رات کا دامن کائنات کے نرگسی آنکھوں کی پلکوں پر اُترا
ہوا تھا۔ کہیں دور پہاڑوں کی گود میں چمکتے ہوئے ستارے یوں دکھائی دیتے تھے
جیسے کسی خاموش سمندر پر روشنی کے شرارے تیر رہے ہوں۔ جنگل کی گہرائی میں
ایک تنہا درخت تھا، سرخ مائل چھال اور خمیدہ شاخوں والا، جس کے نیچے ایک
کتا بیٹھا ہوا تھا۔ اُس کی آنکھیں نصف وا تھیں، جیسے کسی انجانی سوچ میں گم
ہوں۔ شاید وہ کائنات کا سب سے صابر رازدار تھا، جو وقت کی گردش کو خاموشی
سے دیکھ رہا تھا۔
یہ کتا عام نہ تھا۔ اُس کی شخصیت میں کچھ ایسا فلسفیانہ وقار تھا کہ دیکھنے
والا بھی سوچ میں پڑ جاتا۔ اُس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اِسی تنہا درخت
کے نیچے بسر کیا تھا۔ خزاں کے پتوں کی سرسراہٹ، بہار کے پانیوں کا ترنم،
برسات کی گونجتی بوچھاڑ اور سردیوں کی نرمی—اُس نے سب کچھ محسوس کیا تھا۔
لیکن اُس کی خاموشی گہری تھی۔ وہ بولتا نہیں تھا، مگر اُس کی آنکھیں بولتی
تھیں۔ گویا اُس کے اندر ایک پوری کائنات بند تھی۔ اُس کائنات کا فلسفہ کیا
تھا؟ سکوت۔ سکوت جو کہہ رہا تھا کہ کائنات کا ہر جواب خاموشی میں چھپا ہے۔
ایک دن جنگل میں ایک نوجوان مسافر آ نکلا۔ اُس کی آنکھوں میں الجھن اور
چہرے پر سفر کی تھکن تھی۔ وہ تھوڑا آگے بڑھا اور درخت کے قریب کتے کو دیکھا۔
اُس نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا اور بولا:
“کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں کون ہوں؟”
کتے نے اپنی سرخ آنکھوں کو اُس کی جانب اُٹھایا۔ ایک لمحے کے لئے دونوں کے
بیچ خاموشی کا تبادلہ ہوا۔ پھر مسافر خود ہی ہنس کر بولا:
“شاید نہیں، لیکن میں خود کو بھی نہیں جانتا۔ میں نے دنیا کے بڑے بڑے شہر
دیکھے ہیں، وہاں کی روشنیاں، شور و غوغا، اور انسانوں کی بے تحاشا دوڑ، مگر
میری روح اُس شور میں کہیں کھو گئی ہے۔ مجھے بتاؤ، میں کس چیز کی تلاش میں
ہوں؟”
کتا خاموش رہا۔ وہ مسافر کو یوں دیکھ رہا تھا جیسے اُس کی بات کا جواب خود
اُس کے سوال میں چھپا ہوا ہو۔ درخت کی شاخوں سے ایک زرد پتہ ٹوٹا اور ہوا
میں لرزتا ہوا زمین پر گرا۔
نوجوان نے اُس منظر کو دیکھا اور دھیما سا مسکرایا:
“کتنی عجیب بات ہے، ایک پتہ ٹوٹتا ہے، خاموشی سے زمین پر گرتا ہے اور ہمیں
کائنات کے سب سے بڑے سبق دے جاتا ہے۔ سب کچھ عارضی ہے، لمحہ بہ لمحہ فنا ہو
رہا ہے۔ مگر پھر بھی ہم اپنی خواہشوں کے جال میں اُلجھے ہوئے ہیں۔”
کتے کی آنکھوں میں ایک چمک سی لہرائی، جیسے وہ مسافر کی بات سے اتفاق کر
رہا ہو۔ کائنات کا یہ کتا ایک راز رکھتا تھا—وہ راز جو اُس نے سکوت کے
زریعے جانا تھا۔ اُس کے لئے زندگی ایک “بادبان” تھی۔ ایک ایسا بادبان جو
وقت کے سمندر پر سفر کر رہا ہو۔ کائنات کا ہر ذی روح اسی بادبان کا حصہ ہے،
اور کسی نہ کسی لمحے اُس بادبان کو سکوت کی منزل تک پہنچنا ہوتا ہے۔
مسافر نے تھکن سے زمین پر بیٹھتے ہوئے کہا:
“کتنی بے وقوفی ہے یہ زندگی! ہم اُس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں جو ہمارا کبھی
تھا ہی نہیں۔ تم کتنے خوش قسمت ہو کہ سکون میں بیٹھے ہو۔”
کتے نے ایک بار پھر آسمان کی جانب دیکھا۔ اُس نے اپنی آنکھیں بند کیں اور
ہوا کے نرم جھونکوں کو محسوس کیا۔ مسافر خاموش ہو گیا۔ اُس نے کتے کی
موجودگی میں ایک عجیب سا سکون پایا تھا۔ یہ سکون اُس کے شہر کے جھمیلوں میں
کہیں نہیں تھا۔
رات مزید گہری ہو چکی تھی۔ تاریکی نے جیسے ساری کائنات کو اپنے گھونسلے میں
سمیٹ لیا ہو۔ مسافر نے اپنی نگاہیں درخت کے نیچے بیٹھے فلسفی کتے پر ڈالیں
اور بولا:
“شاید جواب خاموشی میں ہے۔ سکون میں۔ تم نے مجھے آج سب کچھ بتا دیا بغیر
کچھ کہے۔”
وہ اٹھا، اپنے کپڑے جھاڑے، اور جنگل کے اُس راستے پر چل پڑا جہاں سے آیا
تھا۔ درخت کے نیچے بیٹھا کتا اُس کے جاتے قدموں کو دیکھتا رہا۔ وہ اپنی جگہ
ساکت تھا، اپنی فطرت میں قائم۔ اُس کے چہرے پر ایک چھپا ہوا تبسم تھا، جیسے
کائنات کے راز اُس نے ہمیشہ کے لئے پا لئے ہوں۔
|