داستان کراچی کے سفر کی (وقار کا سفرنامہ۔قسط دہم) آخری قسط

فیصل آباد سے کراچی اور کراچی سے واپس فیصل آباد کا یہ سفر جو ہم نے موٹرسائیکل پر کیا اس روداد کا آخری حصہ ہے۔ امید ہے قارئین نے پسند کیا ہوگا۔ اپنا تبصرہ ضرور کیجئے تاکہ ہم اپنی تحریر کو مزید نکھار سکیں اور نئے سفر کی روداد پیش کر سکیں۔

اس سفر میں ہمارا ساتھی ہمارا عشق کا گھوڑا

شہید بےنظیر آباد (نواب شاہ) سے روانہ ہوئے، سفر مسلسل جاری رہا۔ پڈعیدن، محراب پور، رانی پور، گھمبٹ، روہڑی، پنو عاقل، گھوٹکی، میر پور ماتھیلو، ڈہرکی، اوباڑو، کوٹ سبزل اور صادق آباد پہنچے، رات کے تقریباً 10 بجے کے آس پاس ہم صادق آباد پہنچ گئے تھے۔ راستے میں دو جگہ سٹاپ بھی کیا۔ میری نانی اماں کے بھائی بزرگ صوفی میاں عبدالستار رحمۃ اللہ علیہ کے در دولت پر جہاں بھائی اکرم اور بھائی راشد ایڈووکیٹمنتظر تھے، موٹر سائیکل کا سرپرائز یہاں بھی ویسا ہی تھا، راستہ میں دو چار مرتبہ کال بھی آئی کہ گاڑی لائیو لوکیشن میں بہت آرام سے آ رہی سیدھا روڈ اور مین ہائی وے ہے کچھ تو تیز چلاؤ لیکن ان کو نہیں معلوم تھا کہ ہم تو عشق کے گھوڑے پر سفر کر رہے تھے وہ بھی پوری دلجمعی کے ساتھ، سردی اچھی خاصی بڑھ چکی تھی۔ استاد گوگل کی مہربانی سے بغیر کسی رکاوٹ کے گھر پہنچے، کھانا تیار تھا، کھایا اور دبک گئے بستروں میں۔

صبح نماز فجر ٹبہ ظاہر پیر کی جامع مسجد میں باجماعت ادا کی، نماز کے بعد تھوڑی واک کیلئے نکلے ٹھنڈی ٹھار صبح میں ہرے بھرے کھیت بہت دلکش لگ رہے تھے، جانوروں کے باڑے کی طرف بھی گئے، اکرم بھائی کے صاحبزادہ صاحب جو ماشاءاللہ حفظ کر رہے ہیں ان کی تلاوت بھی سنی، ان کو بولنے میں کچھ لکنت کا ایشو بھی تھا لیکن تلاوت سنائی تو دل باغ باغ ہو گیا۔ جس بچے سے ٹھیک لفظ ادا نہیں ہو پاتے تھے وہ قرآن مجید کی برکت سے تجوید سے پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ الحمدللہ۔ ڈھیروں دعائیں اللہ پاک جلد مکمل حفظ کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ٹبہ ظاہر پیر گئے جہاں بزرگ ہستی حضرت ظاہر پیر رحمۃ اللہ علیہ کا مزار شریف ہے، فاتحہ خوانی کی، کیسا عجیب اتفاق ہے کہ مزار شریف جس جگہ ہے وہ رقبہ غیر مقلد کا ہے، جس نے بارہا کوشش کی مزار کا نام و نشان مٹانے کی مگر ہر بار کوئی نہ کوئی غیبی رکاوٹ آڑے آئی جس کا پورا علاقہ شاہد ہے تھک ہار کر مزار بھی تعمیر کروایا اور پانی کے مٹکے وغیرہ بھی رکھوائے۔
علی والے جہاں بیٹھے وہیں جنت بنا بیٹھے

