خیبر سٹاپ سے ٹنڈو آدم اور ٹنڈو آدم سے سانگھڑ تک بہترین
شاندار کارپٹ روڈ بنا ہے۔ سانگھڑ کے قرب و جوار میں گیس اور پیٹرول دریافت
ہی نہیں ہوئی بلکہ ترسیل بھی جاری ہے الحمدللہ ۔ بقول میزبانوں کے جب سے
چائینہ کے لوگ یہاں آ کر آباد ہوئے ہیں ان پلانٹس کو آپریشنل کرنے کے سلسلہ
میں ٹنڈو آدم میں آوارہ کتے نہیں ملتے۔ ضرورت مند لوگ پکڑ کر بیچ آتے ہیں۔
(واللہ اعلم) ایسی ہی ایک بات فیصل آباد میں ایک آفیسر نے بتائی تھی کہ
گدھے جن کی ٹانگ ٹوٹ جائے ہم بیکار کرکے آوارہ چھوڑ دیتے جبکہ چینی لوگ اس
کو پکڑ کے کھا لیتے ہیں بلکہ خوب جشن سے کھاتے ہیں ۔۔۔۔کھوتے کا گوشت۔۔۔۔۔
لاہور والے ناراض نہ ہوں 🫣 چینیوں کے حوالہ سے بات کر رہا ہوں ۔ بعد مغرب
مختصر قیام بلکہ قیام اتنا ہی کیا جتنی دیر میں کھانا کھایا وہ بھی دعا
سلاطین ہوٹل پر۔ یہاں سے روانہ ہوئے تو فل اندھیرا چھا چکا تھا۔ شاہ نواز
بھائی سے رابطہ تھا۔
تقریباً پچاس کلومیٹر دور سانگھڑ تھا ایک ہی روڈ جاتا ہے اس سائڈ سے اس لیے
کوئی دقت نہیں ہوئی۔ مین چوک میں شاہ نواز نظامانی صاحب بنفس نفیس کار پر
منتظر تھے۔ یہاں بھی حسب روٹین وہی معاملہ پیش آیا کہ جب ہم سے ہوچھا کہ
سائیں کس چیز پر ہو جواب دیا موٹر سائیکل 🏍️ پر۔ اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔ ان کی
گاڑی کو فالو کرتے رہائش گاہ تک پہنچے۔ مہمان خانہ میں اہتمام تھا، یہ
مہمان خانہ بھی نظامانی صاحب کا کتب خانہ اور دارالمطالعہ بھی تھا۔ بہت
ساری کتب الماریوں میں ترتیب وار سجی ہوئی تھیں۔ بعد ازاں معلومات پر پتا
چلا کہ اس علاقہ میں نظامانی خاندان کی اکثریت آباد ہے۔ یہ پورا خاندان
سندھ کی سرزمین کی عظیم روحانی درگاہ پیر جو گوٹھ حضرت پیر پاگارا رحمۃ
اللہ علیہ کے حلقہ ارادت میں داخل ہے پیر صاحب سے خلافت بھی ہے اور سانگھڑ
کا مدرسہ صبغۃ الاسلام جامعہ راشدیہ شاخ اول جو 1961ء میں پیر صاحب کے ذاتی
رقبہ تقریباً ایک ایکٹر پر محیط ہے ۔آج کل اس کی نگرانی بھی شاہ نواز صاحب
کے ہی سپرد ہے۔
بہت کمال شخصیت ہیں، مجھ سے عمر میں بڑے ہیں لیکن شفقت سے بھائی ہی کہہ کے
بلاتے ہیں اس لیے میں بھی بھائی ہی کہہ کے گفتگو کرتا ہوں۔ کیونکہ یہ محبت
کا سلسلہ میرے زندگی کے پہلے بین الاقوامی سفر کے وقت قائم ہوا جب ہم نجف
سے حجاز مقدس کے مسافر بنے تھے (الحمدللہ ۔ اسی فیس بک پیج *وقار کا
سفرنامہ* پر اس کی بھی روئیددا موجود ہے۔ تب شاہ نواز بھائی اپنی فیملی کے
چھ افراد کے ساتھ شریک سفر تھے۔ یہ سفر کیسے نصیب ہوا اس پر کبھی موقع ملا
تو ضرور لکھوں گا۔ یہ سفر اس شعر کا حقیقی مصداق تھا
کہاں کی دولت کہاں کا منصب، قسم خدا کی یہ ہے حقیقت
