نقشِ ہستی

ایک معمر شخص ہاتھوں کے نشانوں کو وجود، وراثت، اور زندگی کی عارضی خوبصورتی کی علامت کے طور پر سوچتا ہے۔

چاندنی رات تھی۔ آسمان پر تارے یوں بکھرے تھے جیسے کائنات نے خوابیدہ موتیوں کا ہار پہن رکھا ہو۔ زمین پر ہوا سرگوشیاں کر رہی تھی، اور ایک ندی اپنی نرم آواز میں کسی پرانے گیت کو دہرا رہی تھی۔

ایک ویران کمرے میں، روشنی کی ہلکی سی لکیر چوبی کھڑکی کے سوراخ سے اندر جھانک رہی تھی۔ کمرے کے فرش پر ایک بوڑھا شخص بیٹھا تھا۔ اُس کے ہاتھ میں کاغذ کا ٹکڑا اور اُس پر سیاہی سے ابھرتا ہوا ایک نقوشی ہاتھ کا نشان تھا۔ اُس کی آنکھوں میں سوال تھے—پرانے سوال، جن کا جواب صدیاں بیتنے کے بعد بھی نہیں ملا۔

وہ سرگوشی میں خود سے کہتا، "یہ ہاتھ... یہ نشان... کیا یہ میری تقدیر کا قصہ ہے؟"

بوڑھے نے اپنی انگلیاں اُس نشان پر رکھی اور ماضی میں کھو گیا۔ اُس کا ذہن وقت کی دھول سے باہر جھانکنے لگا۔ ایک نوجوان لڑکا، ایک نیا خواب، اور اُس کے ہاتھوں میں ایک کائنات۔

وقت کے سمندر میں بہتا ہوا اُس نے سوچا:
"کیا ہمارا وجود اِس ہاتھ کے نشان سے زیادہ ہے؟ وہ نشان جو ہم چھوڑ جاتے ہیں، وہی ہمارا اثاثہ ہے؟ یا شاید اُس نشان کے پیچھے چھپی کہانی اہم ہے؟"

ہاتھ کا نشان... وہ نشان جو ہر انسان اپنے عمل سے چھوڑتا ہے۔ کچھ نشان چٹانوں پر کندہ ہوتے ہیں اور صدیاں گزرنے کے بعد بھی باقی رہتے ہیں۔ کچھ نشان بارش میں بہہ جاتے ہیں، اور کچھ ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ مگر ہر نشان، ہر نقشِ پا اپنی کہانی سناتا ہے۔

بوڑھا اُٹھا، کمرے کے کونے میں موجود آئینے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ اُس نے اپنے ہاتھوں کو غور سے دیکھا۔ چمڑی پر گہرے زخموں کے نشان، رگوں کے اُبھار، اور ہتھیلی کی لکیروں کا پیچیدہ جال۔ اُس نے خود سے کہا:
"یہی ہاتھ زندگی کی بنیاد ہیں۔ ان ہاتھوں نے تخلیق کیا، فنا کیا، محبت کو چھوا، نفرت کو دبایا، خواب تراشے اور حقیقت کے تاریک پہلوؤں کو بھی محسوس کیا۔ پھر بھی ہم بھول جاتے ہیں کہ ان ہاتھوں میں کائنات کا سب سے بڑا راز چھپا ہے۔"

خواب، محبت، شکست، اور کامیابی۔ یہ سب ہاتھ کی ہتھیلی پر رقم ہیں۔ مگر سوال یہ تھا کہ وہ نشان کیوں رہ جاتے ہیں؟

نقشِ ہستی—یہی وہ جواب تھا جو بوڑھے کو زندگی نے سکھایا تھا۔ ہستی کا نقش مٹتا نہیں۔ وہ کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی لمحے میں زندہ رہتا ہے۔ ایک مسکراہٹ، ایک مہربانی، ایک محبت بھرا لمس—یہ سب نشان ہیں جو ابد تک اپنی موجودگی رکھتے ہیں۔

وہ بولا، جیسے ہوا سے مخاطب ہو:
"یہ ہاتھ تقدیر کے کاتب ہیں۔ اگر ہم نے ان ہاتھوں کو سکون دیا، محبت دی، تخلیق کی طاقت دی، تو یہ زمین پر خوشبو چھوڑ جائیں گے۔ لیکن اگر ہم نے ان پر ظلم ڈھایا، نفرت بوئی، تو یہ ہاتھ راکھ ہو جائیں گے۔"

ندی کی سرگوشیاں اُس کی بات پر سر ہلا رہی تھیں۔ کائنات جیسے اُس کی تصدیق کر رہی تھی۔ اُس نے کاغذ کو دوبارہ دیکھا۔
"یہ نشان کیا بتاتا ہے؟ کہ میں ہوں... میرا وجود ہے۔ میں گزر گیا تو بھی میری حقیقت کسی نہ کسی نشان میں باقی رہے گی۔ شاید ایک یاد میں، شاید ایک زخم میں، شاید محبت کے کسی چھوٹے سے لمحے میں۔"

بوڑھے نے اپنے ہاتھوں کو سینے سے لگایا، اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ رات مزید گہری ہو چکی تھی، مگر اُس کی آنکھوں میں روشنی کا ایک چراغ جل رہا تھا۔ اُس نے جان لیا تھا کہ کائنات کی سب سے بڑی حقیقت یہی ہے—
نقشِ ہستی۔

ہر انسان، ہر لمس، ہر خیال اپنے پیچھے ایک نشان چھوڑتا ہے۔ یہ نشان کبھی فنا نہیں ہوتے۔ یہ ہمارے وجود کی آخری چیخ بھی ہو سکتے ہیں، اور محبت کی آخری دعا بھی۔

بوڑھے نے کاغذ کو تہہ کیا اور اپنے بوسیدہ کوٹ کی جیب میں رکھ لیا۔ اُس نے آخری بار آسمان پر جھانکا اور چاند کو یوں دیکھا جیسے اُس کی مسکراہٹ کا جواب مل چکا ہو۔

رات نے اپنے گھونسلے میں نیند بھر لی، اور ہوا نے ندی کے گیت کو تھپکی دے کر سلایا۔ مگر بوڑھا جانتا تھا کہ جب تک یہ نشان موجود ہیں، ہستی کا سفر ختم نہیں ہو سکتا۔
 

Dr. Shakira Nandini
About the Author: Dr. Shakira Nandini Read More Articles by Dr. Shakira Nandini: 384 Articles with 265535 views Shakira Nandini is a talented model and dancer currently residing in Porto, Portugal. Born in Lahore, Pakistan, she has a rich cultural heritage that .. View More