جامعات اور صنعتوں کے مابین تعاون

انسان نے ہزاروں برس سے اپنی تقدیر کا تعین کرنے اور معاشرتی مسائل کو حل کرنے کے لیے مختلف راستے اپنائے ہیں جہاں اس نے اپنے ماحول اور فطرت کو سمجھ کر بقاء اور ترقی کے لیے علم کی جستجو کی۔ ابتداء میں انسان نے قدرتی مظاہر (phenomena) کو سمجھنے کے لیے مشاہدہ، نظارت (surveillance)، اور قیاس آرائی کا سہارا لیا۔وہ اپنے ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں سے نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرتا جیسے دن اور رات کا آنا جانا ،موسم کی تبدیلی اور قدرتی آفات کا وقوع پذیر ہونا ۔ اس دوران اس نے قدرتی دنیا کے بارے میں مختلف مفروضے (hypotheses) قائم کیےجنہیں بعد میں سائنسی تحقیق نے درست یا غلط ثابت کیا۔ مشاہدہ اور قیاس آرائی وہ ابتدائی طریقے تھے جن کے ذریعے انسان نے فطرت کو سمجھنے کی کوشش کی اور یہ علمی سفر انسان کی ترقی کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ یہ ابتدائی تجربات ہی آج کے سائنسی طریقہ کار کی بنیاد بنےجو بعد میں تجرباتی تحقیق (empirical research) اور منطقی استدلال (logical reasoning) پر مبنی ہو کر علم کو منظم اور عملی شکل دینے کا ذریعہ بنے۔ یہی علمی سفر بعد میں صنعتی ترقی کی بنیاد ثابت ہوا جہاں ان نتائج کی روشنی میں انسان نے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ٹیکنالوجی اور مصنوعات کی تخلیق کی ۔
جدت کا مقصد صرف نئی ایجادات تخلیق کرنا نہیں بلکہ ایک ایسی دنیا بنانا ہے جہاں انسان مسائل (problems) سے آزاد ہو کر اپنی صلاحیتوں کو بہترین طریقے سے بروئے کار لا سکے۔ یہ سفر کبھی ختم نہیں ہوتا کیونکہ انسان ہمیشہ نئی مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرتا ہے اور ان کا حل تلاش کرنے کے لیے جدت کی راہ پر گامزن رہتا ہے۔وہ معاشرے ترقی پاتے ہیں جو جدت کے سفر کو کامیابی سے آگے بڑھاتے ہیں۔ یہ معاشرے نہ صرف نئی ایجادات کرتے ہیں بلکہ انہیں عملی شکل دے کر سماجی مسائل کے حل میں مؤثر طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ ایسے افراد جو اپنی محنت، تحقیق اور عزم سے نہ صرف اپنے معاشرتی دائرے میں تبدیلی لاتے ہیں بلکہ دوسروں کو رہنمائی فراہم کرتے ہیں اور ان ایجادات سے فائدہ اٹھا کر نئے امکانات کے دروازے کھولتے ہیں وہ ترقی کے حقیقی علمبردار بنتے ہیں۔ یہ عمل معاشرتی اور اقتصادی ترقی (economic and social development) میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اس کے برعکس تباہ حال معاشرے جدت کے سفر میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں اور نئے سوالات اٹھاتے ہیں جو صرف زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔ ایسے معاشروں میں جدت کو عملی طور پر اپنانے کی کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے نئی ایجادات اور خیالات کی پذیرائی محدود رہتی ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف معاشی ترقی متاثر ہوتی ہے بلکہ سماجی تبدیلی (social change) کے امکانات بھی معدوم ہو جاتے ہیں۔

اسی اثنا میں،صنعتوں اور جامعات کے درمیان تعاون ترقی پذیر ممالک کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے خصوصاً پاکستان جہاں تحقیق اور عملی مہارت کا امتزاج ضروری ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں اس اشتراک کا نظام مضبوط ہے جو معیشت، تعلیم اور تحقیق کے میدانوں میں مثبت تبدیلیاں لاتا ہے۔ یہ تعاون صنعتی مسائل کے حل اور تعلیمی میدان میں عملی تجربات کے لیے ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ صنعتیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے جامعات کی تحقیق سے استفادہ کرتی ہیں اور جامعات اپنی تحقیقات کو عملی دنیا سے جوڑ کر ان سے بہتر نتائج حاصل کرتی ہیں۔ یہ شراکت نہ صرف معیشت کو مستحکم کرتی ہے بلکہ طلبا کو حقیقی دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ بھی کرتی ہے۔

