل پہنچ کر اپنے بیڈروم کی چابی لیکر صبح بہاولپور شہر کے دیکھنے کا پروگرام ترتیب دینے کے بارے میں غور و فکر شروع کردیا.

صبح فجر کی نماز پڑھ کر بہاولپور شہر میں اپنی آمد کا آغاز کی ناشتے وغیرہ سے فارغ ہوکر ساڑھے نو بجے شہر بہاولپور کی سیر کو نکلے. شہر بہاولپور کے روڈوں اور علاقہ میں صفائی کا دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا کہ پاکستان میں بھی کوئی ایسا شہر ہے جہاں آج کل کے دور میں اس طرح کی صفائی ہوتی ہے کہ اس ہی سے اندازہ ہوگیا شہر بہاولپور کے لوگوں کا اور ان کے ماضی کے آباواجداد کے ذوق کے مزاج کا کاش، کراچی کے مئیر مرتضی وہاب شہر بہاولپور آکر اس شہر کی صفائی کو دیکھتے ہوئے کراچی میں صرف %25 فیصد ہی عمل کرلیں تو شہر کراچی کی تصویر بدل جائیگی

اب کچھ تذکرہ بہاولپور کی تاریخ کا بھی ہوجائے شکارپور اور بہاولپور آپس میں گہرا رشتہ اور تعلق ہے.

شکارپور کے داؤد پوتہ اور بہاولپور کے نواب ایک ہی خاندان سے تھے. ان کے جد اعلی امیر چنی خان تھے. داؤد پوتہ خاندان نے 1617 میں شکارپور کی اور عباسی نوابوں نے 1727 میں بہاولپور بنیاد رکھی.

بہاولپور ایک تاریخی حیثیت کا حامل شہر ہے،ماضی میں برصغیر کی ایک ترقی یافتہ ریاست تھی،قیام پاکستان کے بعد بہاولپور پہلی ریاست تھی، جس نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا.

بہاولپور میں سات دروازے ہیں، جن میں ایک “شکارپوری گیٹ” بھی ہے، جو شکارپور کی یادگار میں بنایا گیا ہے، اس وجہ سے ہم سندھ والوں پر حق بنتا ہے کہ بہاولپور ضرور دیکھیں.

ہماری پہلی منزل بہاولپور کی تاریخ میں بہت اہمیت کا حامل اور بہاولپور کی پہنچان نور محل تھا،حقیقت یہ ہے کہ ہمیں بہاولپور دیکھنے کی تمنا بھی نور محل کی وجہ سے ہوئی تھی، جب پہنچے تو سیاحوں کا بڑا ہجوم تھا، کافی کالجوں اور اسکولوں کے طلبہ اور طالبات نور محل دیکھنے آرہے تھے. نور محل عظیم شاہکار اور فن تعمیر کی اعلی مثال ہے. دو سو سال پہلے ایسا عالیشان محل تعمیر کرانا، یقیناً ان بادشاہوں کے ذوق اور شوق کی عکاسی کرتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ اپنے شوق کی تسکین میں ایسی عالیشان عمارتیں کھڑی کرنے سے نہیں گھبراتے تھے، بھلے کتنا ہی سرمایہ خرچ کیوں نہ ہو.

بہر حال بہاولپور شہر کا طائرانہ نظارہ کرتے ہوئےتیزی سے منزل کی طرف بڑھ رہے تھے، راستے میں بہت سے تاریخی مقامات کو دور سے دیکھنے پر اکتفا کیا، ان میں وکٹوریہ ہسپتال بھی تھا، جو کئ ایکڑوں پر محیط ہے، جو 1906 میں ملکہ وکٹوریہ کی وفات کے بعد ان کے یاد میں تعمیر کی گئی تھی. کچھ دیر بعد نور محل پہنچے، وسیع وعریض ایراضی پر محیط یہ محل بہت ہی خوبصورت اور دلکش منظر پیش کررہا تھا، نور محل کے لیے بہت سی کہانیاں مشہور ہیں کہ یہ اس لیے بنایا گیا وغیرہ،

لیکن خاندانی روایت موجب نواب صاحب نے یہ محل اپنے مہمانوں لیے تعمیر کرایا تھا. بہاولپور کے نوابوں کے چار محل مشہور ہیں اور اب تلک ان کی یادگار ہیں، ان میں ایک یہی ہے، باقی میں دربار محل، گلزار محل قابل ذکر ہیں.

