سکون کی تلاش

ایک نوجوان عورت پارک کے سکون کے درمیان امن پر غور کر رہی ہے، زندگی کے گہرے فلسفے سے پردہ اٹھا رہی ہے۔

دھوپ نرم، سبزہ گہرا اور ہوا میں ہلکی سی سرگوشی کا احساس تھا۔ ایک دوپہر کے وقت، باغ کے وسط میں بیٹھی ہوئی ایک نوجوان عورت، سفید لباس میں ملبوس، آنکھیں بند کیے، دنیا کی ہنگامہ خیزی سے بے خبر تھی۔ اس کی حالت ایک ایسی تھی کہ جیسے وقت کی رفتار تھم گئی ہو، اور یہ منظر کوئی قدیم یونانی افسانہ معلوم ہوتا تھا۔

یہ مقام کسی عام باغ کی مانند نہیں تھا؛ یہ گویا کسی روحانی تربیت گاہ کا حصہ لگتا تھا، جہاں ہر گھاس کا تنکا اور ہر ہوا کا جھونکا گویا ایک پیغام لے کر آتا تھا۔ یہاں بیٹھنے والی یہ عورت شاید کسی فلسفی کی بیٹی تھی، جو زندگی کے شور و ہنگام میں سکون کے راز تلاش کر رہی تھی۔

"زندگی ایک شور ہے،" اس نے خود سے کہا ہوگا، "اور سکون ایک گیت۔" اس کے چہرے کی معصومیت اور بند آنکھوں کے پیچھے وہ سوچیں چھپی ہوئی تھیں جو شاید ایک مدت سے گمشدہ تھیں۔ وہ سوچ رہی تھی کہ آیا سکون حاصل کرنا ایک خواب ہے یا حقیقت؟

لکھنوی زبان کے آداب اور نزاکتوں کے مطابق، اس باغ کا ہر گوشہ ایک محفلِ فکر معلوم ہوتا تھا۔ ہریالی کے بیچ وہ اس سوچ میں غرق تھی کہ انسان اپنی زندگی میں کیوں سکون سے محروم ہوتا جا رہا ہے؟ شاید یہ دنیاوی خواہشات کا شور ہے، جو دل کی آواز کو دبا دیتا ہے۔

"سکون وہ لمحہ ہے،" وہ بڑبڑائی ہوگی، "جب انسان اپنے آپ سے ملتا ہے۔" یہ وہی فلسفہ تھا جو بڑے فلاسفہ نے اپنی زندگیوں میں بیان کیا، مگر یہاں اس عورت کے لبوں پر آیا ہوا تھا، نہ کسی کتاب سے پڑھا گیا، نہ کسی استاد سے سیکھا گیا۔

ہوا کے نرم جھونکے نے گھاس کی پتیوں کو چھوا، اور وہ حرکت گویا زندگی کی علامت بن گئی۔ "زندگی بھی ایک ہوا کی مانند ہے،" اس نے محسوس کیا ہوگا۔ "آتی ہے، چھوتی ہے، اور پھر آگے بڑھ جاتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اسے محسوس کرتے ہیں؟"

اس کی سفید پوشاک اور سکون میں لپٹی ہوئی آنکھیں اس کے وجود کو زمین کے ساتھ جوڑتی تھیں۔ "انسان کو سکون کے لیے زیادہ کچھ نہیں چاہیے،" اس نے اپنے دل میں کہا ہوگا۔ "بس تھوڑا وقت، تھوڑا خاموشی، اور خود کو سمجھنے کی ہمت۔"

یہ باغ لکھنؤ کی تہذیب کے عکاس تھا، جہاں ہر چیز اپنے آپ میں ایک کہانی تھی۔ گھاس کا نرم بستر، پودوں کی سرسراہٹ، اور ہوا کی سرگوشی گویا اس عورت کے خیالات کا حصہ بن چکے تھے۔

"سکون ایک کیفیت ہے،" وہ سوچ رہی تھی، "نہ تو یہ خریدی جا سکتی ہے، نہ ہی کسی سے مانگی جا سکتی ہے۔"

زندگی کے مسائل اور شور کے درمیان، وہ یہ سیکھ رہی تھی کہ سکون کا فلسفہ آسان نہیں، لیکن وہ ناممکن بھی نہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت تھی جو انسان کے اندر چھپی ہوئی ہوتی ہے، بس اسے تلاش کرنے کے لیے وقت اور نیت کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس عورت کے سکون کی تلاش نے اس باغ کو فلسفے کی ایک زندہ تصویر بنا دیا تھا۔ اور شاید یہ لکھنؤ کے پرانے دور کی خاصیت تھی کہ یہاں کا ماحول، زبان اور فلسفہ انسان کو زندگی کی گہرائیوں میں جھانکنے کا موقع دیتا تھا۔

جب وہ اپنی آنکھیں کھولے گی، تو شاید دنیا وہی ہوگی، لیکن وہ خود بدل چکی ہوگی۔ سکون کی تلاش، اگرچہ مشکل تھی، مگر اس لمحے میں اس نے یہ جان لیا تھا کہ اصل سکون انسان کے اندر ہے، باہر نہیں۔
 

Dr. Shakira Nandini
About the Author: Dr. Shakira Nandini Read More Articles by Dr. Shakira Nandini: 384 Articles with 265567 views Shakira Nandini is a talented model and dancer currently residing in Porto, Portugal. Born in Lahore, Pakistan, she has a rich cultural heritage that .. View More