پاکستان کے سائنسی اور صنعتی پس منظر میں سماجی اور اقتصادی ترقی کو مستحکم کرنے کے لیے صنعتوں اور جامعات کے درمیان اشتراک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ تعاون تحقیق اور جدت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ صنعتی پیداوار میں اضافے کا سبب بنے گا۔ صنعتوں کی ترقی سے خام مال کی طلب بڑھے گی، جس سے معیشت مستحکم ہو گی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔صنعتی ترقی نہ صرف محنت کشوں کو روزگار فراہم کرے گی بلکہ سرمائے کے بہاؤ میں بھی بہتری لائے گی۔ اس کے ذریعے قیمتوں کو قابو میں رکھا جا سکے گا اور غیر قانونی کاروبار کا خاتمہ ممکن ہو گا۔ نئی مصنوعات کی تیاری اور ان کی برآمدات میں اضافہ ملکی معیشت کو مزید تقویت دے گا۔ اس اشتراک کے ذریعے پاکستان بین الاقوامی منڈی میں اپنی حیثیت مضبوط کرے گا۔

لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔ پاکستان میں صنعتوں اور جامعات کے اہداف ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔اگر بات پاکستانی جامعات کی کی جائے تو یہ حقیقت قابل ذکر ہے کہ پاکستانی جامعات بین الاقوامی سطح پر شناخت حاصل کر رہی ہیں۔ ان کی تحقیق دنیا کے معتبر جرائد میں شائع ہو رہی ہے اور اب ان میں ایسے سائنسدان بھی موجود ہیں جو عالمی سطح کے بہترین 2 %محققین میں شامل ہیں۔ یہ پاکستان کے علمی میدان میں ایک بڑی کامیابی ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ کامیابیاں ہمارے موجودہ مسائل کا حل پیش کر سکتی ہیں؟ کیا یہ تحقیق عملی طور پر صنعتوں اور معیشت کی ترقی میں معاون ہو سکتی ہے؟ یا پھر یہ کامیابیاں صرف علمی میدان تک محدود رہ جائیں گی؟ ان سوالات کے جوابات ہی ہمارے مستقبل کا تعین کریں گے۔

اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ زیادہ تحقیقاتی مضامین (research articles) اور سائنسی حوالہ جات (scientific citations) رکھنے سے ہمارے تمام مسائل حل ہو سکیں گے لیکن ان کامیابیوں کے ذریعے پاکستان کو ایک عالمی شراکت دار (global partner) کے طور پر ضرور پہچانا جا رہا ہے۔ ان تحقیقی کوششوں کے ذریعے پاکستانی محققین دیگر ماہرین کو تدریسی عمل میں جدید علم کی ترسیل فراہم کر رہے ہیں جو عالمی سطح پر علم کی ترقی میں معاون ہے۔

مزید برآں، اگر خاص طور پر انجینئرنگ یونیورسٹیوں کی بات کی جائے تو وہاں طلباء کوعموماً دو قسم کے مسائل (problems) حل کرنے کی تربیت دی جاتی ہے:
(i) بنیادی انجینئرنگ مسائل (basic engineering problems)
(ii) جدید ترین مسائل (cutting-edge problems)

بی ایس سی انجینئرنگ (B.Sc Engineering) کی 4 سالہ ڈگری کے دوران ہر سمسٹر میں طلباء کو مختلف امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے اور وہ مختلف بنیادی انجینئرنگ مسائل کو حل کرتے ہوئے گزرتے ہیں۔ جب کہ ساتویں اور آٹھویں سمسٹر میں طلباء کو گروپ کی صورت میں جدید ترین مسائل حل کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ اس کے لیے وہ باقاعدہ تحقیق کے عمل کو سیکھتے ہیں، لٹریچر ریویو کرتے ہیں اور اس دوران ایک ٹیم کے طور پر مختلف ناکامیوں سے گزرتے ہوئے کامیاب نتائج حاصل کرتے ہیں۔البتہ اس عمل سے گزرتے ہوئے طلباء کو یہ ضرور پتہ چل جاتا ہے کہ وہ بنیادی انجینئرنگ مسائل کو حل کرنے کے لیے زیادہ موزوں ہیں یا جدید ترین مسائل کے لیے ۔