سابقہ ریاست بہاولپور کے نوابوں کے پاس بہت دولت تھی۔ انھوں نے اپنے علاقے کی ترقی کے لیے دل کھول کر اسے استعمال کیا اور ساتھ ساتھ اپنے شایانِ شان محلات بھی تعمیر کروائے۔

بہاولپور ریاست تو اب قصہ پارینہ بن گئی ہے مگر بہاولپور کے نوابوں کی تعمیر کردہ عمارتیں ضرور ان کے وجود کا احساس دلاتی ہیں۔ بہاولپور ریاست کی عمارتیں واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ جب بھی کوئی بہاولپور کا رُخ کرے تو اس کو صرف ’دیکھنے والی آنکھ‘ چاہیے اور کچھ نہیں۔

بہاولپور میں داخل ہوتے ہی وکٹوریا ہسپتال، لائبریری، میوزیم، ڈرنگ سٹیڈیم، ایجرٹن کالج جیسی تاریخی عمارتیں نظر آئینگی سابقہ ریاست بہاولپور کئی شاہکار عمارتیں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، جن میں بہاولپور کا مقبول ترین صادق گڑھ پیلس، عباسی مسجد، نامور دراوڑ قلعہ، اوچ شریف، بہاولپور کی مرکزی لائبریری، عباسی مسجد، گلزار محل، دربار محل وغیرہ قابلِ ذکر ہیں، ان عمارتوں سے ابھی آنکھیں جھپکتی تھی بھی نہیں کہ ایک عالی شان اور بلند و خوبصورت عمارت نظر آئیگی جو نور محل کے نام سے یہ عمارت بہاولپور ریاست کے نوابوں کے دور میں بننے والی سہولیات خطے کے اعتبار سے اپنے وقت میں کافی جدید و بہترین آرکیٹجرز کا نمونہ پیش کرتی ہیں.

نور محل، نو کلاسیکی طرز پر ایک اطالوی شاطو (جاگیرداروں کی دیہاتی رہائش گاہ) کی طرح 1872ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ تین سال کی مسلسل محنت کے بعد یہ محل 1875ء میں پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ اس کی تعمیر پر اس وقت 12لاکھ روپے کی خطیر رقم خرچ کی گئی تھی۔ محل کا آرکیٹیکچر مسٹر ہیننان نے ڈیزائن کیا، جن کا تعلق برطانیہ سے تھا۔ اطالوی طرز تعمیر کا شاہکار یہ شاندار اور پُرتعیش محل 44ہزار 6سو مربع فٹ پر پھیلا ہوا ہے۔ دال ماش اور چاول کی آمیزش سے بنے مسالے سے تعمیر شدہ اس نور محل میں آنے والوں میں ایسے طلباؤں کے ساتھ ساتھ ہم جیسے لوگ بھی شامل ہیں، جو بہاولپور ریاست کی باتیں سُن کر امیر ریاست کی پُرشکوہ نشانیاں دیکھنے آتے ہیں۔

نور محل ایک وسیع و عریض سبزہ زاروں میں کھڑی یہ عمارت مغربی اور اسلامی طرزِ تعمیر کا ایک بہترین و خوبصورت نمونہ پیش کرتا نظر آتا ہے۔ اس کی آب و تاب اور طمطراق دور ہی سے اپنے قریب ہونے کا پیغام دیتی ہے.