جنہیں بلایا ہے مصطفیٰ نے وہی مدینے کو جا رہے ہیں
بات دور نہ نکل جائے ہم سانگھڑ پہنچ چکے تھے، کچھ دیر میں سانگھڑ کے معروف
نقیب محفل، تاجر رہنما، محافل میلاد کی سرپرستی کرنے والی شخصیت اور سب سے
بڑھ کر ہمارے سفر نجف سے مدینہ کے ساتھی جناب رئیس احمد المعروف گڈو بھائی
بھی ایک ثناء خوان رسول کے ہمراہ تشریف لے آئے (نام نہیں پوچھ سکا) اس سفر
میں گڈو بھائی نے کافی پروٹوکول لیا عراقی پوچھتے این رئیس یہ فرماتے میں
ہوں رئیس، بعد میں بھید کھلا کہ وہ قافلہ نگران کو رئیس بول رہے جو الحاج
فضل احمد المعروف فضل بابا رحمۃ اللہ علیہ تھے اور ان کا نام رئیس تھا۔
مطلب دونوں رئیس تھے۔
جامعہ راشدیہ سانگھڑ شاخ کے مدرس و مہتمم استاذ العلماء اور بہت سارے
مفتیان عظام کے استاذ جامع معقول و منقول مفتی محمد اسماعیل میمن سکندری
زید شرفہ بھی تشریف لے آئے۔ خوب محفل جمی، خوبصورت یادوں کا مختصر تبادلہ
ہوا۔ یہاں پہلی بار مچھلی کی سجی کھانے میں دیکھی بہت شاندار ذائقہ تھا۔
محفل برخاست ہوئی، رئیس احمد گڈو بھائی نے سندھی اجرک کا تحفہ عطا فرمایا۔
بعد از طعام ہم ایک علمی اور ادبی شخصیت شیخ الحدیث حافظ عبدالرزاق مہران
سکندری مدظلہ العالی سے ملاقات کیلئے رات 10 بجے پولیس لائنز سانگھڑ جا
پہنچے جہاں ایک چھوٹے سے سرکاری کوارٹر کے چھوٹے سے کمرے میں بیٹھی شخصیت
بہت عظیم کام میں مگن ہے الحمدللہ۔ یہ بھی اللہ کی عنایت ہے جس سے کام لے۔
پولیس لائنز کی مسجد کے پیش نماز و خطیب اور ماشاء اللہ بخاری شریف کی شرح
سندھی زبان میں تحریر فرما رہے۔ ایک جلد ہم کو بھی تحفہ میں دی۔ چائے بسکٹ
سے تواضع فرمائی جو بزرگوں کی روایات کی عکاس تھی۔ چھوٹا سا کمرہ کتابوں سے
بھرا ہوا تھا۔ کتابوں کا عظیم ذخیرہ بہت نفاست و ترتیب سے الماریوں میں فٹ
تھا، ٹیبل پر مسودہ کے کاغذات۔ کتنا پر سکون کمرہ تھا وہ، اللہ اکبر۔
تاثرات والا رجسٹر عطا کیا اب میرے جیسا کم علم کیا لکھتا بس چند سطور بطور
برکت لکھ دیں کہ نیکوں کے ناموں میں میرا نام بھی چھپ چھپا کے اس بارگاہ
میں کبھی پیش کر دیا جائے گا جہاں ادنیٰ کو اعلیٰ سے اعلیٰ ترین بنا دیا
جاتا ہے۔
مجھے اور قاری صاحب کو سندھی اجرک کے تحائف عطا فرمائے، ڈھیروں دعاؤں سے
نوازا۔ اللہ پاک آپ کے علم و فضل میں اور زور قلم میں اور اضافہ فرمائے۔
آرام کرتے کرتے رات کے 12 بجے سے اوپر ٹائم ہو گیا تھا۔ گفتگو میں عالم
باعمل شہید عبدالرحیم گروہڑی رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ ہوا۔ ان کی درگاہ
حاضری دینے کے ارادہ کا اظہار کیا تو شاہ نواز نظامانی صاحب نے کمال شفقت
سے فرمایا مل کے چلتے ہیں ۔ عرض کی صبح واپسی کا بھی سفر ہے درگاہ 75