بعد ازاں، جو طلباء جدید ترین مسائل کے لیے زیادہ موزوں ہوتے ہیں وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے سفر کرتے ہیں جبکہ بنیادی انجینئرنگ مسائل حل کرنے والے ملازمت کی تلاش میں پڑے رہتے ہیں۔ ان طلباء میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بنیادی انجینئرنگ مسائل کے حل میں دلچسپی رکھتے ہیں نہ جدید ترین مسائل میں وہ مددگار ہاتھ کے ذریعے صنعتی ملازمتیں حاصل کر لیتے ہیں یا پھر انجینئرنگ کے شعبے سے دستبردار ہو کر کسی اور شعبے میں اعلیٰ عہدوں پر نظر آتے ۔ یہ دونوں غیر استعمال شدہ دماغ بیرون ملک سے ٹیکنالوجیز درآمد کرنے میں اپنا سارا وقت گزار دیتے ہیں کیونکہ ان کے دل میں یہ بات بیٹھ چکی ہوتی ہے کہ یہ کام ہم سے نہیں ہو سکے گا۔

اب بات کرتے ہیں یونیورسٹی اور صنعت کے تعاون کے بارے میں کہ آیا یہ پاکستان میں ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب سیدھا سادہ ہے کہ کون سی صنعت تحقیق میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہے اور جدت کو فروغ دینا چاہتی ہے؟ صنعت کو تو صرف پیداوار سے ہی فرصت ملے تو پھر بات ہے۔ مقامی صنعتوں میں زیادہ تر انجینئرز غیر تکنیکی (non-technical) یا مینیجریریل (managerial) ملازمتیں کر رہے ہوتے ہیں جن کا کتابوں کا مطالعہ یا سائنسی ادب (scientific literature) سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔زیادہ تر پاکستانی صنعتوں میں جدید لٹریچر اور سائنسی طریقہ کار کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور قیاس آرائیوں اور مفروضات کو تجربے (experience)کا نام دے دیا جاتا ہے۔ بیشترانجینئرز کا کام پہلے سے نصب شدہ مشینوں کی دیکھ بھال کروانا ہوتا ہےجو بیرونِ ملک سے درآمد کی گئی ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ، غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ مل کر ان کے لیے مصنوعات کی اسمبلنگ کی جا رہی ہوتی ہے۔

صنعت کا زوال پذیر ہونا بڑی بات نہیں، اصل بات یہ ہے کہ جب صنعت تحقیق اور ترقی سے پیچھے ہٹتی ہے تو وہ کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکتی۔افسوس کی بات یہ ہے کہ چند اِک کے علاوہ مقامی صنعتیں بنیادی انجینئرنگ مسائل کوبھی حل نہیں کر پا رہی ہیں تو جدید ترین مسائل کا سامنا کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔جبکہ یونیورسٹیاں جدید ترین مسائل حل کرنے پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں کیونکہ وہ اشاعت حاصل کرنا اور عالمی سطح پر شناخت حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ اور اگر وہ مقامی صنعتوں کو ان کے بنیادی انجینئرنگ مسائل حل کرنے میں مدد فراہم کریں تو یہ ان کا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہوگا کیونکہ عالمی علم صرف جدید ترین مسائل کے حل کو اہمیت دیتا ہےجبکہ ہماری بیشتر صنعتیں ابھی تک روایتی طریقوں (conventional methods) پر یقین رکھتی ہیں۔

چین کو اس وقت ٹیکنالوجی کے میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل ہیں اور یہ اس کی یونیورسٹی اور صنعت کے تعاون (University-Industry Collaboration) کی بدولت ممکن ہوا ہے۔تقریباً ہر یونیورسٹی میں یونیورسٹی، صنعت، اور انٹرپرینیورشپ کے ادارے قائم کیے گئے ہیں جن میں محققین اور اساتذہ طلباء کے ساتھ مل کر صنعت کے جدید ترین مسائل پر کام کر رہے ہیں۔ آج کی تحقیق کل کی صنعتی مصنوعات کی شکل اختیار کر رہی ہیں۔ اس مقصد کے لیے اساتذہ اور محققین کو فنڈنگ اور پروموشن دی جاتی ہے۔ چین کی نیشنل نیچرل سائنس فاؤنڈیشن دنیا کی سب سے بڑی فنڈنگ ایجنسی ہے جو تمام شعبوں میں تحقیق کے لیے فنڈز فراہم کرتی ہے۔