نور محل جو اپنے پہلو میں سبزے کی چادر بچھائے ہے۔ اس کے بالکل سامنے دائرے کی شکل میں بنے لان میں بیٹھے ہلکے سرخ اور سفید رنگ کی عمارت کو دیکھتے اس کے سحر میں ڈوب نے کے خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔

آج سے تقریباً ڈیڑھ سو سال پرانا یہ نور محل ان بہت سے محلات میں سے ایک ہے جو 19ویں صدی کے آواخر اور بیسویں صدی کے آغاز کے دوران ریاست بہاولپور میں تعمیر ہوئے۔ اور دوسرے تو محلات شاید اس سے بھی زیادہ خوبصورت ہیں مگر نور محل میں کچھ الگ ضرور نظر آتا ہے۔

تاج محل کے بارے میں تو دنیا جانتی ہے کہ مغل بادشاہ نے اپنی محبت نور جہاں کی وفات کے ایک سال بعد اس کی یاد میں اس نے آگرہ میں یہ محل تعمیر کروایا تھا، جو مسلم آرٹ کا شاہکار ہے۔ کچھ لوگ یہی کہتے ہیں کہ بالکل ایسے ہی نواب آف بہاولپور نواب صادق محمد پنجم نے اپنی ملکہ کی محبت میں یہ محل تعمیر کرایا اور اس کا نام ملکہ کے نام سے منسوب کرکے اسے ’نور محل‘ کا نام دیا۔ ( جبکہ تاریخ میں ایسی کوئی تحریر یا ریکارڈ نہں اور خود نواب صادق کے نواسہ نے اس سے اتفاق نہیں کیا. اگر ہوتا تو برصغیر کی فلم انڈسٹری اس محبت پر نواب صاحب اور مسز نواب پر اب تک درجن بھر فلمیں بن جاتیں ) ان کہ نواسے تو یہی فرماتے ہیں کوئی بیگم کبھی یہاں نہیں رہیں‘ اور یہ محل کسی بھی بیگم کے لیے نہ تو تعمیر ہوا اور نہ ہی اس کے نام میں موجود نور کسی بیگم کے نام سے منصوب ہے۔ اُس زمانے میں کسی بیگم کا نام لینا بھی برا سمجھا جاتا تھا۔‘

نواب صادق اور مسز نواب صادق نے اس محل میں صرف ایک رات قیام کیا کیونکہ انھیں یہ بات پسند نہیں آئی کہ محل کے قریب میں ایک قبرستان موجود تھا۔ نور محل کے حوالے سے یہی کہانی آپ کو انٹرنیٹ پر بھی بیشمار جگہ ملے گی۔ مگر اس میں کوئی حقیت نہیں یہ سب افسانوی لگتی ہیں. سوائے سنِ تعمیر کے، اس کہانی میں کچھ بھی درست نہیں.
پاکستان بننے کے بعد نور محل کچھ عرصہ اوقاف کے پاس رہا اور پھر پاکستانی فوج کو لیز پر دے دیا گیا جس نے بعد ازاں اس کو خرید لیا۔ ان دنوں یہ فوج کے زیرِ انتظام ہے۔

اس کی عمارت میں ریاست کی تاریخ اور خصوصاً نواب سر صادق محمد خان پنجم کے حوالے سے جو چیزیں رکھی گئی ہیں۔ آنے والے ایک معمولی سے رقم کا ٹکٹ خرید کر اس تاریخی ورثہ کی سیر کر سکتے ہیں۔ اس محل کو نور یعنی روشنی کی نسبت دی گئی ہے۔ ’نور محل میں نور کا مطلب روشنی ہے۔

اس محل کی تعمیر اس طرح کی گئی ہے کہ اس میں سورج کی روشنی کے داخل ہونے کے لیے خاص طور پر راستے رکھے گئے ہیں۔ محل کے مرکزی ہال میں نواب کے بیٹھنے کے دربار کے عین اوپر شیشوں کی دیوار نظر آتی ہے۔

اس میں شیشوں کا استعمال اور ان کی مینا کاری اس انداز میں کی گی ہے کہ عمارت کے ہر کونے میں قدرتی روشنی اپنا نور ہر جگہ پہنچ جاتی ہے. اس کا اندازہ اس شیشے سے لگایا جا سکتا ہے جو نواب کے دربار کے عقب میں نصب کیا ہوا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو ریاست بہاولپور کے نوابوں کا ذوق اور سینٹرل لائبریری دیکھ کر علم دوستی کا کیا معیار تھا اور جو نور محل کی تعمیر اور ان نوابوں کا فن تعمیر کا شوق دیکھ کر اتنا عرصہ پہلے ایسے شاہکار تخلیق کروا گیا کہ آج بھی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