گھر واپس آئے تو معلوم ہوا کہ بچہ پارٹی نے آج سکول سے چھٹی کا ارادہ بنا لیا ہے کہ مہمان آئے ہیں۔۔۔۔ ہم نے ان کو یقین دلایا کہ ابھی بعد از ناشتہ ہم واپس فیصل آباد جا رہے ہیں ۔ اگلی بار آئے تو آپ کے ساتھ پورا وقت صرف کریں گے ان شاءاللہ۔ جب براق کو واقعی ٹاکی شاکی ماری تو ان کو یقین ہو گیا کہ اب مہمان رکنے والے نہیں تو بچوں کا گھر سے جانب سکول روانہ ہونے کا موڈ بنا۔ ڈھیروں دعائیں اور محبتیں نانی جان سے سمیٹیں، بچوں کو پیار دیا اور میزبانوں کے ہمراہ گھر سے روانہ ہوئے۔ پہلا سٹاپ مدرسہ جامعہ قمر العلوم کا تھا جہاں ہمارے پیر بھائی ناظم اعلیٰ ہیں (نام ذہن سے محو ہو گیا )ماشاء اللہ حفظ القرآن کی کلاس تھی اور اچھی خاصی تعداد طلباء کی موجود تھی۔ انہوں نے اپنے خلوص کی مٹھاس سے بھرپور چائے بسکٹ سے تواضع کی، دعائے خیر کے بعد مارکیٹ آئے، یہاں سے بھی ہیلمٹ کا شیشہ فٹ نہیں آیا 🙄۔ شاید ہیلمٹ ہی اتنا پرانا تھا کہ جدت کو قبول نہیں کر رہا تھا یا پھر اس تاریخی ورثہ کے احترام میں کوئی شیشہ اس پر فٹ آنا پسند ہی نہیں کر رہا تھا۔

یاماہا والوں سے انجن آئل تبدیل کروایا، چین کسوائی اور واپسی کا سفر پھر سے شروع ہوا۔ صادق آباد سے اقبال آباد، میانوالی قریشیاں، ظاہر پیر، خان بیلہ، ترنڈہ محمد پناہ، چنی گوٹھ یہاں مختصر سٹاپ کیا، تازہ گڑ کھایا اور اگلے سفر کو روانہ ہوئے، احمد پور شرقیہ، ظاہر پیر مامے والا، نور پور نورنگا، جمرانی، خانگاہ شریف پہنچے۔ یہاں قاری عبد الجبار صاحب کے ننھیال والے آباد ہیں ۔ دو گھروں میں مختصر قیام، کھانا، چائے نوش کرتے بعد نماز عصر یہاں سے بہاولپور پہنچے، سرائیکی چوک کی طرف عشق کا گھوڑا خود بخود مڑ گیا یا دل نے ہاتھوں کو گھما دیا اور جا سیدھی بریک داتا سویٹس پر لگائی۔ ان کی عربی مٹھائی واقعی ذائقے میں لاجواب ہے۔ ریٹ پوچھا تو 1200 روپے کلو۔ دو کلو قاری صاحب نے اور ایک کلو میں نے پیک کروائی۔ جس ڈبے میں مٹھائی ڈالی گئی ساڑھے تین سو گرام اکیلے اس کا وزن تھا باقی مٹھائی کا آپ خود اندازہ لگا لیں کتنی ہوگی۔ شہزاد سلطانی صاحب سے اس کا تذکرہ کیا تو کمال بات ارشاد فرمائی کہ تسیں برتن اپنا لے جانا سی فیر پوری مٹھائی ملنی سی اک کلو۔۔۔۔۔ 🤷🏼‍♂️۔

اب مٹھائی کے ڈبے کہاں رکھنے یہ الگ سے مسئلہ تھا ہم بھی مکمل پاکستانی ہیں اور جگاڑ لگانا فطرت میں شامل ہے، جھٹ سے کاٹی ہوئی ٹیوب والی رسی نکالی اور قاری صاحب کا بیگ جو سارے سفر میں پیچھے اسٹینڈ پر بندھا ہوا ہے اسی کے اوپر ڈبے رکھ کے اچھی طرح باندھ دیے۔ اب اندازہ ہو رہا تھا کہ میرے بائیکر کمیونٹی کے بھائی مہنگے والے سائڈ باکس کیوں لگواتے ہیں۔ موٹرسائیکل کا سفر جہاں شاندار یادیں چھوڑتا ہے وہیں اس میں ایک ایشو یہ کہے بندہ زیادہ خریداری نہیں کر سکتا نہ زیادہ تحائف قبول کر سکتا ہے۔ اس لیے دوستوں سے کہوں گا اگر کوئی میرے جیسا جنونی بائیکر ملے تو اس کا گفٹ پارسل کروا دیا کریں۔