چینی طلباء پورہ ہفتہ بغیر چھٹی کے لیبارٹریوں میں کام کرتے ہیں۔ جگہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے لائبریریوں میں آن لائن سیٹ ریزرویشن کی سہولت موجود ہے ۔ تجرباتی آلات تک رسائی حاصل کرنے کے لیے صنعت کے ساتھ ملحقہ طلباء صنعت میں جاتے ہیں اور یونیورسٹیوں نے مختلف ذیلی ادارے قائم کیے ہیں جو تجرباتی سہولتیں، فنڈنگ، رہائش اور اضافی الاؤنس فراہم کرتی ہیں۔مصنف نے خود پی ایچ ڈی کی تجرباتی تحقیق ا یِبین انسٹیٹیوٹ) (Yibin Instituteمیں رہ کر کی اور وہاں کی تمام سہولتوں سے استفادہ کیا۔

چین کی بائیسکل انڈسٹری جدید ٹیکنالوجی اور صنعت 5.0 کے اصولوں کو اپنانے کی قابلِ غور مثال ہے۔ ان سروسز میں ڈیجیٹل ادائیگی (digital payment)، موبائل ایپ کے ذریعے ان لاکنگ (mobile app unlocking)، سولر چارجنگ، اسمارٹ لاکنگ سسٹمز، ریموٹ لوکیشن ٹریکنگ اور سیلف ڈائگنوسس جیسے فیچرز شامل ہیں جو صارفین کے تجربے کو سہل ، محفوظ اور موثر بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ، بائیسکلز میں ہائی ٹیک سنسرز اور کنیکٹڈ ڈیوائسز لگائی گئی ہیں جوریئل ٹائم ڈیٹا (real-time data) فراہم کرتی ہیں اور ان کی کارکردگی، حالت اور مقام کا پتا چلایا جا سکتا ہے۔ یہ تمام فیچرز صنعت 5.0 کے اصولوں کی عکاسی کرتے ہیں جیسے انسان اور مشین کا ہم آہنگ استعمال ، اعلیٰ خودکاری اور مقصدی طریقوں کا اپنانا، جو ٹیکنالوجی کو انسانی صلاحیتوں کے ساتھ ملا کر زیادہ فعال اور مفید بناتا ہے۔اس کے برعکس، وطن عزیز میں بائیسکل کو اکثر غربت کی علامت سمجھا جاتا ہے اور جدید ٹیکنالوجی اور جدت کے فقدان کی وجہ سے یہ انڈسٹری ترقی کرنے کے بجائے زوال پذیر ہو چکی ہے۔ باقی چین کی ہائی ٹیک ٹیکنالوجیز اور ہائی اسپیڈ جی ٹرینز کا تو آپ کو بخوبی علم ہو گا ۔

اگر آپ پاکستان کی مقامی صنعت کی جدت پر نظر ڈالنا چاہتے ہیں تو-Pakistan IPO کے پیٹنٹ اور صنعتی ڈیزائن کے ای جرنل) (e-journalکو ملاحظہ فرمالیں صورتِ حال آپ کے سامنے ہوگی۔یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان مقامی صنعت عالمی معیار کے مطابق ترقی نہیں کر پا رہی اور بہت سی صنعتیں صرف روایتی طریقوں پر کام کر رہی ہیں جو عالمی سطح پر مسابقت کے لیے ناکافی ہیں۔ہزاروں کوششوں کے باوجود پاکستان میں یونیورسٹی-انڈسٹری تعاون کی کوششیں موثر ثابت نہیں ہو رہیں اور یہ سلسلہ جاری رہنے کا امکان ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جب انڈسٹری خود یونیورسٹی کو رابطہ نہیں کرتی، فنڈز فراہم نہیں کرتی اور تحقیق کے لیے مناسب سہولتیں مہیا نہیں کرتی تو پھر جدید مسائل پر کام کرنا کیسے ممکن ہے؟ کون چاہے گا کہ نئی ٹیکنالوجیز کی ترقی میں سرمایہ کاری کرے اور متعدد ناکامیوں کا سامنا کرے، جب کہ بیرونِ ملک سے ٹیکنالوجی درآمد کرنے سے وقتی فائدہ حاصل ہو رہا ہو؟