پاکستان کے قومی دنوں اور ہفتے کے آخری دو دن لائٹ نور محل میں شو منعقد کیا جاتا ہے۔ یہ منظر قابلِ دید ہوتا ہے جو نور محل کے حقیقی معنی کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں محل کو باہر سے لائٹوں سے روشن کیا جاتا ہے۔ اس کے گنبدوں پر نوابین کی تصاویر بھی دکھائی جاتی ہیں۔
جبکہ تاریخ بھی اور نواب بہاولپور کے رشتہ داروں کے مطابق یہ مہمان خانہ تھا۔ ’اس وقت کی بڑی بڑی ریاستوں کے نواب اس میں ٹھہرے ہیں۔ بعد میں سابق وزیرِاعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ فاطمہ جناح جیسی شخصیات بھی یہاں ٹھہری ہیں۔‘اس میں اس وقت کے شاہِ ایران کے علاوہ راج برطانیہ کے وائسرائے، گورنر پنجاب اور پاکستان کے سابق صدر اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ایوب خان بھی ٹھہر چکے ہیں۔
نوابوں کے دور میں بھی اور اب بھی نور محل میں ریاستی اور سرکاری تقریبات منعقد کی جاتی ہیں ۔ ’ریاست بہاولپور کے آخری تین نواب اسی ہال کے اندر تخت نشین ہوئے تھے۔ یعنی اس میں ان کی دستاربندی کی گئی تھی۔‘

نور محل کی عمارت میں ایک عدد پیانو بھی رکھا گیا ہے۔ یہ نواب صادق محمد خان چہارم جن کو صبحِ صادق کا لقب بھی دیا گیا تھا انھوں نے جرمنی سے سنہ 1875 میں درآمد کیا اور اپنی بیگم کو تحفے میں دیا تھا۔
جبکہ کچھ مورخین یہ بتاتے ہیں کہ یہ پیانو درحقیقت ’نواب صادق محمد خان پنجم کا تھا۔ وہ پیانو بجانا بھی جانتے تھے۔‘

نواب صادق محمد خان پنجم سنہ 1935 میں حج کے لیے سعودی عرب گئے تھے۔ اس سفر کے دوران انھوں نے جو گاڑی استعمال کی وہ بھی نور محل کے باہر کھڑی ملے گی۔

نور محل کی تعمیر میں مغربی اور اسلامی دونوں طرز کی تعمیرات کا امتزاج ہر جگہ نظر آتا ہے۔ آپ جیسے ہی اس میں داخل ہوں اور نیچے فرش پر دیکھیں اور سر اٹھا کر چھت کو دیکھیں۔ ان میں بنے نقوش ان دونوں طرزِ تعمیر کی عکاسی کرتے نظر آئیں گے۔

مرکزی ہال کے دونوں اطراف رہائشی کمرے تھے ان میں زیادہ تر اب مقفل ہیں۔ ایک کمرہ اور اس میں لگا بیڈ اور دیگر فرنیچر سیاحوں کے لیے کھولا گیا ہے۔ محل کے مختلف دالانوں میں ریاست بہاولپور کے دور کی اشیا، لباس، ہتھیار اور دیگر اشیا رکھی گئی ہیں۔

جبکہ محل کا فرنیچر برطانیہ، اٹلی، فرانس اور جرمنی وغیرہ سے درآمد کیا گیا تھا۔ یہ فرنیچر آپ کو مرکزی ہال میں بھی ملے گا اور بیڈ روم میں بھی۔ آج بھی اس کی چمک دمک قائم ہے۔

دیواروں پر تصویروں کی مدد سے نواب سر صادق محمد خان عباسی پنجم اور ان کے دور کی تاریخ آویزاں ہے۔ محل میں ایک بلیئرڈ روم بھی موجود ہے جس میں سنوکر کا میز اور ضروری لوازمات آج بھی موجود ہیں۔ اس کمرے کا دروازے سامنے برآمدے میں کھلتا ہے۔

شام کو غروب ہوتے سورج کی روشنی برآمدے کی محرابوں سے چھنتی محل میں داخل ہوتی ہے۔ صبح سے لے کر شام اور پھر چاند کی راتوں میں بھی نور محل میں روشنی ضرور رہتی ہے۔

 

انجنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 404 Articles with 208529 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.