کلومیٹر دور ہے تو وقت کافی لگے گا۔ فرمانے لگے فجر سے پہلے جاتے ہیں ، فجر
وہیں پڑھیں گے۔ سبحان اللہ۔
فجر کی آذان کے وقت ہم بیدرا ہوئے، شاہ نواز صاحب خود گاڑی ڈرائیو کر رہے
تھے، فرنٹ پر مفتی محمد اسماعیل میمن سکندری صاحب ان کی پچھلی سیٹ پر قاری
عبدالجبار صاحب اور ان کے ساتھ راقم الحروف ۔ صبح صبح کافی سردی تھی لیکن
ہم اپنے موٹر سائیکل پر نہیں بلکہ کار میں سفر کر رہے تھے۔ ایک جگہ گاڑی
روک کے نماز فجر باجماعت ادا کی پھر درگاہ پہنچے، حاضری دی۔ درگاہ والی
ہستی کے بارے شاہ نواز نظامانی صاحب سے عرض کیا کہ کچھ سطور لکھ دیں جو
انہوں نے شفقت فرمائی وہ من و عن یہاں پیش خدمت ہیں۔ :
"مخدوم عبدالرحیم گرہوڑی شہیدقدس سرہ
مخدوم میاں شیخ عبدالرحیم گرہوڑی ولد سعداللہ منگریو۱۱۵۲ھ مطابق ۱۷۳۹ء میں
ضلع سانگھڑ کے تعلقہ کھپرو کے گاؤں واڑ میں جنم لیا۔ موجودہ گرہوڑ میں
رہائش اختیار کی۔ آپ کی شہادت ۱۱۹۲ھ مطابق ۱۷۷۸ء میں واقع ہوئی ، اس وقت
آپ کی عمر چالیس سال تھی۔ اتفاق امر کہ مخدوم صاحب کے بارے میں بنیادی
معلومات ملنے میں دشواری ہے۔جب کہ آپ اپنے وقت کے نامور جید عالم ، اسلامی
شریعت کے مبلغ ،فکراور شاعر تھے، ملتان سے لیکر ٹھٹھہ تک کے عالم ان سے
مباحثہ و مناظرہ میں کھڑے نہیں ہوسکتے تھے۔ ان کو یہ ملکہ حاصل تھا کہ
ہرکسی کی تو مانتے ہی نہیں تھے، ہمیشہ اپنے اجتہاد پر چلتے، آپ کے روحانی
رغبت سلطان الاولیاءخواجہ محمد زماں لواری قدس سرہ کی جانب تھی۔ ساری حیاتی
ان کی صحبت و عقیدت میں گزاری اور خلیفہ کا مرتبہ حاصل کیا۔آپ نے ابتدائی
ظاہری تعلیم اس وقت کے دینی علمی مرکز سانگھڑ شہر سے تقریباً تیس چالیس
کلومیٹر کے فاصلہ پر چوٹیاریوں گاؤں میں میاں محمد مبین کیریو قدس سرہ کے
پاس حاصل کی۔مخدوم صاحب ظاہر علم پر عبور کے باوجود ہمیشہ باطن کی طرف مائل
رہے۔
مخدوم صاحب کی شہادت ۱۷۷۸ء میں مہادیو کی مڑہی(آستانہ)کے خلاف لڑتے ہوئے
ہوئی۔گرہوڑ سے ساٹھ میل کی مسافت پرریگستان میں ایک بت خانہ تھا جہاں پر
قسم قسم کی برائیاں ہوتی تھیں اور مخدوم صاحب کی ہمیشہ سے یہ کوشش ہوتی تھی
کہ اس بت خانہ کو مسمار کیا جائے۔ دوران سفر کسی شخص نے کہا کہ آپ کے پاس
کم لوگ ہیں اور جوگی کے چیلے کافی تعداد میں رہتے ہیں۔تو پھر اس سے کیسے
مقابلہ کریں گے؟اس پر فرمایا بھائی! گروہ بت خانہ ٹوٹا تو بھی فتح ہماری،گر
یہ بت خانہ(جسم)ٹوٹا تو بھی فتح ہماری۔
آپ نے چالیس سال کی عمر پائی، مگر ساری زندگی بامقصد گزاری۔
شہید گرہوڑی صاحب کی شاعری کے ساتھ ساتھ ، پیش گوئیوں کے حوالے سے بھی کافی
مشہور ہیں۔
ان کی کافی پیش گوئیاں مشہور ہیں، جس میں سے ایک کا مفہوم ہے،