بہاولپور میں اک بار تو نیت خراب ہوئی کہ سردی کافی بڑھ گئی ہے، رات بھی ہے، ہائی وے بھی ہے، کماد کی ٹرالیاں بھی ہونگی، ٹوٹی سڑکیں بھی تو کیوں نا رات بہاولپور قیام کرتے ہیں صبح چلے جائیں گے مگر قاری صاحب نے ہلاشیری دی کہ سارا تین سو کلومیٹر ہی تو رہتا ہے ( صرف).اللہ کا نام لیکر چلتے ہیں ۔ دن کے وقت سواری اپنی جگہ رات کے وقت کی رائیڈنگ کا الگ سے سواد ہے، سردی کی بدولت ہیلمٹ کے شیشے پر بھی اوس آ رہی تھی اور قاری صاحب کے ہیلمٹ کا شیشہ ویسے ہی شہادت پا چکا تھا اس سفر میں۔ تو جناب اللہ کا نام لیکر سفر شروع کیا اور چلتے رہے یوں ہم بہاولپور سے لودھراں، دنیا پور، جہانیاں، خانیوال پہلا مختصر سٹاپ، خانیوال سے کچہ کھو، میاں چنوں، اقبال نگر، کسووال، چیچہ وطنی پہنچے، یہاں مختصر قیام کیا۔

برگر کھا کے بھوک مٹائی اور چائے پی کے اوسان بحال کیے اور چیچہ وطنی سے کمالیہ۔کمالیہ شوگر ملز کے پاس کماد والی ٹرالیوں کا ایسا ہجوم عاشقاں ملا کہ سینکڑوں کی تعداد میں اور بے انتہا ٹریفک بلاک، ہم تو براق پر تھے یہ عشق کا گھوڑا بس مناسب جگہ ملتے ہی گزرتا چلا جاتا ہے، ٹرالیوں کے دائیں بائیں ، سڑک پر، کچے پر، ادھر سے ادھر سے نکال نکال کے آگے بڑھتے گئے، واقعی کافی مشکل کام تھا رات کے وقت اس راستے سے گزرنا لیکن ہم تو کراچی سے فیصل آباد کمپنی کا ٹائم لیکر آ رہے تھے کہاں رکنے والے تھے، بالآخر کماد کی ٹرالیوں کی فوج ظفر موج اختتام پذیر ہوئی۔ ذہن میں بار بار خیالات آ رہے تھے کبھی تو ان پر اوور لوڈنگ ختم ہوگی، کبھی تو ان پر لائٹس لگانے کا انتظام چیک ہوگا، کبھی تو قانون بنے گا کہ گنا صرف قریبی ملز میں ہی جائے گا دور دراز کی ملوں میں نہیں لے جا سکتے، عجیب کشمکش ملتی ہے کہ عین شوگر ملز کے سامنے سے ٹرالیاں دوسری ملز کی طرف جا رہی ہوتیں اور اس طرف سے ٹرالیاں اس طرف آ رہی ہوتیں۔ کتنا دکھ ہوتا ہوگا بیچاری ملز کو جب یہ لوگ انکھ بچا کے اس کے اگے سے کماد لیکر گزر جاتے ہیں۔

خیر کمالیہ سے رجانہ، رجانہ سے سمندری، اور سمندری کی حدود میں آتے ہی ہم اپنے لیل پور (لائل پور موجودہ فیصل آباد) ضلع کی حدود میں داخل ہو چکے تھے الحمدللہ۔ بائی پاس پر ایک ہوٹل پر بریک لگائی ، چار پائی پر بیٹھتے وقت اوئی، ہائے کی مدھم سی آواز کا نکلنا بنتا تھا، ہاتھ سردی سے سن ہو رہے تھے، اور آج ہم ایک ہی دن میں صادق آباد سے فیصل آباد پہنچ رہے تھے الحمدللہ ۔ چائے کے ساتھ دو دو ابلے ہوئے انڈے بھی رگڑ گئے۔