جدید دور میں جب کہ انٹرنیٹ بیسڈ ٹیکنالوجیز ، خصوصاً انڈسٹری 5.0، مشین لرننگ اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی ترقی تیزی سے ہو رہی ہے اس وقت ہر ٹیکنالوجی کو درآمد کرنا اور دوسروں پر انحصار کرنا خطرات سے خالی نہیں ہے۔اس کے پیچھے ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی ٹیکنالوجیز پر انحصار کرنے سے ہمیں صرف ان کے فوائد حاصل ہوتے ہیں بلکہ ان کے پیچیدہ نظام، ڈیٹا سیکیورٹی مسائل اور تکنیکی خود مختاری کی کمی کے خطرات بھی درپیش ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، نئی ٹیکنالوجیز کا انحصار عالمی سطح پر ایک خاص ملک یا کمپنی کے تسلط کی طرف بھی لے جا سکتا ہے جو سیاسی، معاشی اور حکومتی سطح پر کسی بھی ملک کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

یاد رہے کہ کسی کے بَلَب سے روشنی حاصل کرنے کے لیے گھر کی دیواریں نیچی رکھنی پڑتی ہیں، کھڑکیاں اور دروازے کھلے رکھنے پڑتے ہیں۔ مطلب یہ کہ آپ کی پرائیویسی اور سیکیورٹی کسی اور کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔

تاہم، محض درآمدی ٹیکنالوجیز پر انحصار کرتے رہنے سے ہم عالمی مسابقت میں پیچھے رہ جائیں گے۔ اس کے برعکس، اگر ٹیکنالوجیز کو درآمد کرنے کے بجائے مقامی تحقیق اور جدت پر انحصار کرتے ہوئے اپنایا جائے تو یہ عمل نہ صرف ہماری خودمختاری میں اضافہ کرے گا بلکہ ملکی معیشت کو بھی پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کر ے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں صنعتوں اور جامعات کے درمیان مضبوط اور پائیدار تعاون قائم ہو تاکہ ہم ایک ترقی یافتہ قوم بن سکیں اور اپنے داخلی مسائل کا حل خود تلاش کر سکیں۔

معروف شاعر اور مزاح نگار محترم انور مسعود صاحب سے کسی نے پوچھا کہ آپ کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا، 'میری سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ کوئی گورا (غیر ملکی) شخص ہو اور اس کے ہاتھ میں اردو میں لکھا ہوا ایک فارم ہواور وہ آ کر مجھے کہے کہ اس فارم کو پُر کر دیں۔ یہ بات سن کر میری عمر بھر کی تھکن دور ہو جائے۔
دلِ مضطر کی بھی کچھ ایسی خواہشات ہیں: نغمۂ عقیدت وطن کے نام:
میری پہچان اے وطن
تِری مٹِّی مِری پہچان اے وطن
فِدا ہے تجھ پہ مِری جان اے وطن
دُعا ہے تو ہمیشہ سر بُلند رہے
رہے بُلند تِرا بیان اے وطن
تِرے چمَن میں ہو خوشبُو صَدیوں تَک
بنے تو زمِینِ گُل و ریحان اے وطن
ہر اِک طرف ہو عِلم کی روشنی
مٹے ہَر سَمت سے جہلان اے وَطَن
رہے ہر دل میں ایمان کا چراغ
ہر قلب ہو شادان اے وطن
رہیں نہ ظُلم کے سائے کَبھی یہاں
فَقَط ہو عدل کا سامَان اے وطن
چَلے جو وَقت کی دھُوپ یا ہواؤں کا چَلن
رہے سلامت تِرا جہان اے وطن
جہاں تِرا ذکر ہو، دِل دھڑکے
رہے سلامت تِری شان اے وطن
علی اعظم

 

Engr. Dr. Ali Azam
About the Author: Engr. Dr. Ali Azam Read More Articles by Engr. Dr. Ali Azam: 7 Articles with 3481 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.