سفر کم ہوجائیں گے، رشتے ٹوٹ جائیں گے اور موسمی برسات نہ ہوگی"
واپسی پر ایک بہت اونچی جگہ جھنڈے لگے نظر آئے پوچھا یہ کیا ہے فرمانے لگے
یہ مزار خود ایک کرامت ہے۔ یعنی سادہ جگہ تھی اور صاحب مزار بابا جی نے خود
ارد گرد سے مٹی جمع کر کر کے بہت اونچی پہاڑی بنائی اسی پر دفن ہوئے، پچیس،
تیس سیڑھیاں چڑھ کے اوپر جانا پڑتا۔ وہاں بھی گئے فاتحہ خوانی کی، واپس
سانگھڑ پہنچے تو شاہ نواز نظامانی صاحب کے آباء و اجداد کے مزارات پر فاتحہ
خوانی کیلئے حر منصوروں کے قبرستان میں گئے بالخصوص نظامانی صاحب کی پھپھو
جان کے مزار پر جو اللہ کی ولیہ تھیں اور ہمارے سفر عراق و حجاز مقدس والے
قافلہ میں شامل تھیں۔ یہیں پر پیر صاحب پاگارا علیہ الرحمہ کے غلام حر
شہیدوں کے مزارات بھی ہیں جو انگریز کے خلاف لڑتے شہید ہوئے۔ فاتحہ خوانی
کےبعد گھر پہنچے تو ناشتہ بالکل تیار تھا۔ شاہ نواز نظامانی صاحب ماشاءاللہ
بہت اچھے صاحب مطالعہ ادیب ہیں ۔ ان کی کتب بھی پبلش ہو چکی ہیں اور مزید
پر بھی کام جاری ہے۔ اپنی لکھی ایک کتاب بطور تحفہ عطا فرمائی۔ تصاویر میں
آپ دیکھ سکیں گے۔ ناشتہ کے بعد شاہ نواز صاحب کے عزیز غلام عباس صاحب اور
چنگیز نظامانی صاحب بھی تشریف لے آئے۔ خوبصورت یادوں ، باتوں اور مسکراہٹوں
کا تبادلہ ہوا، غلام عباس نظامانی صاحب نے میری موٹر سائیکل کو نیا نام
*عشق کا گھوڑا* دیا۔
چنگیز خان صاحب بھی کمال آدمی ہیں، ہنستے مسکراتے اور بہت گہرے، ان سے شکوہ
بھی کیا کہ آپ رات کو کیوں نہیں ملے، ویسے بھی اگر ملتے تو شب بیداری پکی
تھی، پھر ملنے کی تشنگی لیکر سب سے الوداعی ملاقات کی۔ شاہ نواز نظامانی
صاحب کی ڈھیر ساری دعائیں ، محبتیں، کتاب اور سندھی اجرک کا تحفہ لیکر
سانگھڑ سے جانب پنجاب روانہ ہو گئے، سفر شاندار جاری تھا، مجھے بھی حیرت
تھی کہ موٹر سائیکل چلانے میں کافی سہولت سی ہو گئی ہے۔ 25 کلومیٹر کا سفر
طے کر لیا ، کوئی مسلسل کال کر رہا تھا، ارادہ تھا کہ نواب شاہ پہنچ کے چیک
کریں گے، سردی بھی تھی، جیکٹ دستانے پہنے موبائل نکال کے دیکھنا واقعی جان
جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ پھر کال قاری صاحب کے موبائل پر آنا شروع
ہوئی تو بائیک سائڈ پر روکی تو شاہ نواز بھائی کی کال تھی، فرما رہے تھے کہ
میرے والا بیگ سانگھڑ میں ہی رہ گیا تھا 🤦🏼♂️۔ واپس گئے بیگ وصول کیا
اور پھر سفر شروع کیا۔ شکر ہے 25 کلومیٹر کا سفر تھا ورنہ گل ودھ جانی سی۔
نواب شاہ پہنچ کے تھوڑا ریسٹ کیا اور نیشنل ہائی وے پر *عشق کا گھوڑا* دوڑا
دیا آج کے سفر کی آخری منزل سندھ کا بارڈر کراس کرکے پنجاب کی آخری تحصیل
صادق آباد تھی۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)
|