اوسان بحال ہونے پر دوبارہ سفر شروع ہوا براستہ کھدر والا، دارالاحسان، سمندری روڈ، ڈی ٹائپ چوک اور رات پورے 2 بجے شالیمار پارک کے علاقے میں جا بریک لگائی ، قاری صاحب کے لخت جگر رجب علی المدنی صاحب نے استقبال کیا، آخر کراچی سے مہمان آئے تھے کچھ تو پروٹوکول دینا واجب تھا جھٹ سے گرما گرم چائے، ابلے ہوئے انڈے اور بسکٹ پیش خدمت ہو گئے شاید ان کو خانگاہ شریف سے مخبری ہو گئی تھی یا قاری صاحب نے مطلع کر دیا تھا۔ فیصل آباد سے کراچی اور کراچی سے فیصل آباد موٹر سائیکل کے بیک اسٹینڈ پر بندھا پہیوں والا بیگ بھی کھل چکا تھا، اپنے اپنے سامان کی ادھر سے ادھر منتقلی کی کیونکہ کچھ میرا سامان قاری صاحب کے بیگ میں تھا اور کچھ ان کا میرے بیگ میں کیونکہ جب وہ پیچھے باندھ لیا تو کھولنے کا سوچنا بھی منع تھا۔

قاری صاحب سے بخوشی اجازت لی اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ چھوٹا بھائی طیب الحسن دروازے پر استقبال کیلئے موجود تھا۔ والد صاحب محو استراحت تھے، والدہ ماجدہ چھوٹے بھائی اسحاق سیالوی کی طرف تھیں، بستر تھا اور ہم تھے، سردی کی وجہ سے تھکاوٹ کے اثرات تھے یا گھر پہنچ کے بندہ زیادہ تھکاوٹ محسوس کرتا۔ کپڑے تبدیل کیے، رب کا شکر ادا کیا جس نے زندگی کا پہلا طویل ترین سفر تین ہزار دو سو کلومیٹر تقریباً موٹر سائیکل پر بحفاظت مکمل کروایا تھا۔

ہم عاجز اس کی نعمتوں کا کس کس مقام پر شکریہ ادا کریں وہ تو شہنشاہوں کا شہنشاہ بے شک اسی نے سواری کو ہمارے مسخر کیا ورنہ ہم اس کی کہاں طاقت رکھنے والے ہیں۔

اس سفر میں جن جن دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں ان سب کا شکریہ، جنہوں نے ملاقات کا فرمایا لیکن ہم نہیں جا سکے ان کا بھی شکریہ (اگلی باری زندگی رہی تو سب کسریں نکالیں گے ملاقاتوں والی ان شاءاللہ)، آپ اہل محبت کی طرف سے ملنے والے تحائف بطور یادگار میرے ذاتی توشہ خانہ میں محفوظ ہیں جس میں ایک ملنے والی گھڑی اور ایک ٹیبل کلاک بھی موجود ہے۔ امید ہے اس گھڑی کا کوئی کیس نہیں بنے گا 😊 ( میں نے بیچنی جو نہیں)۔ شکر ہے ہوم منسٹری (وزیر اعظم صاحبہ) محو استراحت تھیں ان کو واپسی کا نہیں بتایا تھا ورنہ اتنی رات کو گھر پہنچنے پر جواب دہ ہونا پڑنا تھا۔(جان بچی سو لاکھوں پائے). سردی ہو اور رضائی مل جائے تو کیا کہنے۔ اقبال صابری صاحب کے پسندیدہ پنجابی دوہڑے کے بالکل مصداق بن گیا تھا کہ
دو پھل ککراں دے
رضائی وچہ وڑ گئے آں ہن صبح ای نکلاں گے۔۔۔۔۔۔ اختتام سفرنامہ۔۔۔۔ داستان کراچی کے سفر کی
 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Read More Articles by محمد قاسم وقار سیالوی: 43 Articles with 8144 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.