کشتی کی وہ سنہری شام

عارف اور مہوش کی کشتی کی سواری ایک سنہری شام کے درمیان بچپن کے خوابوں، محبتوں اور وعدوں کی عکاسی کرتی ہے۔

ہوا میں ہلکی سی نمی تھی، اور سورج اپنے ڈھلتے ہوئے سائے زمین پر بکھیر رہا تھا۔ شام کا وقت تھا جب گاؤں کے قریب ایک چھوٹی سی جھیل کے کنارے کشتی میں دو بچے بیٹھے تھے۔ وہ دونوں اپنی دنیا میں کھوئے ہوئے تھے۔ لڑکا، جس کا نام عارف تھا، گاؤں کے ملاح کا بیٹا تھا۔ اس کے سر پر سفید ملاح کی ٹوپی اور بدن پر دھاری دار قمیض تھی، جو اس کے معصوم چہرے کو اور بھی نمایاں کرتی تھی۔ دوسری جانب لڑکی، نازک سی مہوش، ایک زمیندار کی بیٹی تھی، جس کی گوری رنگت اور سفید فراک سورج کی روشنی میں جھلک رہی تھی۔

عارف اور مہوش کے درمیان یہ ملاقاتیں اکثر ہوتی تھیں، مگر آج کا دن کچھ خاص تھا۔ کشتی میں بیٹھے دونوں بچوں نے جھیل کے پرسکون پانی پر اپنے خوابوں کی کشتیاں بہانے کا ارادہ کیا۔ مہوش نے ایک چھوٹا سا کاغذ نکالا اور اس پر اپنا نام لکھ کر عارف کی طرف بڑھایا۔ "یہ میری کشتی ہوگی،" اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

عارف نے ہنس کر جواب دیا، "اور یہ کشتی ہمیشہ تیرے خوابوں کو سنبھالے رکھے گی۔"

دونوں نے اپنے اپنے خوابوں کی باتیں شروع کر دیں۔ عارف کو ملاح بن کر دور دراز کے سمندروں کا سفر کرنے کی خواہش تھی، اور مہوش ایک دن شہر کی بڑی درسگاہ میں پڑھنا چاہتی تھی۔ ان خوابوں کے درمیان، وہ دونوں اپنے بچپن کی معصوم دنیا میں کھو گئے۔

پانی کے بیچوں بیچ، کشتی آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ مہوش نے جھیل کے پانی کو ہاتھ سے چھوا، تو عارف نے ہنستے ہوئے کہا، "ارے، پانی گندا نہ کر دینا۔" اس پر مہوش نے مزاحیہ انداز میں کہا، "اگر میں پانی گندا کر دوں تو کیا ہوگا؟"

"پھر میری کشتی تیرے ہاتھ سے دور چلی جائے گی،" عارف نے شرارتی مسکان کے ساتھ جواب دیا۔

یہ باتیں کرتے کرتے شام گہری ہو رہی تھی۔ سورج کی روشنی سنہری رنگ میں ڈھل کر پانی پر جھلملا رہی تھی۔ دونوں بچے ایک دوسرے کے بہت قریب بیٹھے تھے، جیسے وقت رک گیا ہو۔ اچانک، عارف نے سنجیدہ ہو کر کہا، "مہوش، یہ جھیل ہمیشہ ہمارے خوابوں کی گواہ رہے گی، مگر کیا ہوگا جب تو شہر چلی جائے گی؟"

مہوش کے چہرے پر معصومیت کے ساتھ اداسی کی ہلکی سی جھلک آ گئی۔ اس نے کہا، "عارف، میں کبھی نہ بھولوں گی کہ تو نے مجھے خواب دیکھنا سکھایا۔ لیکن تو وعدہ کر، جب میں شہر جاؤں تو تو اپنی کشتی لے کر مجھ سے ملنے آئے گا۔"

عارف نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا، جیسے وعدہ کرتے ہوئے کہہ رہا ہو، "میں ہمیشہ تیرے خوابوں کے ساتھ رہوں گا، چاہے جھیل ہو یا شہر۔"

ان کے درمیان یہ باتیں ہورہی تھیں کہ کشتی جھیل کے بیچ رک گئی۔ مہوش نے جھک کر عارف کے قریب جاتے ہوئے ایک کاغذ کی کشتی کو پانی پر چھوڑ دیا۔ وہ دونوں خاموشی سے اس کاغذ کی کشتی کو پانی میں بہتا ہوا دیکھتے رہے، جیسے اس میں ان کے تمام خواب قید ہوں۔

یہ سنہری شام ان کے دلوں میں ایک یاد کی طرح محفوظ ہو گئی، ایک ایسی یاد جو وقت کے ساتھ کبھی پرانی نہ ہوگی۔ عارف اور مہوش کی یہ کشتی زندگی کے ان خوابوں کی علامت تھی جو معصومیت اور محبت کے ساتھ ہمیشہ تیرتے رہتے ہیں۔
 

Dr. Shakira Nandini
About the Author: Dr. Shakira Nandini Read More Articles by Dr. Shakira Nandini: 384 Articles with 265571 views Shakira Nandini is a talented model and dancer currently residing in Porto, Portugal. Born in Lahore, Pakistan, she has a rich cultural heritage that .. View More