پاکستانی سیاست اور اس میں غیر جمہوری قوتوں کی جانب سے
مداخلت، سماج کی طرف سے مروجہ روایات کی تقلید، غربت و افلاس، صحت کی ابتری
صورتحال، ملکی تعلیمی نظام اور اسکی پے در پے ناکامیوں اور ملکی معاشی
مسائل پر تو اپنی ڈائری میں بہت کچھ مواد لکھ رکھا ہے۔ مگر بہرحال اب اگلا
کالم ایسا ہو کہ جس میں آپ اپنے لئے کوئی راستہ متعین کرسکیں۔ خود کو کٹہرے
میں لاسکیں اور خود کی طرف سے دوسروں کے لئے پیدا کئے گئے مسائل پر معافی
مانگ سکیں۔ وہ سب کچھ باتیں بتا سکیں جو آپ نے اس ساری مسافت سے سیکھی ہیں۔
یہ سب کچھ آپکو اب آگے بڑھنے میں مدد دے گا۔ مستقبل کی تصویر جو ابھی آپکو
دھندلی دکھائی دے رہی ہے اس پر جو گرد ہے وہ اب یوں خود کو قصوروار سمجھنے
کے بعد ہی چھٹ سکتی ہے۔ آگے کی منازل اب خود کو ٹھیک کرنے کے بعد ہی طے کی
جاسکیں گی۔ یہ ہدایت یا حکم کسی دوسرے شخص کا براہ راست یا فون کے دوسری
طرف سے نہیں تھا۔ یہ تو ہمارے اپنے اندر کی آواز تھی جو آخری پرچہ دینے کے
بعد کلاس سے نکلنے اور اپنے کیمسٹری ڈپارٹمنٹ کے کوریڈور سے گزرتے ہوئے
سنائی دے رہی تھی۔ اپنے تجربات اور ان سے حاصل کئے جانے والے اسباق بارے
مطلع کررہی تھی۔ یہ سب کچھ ذہن میں اچانک آگیا تھا اور ہم اس ارادے پر
بلاجھجک "ہاں" کہتے ہوئے ڈپارٹمنٹ کے گیٹ سے نکل کر آس پاس کے شور میں
سیدھا بائیں جانب مڑے اور پوائنٹ بس کے ذریعے حیدرآباد والے گھر کی طرف
واپسی کو ہولیے۔ آج یوں ہفتہ پورا ہونے کو ہے اور ہم تھکاوٹ سے آزادی کے
بعد اپنے کمرے میں اپنی اسٹدی ٹیبل کی کرسی پر بیٹھے اس "ہاں" کو پورا کرنے
کی غرض سے لکھے چلے جارہے ہیں۔
واقعہ ہے یہ کہ ہم پانچ چھ سال پر محیط بچپن گزارنے پر 2007 میں اسکول،
ٹیوشن اور مدرسے کے ایک ساتھ حوالے کئے گئے تھے۔ ایک عجب سفر تھا یہ کہ پتا
بھی نہ چلا اور ہم جلدی سے 2020 تک آن پہنچے۔ یہ تقریباً چودہ سال کا عرصہ
روایتی تعلیم کا تھا۔ اس میں ہم نے اپنی پرائمری، سیکنڈری اور ہائیر
سیکنڈری سطح کی تعلیم مکمل کی۔ ناظرہ قرآن مکمل کیا اور دو دفعہ دہرایا۔ ان
سالوں میں ہمیں صرف اپنے کچھ آخری کے سالوں کی یاد فکری طرح سے تازہ ہے۔ اس
تازگی کا باعث کورونا وائرس کے باعث لگنے والا وہ "کرفیو" تھا جس کے باعث
کچھ ماہ چار دیواری میں گزارے، انٹرنیٹ کی مدد سے دنیا کو دیکھا اور اسی ہی
کی مدد سے ہم بے شعوری کی نیند سے بیداری کی طرف گامزن ہوئے۔ آگے پڑھائی کی
سطح پر مشکلات تھیں اور معاملات بارے بلکل کورے تھے۔ ایسے کہ آج ہی جیسے
پیدا ہوئے دنیا میں آئے ہوں۔
انسان اپنی پوری زندگی میں ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو دفعہ جنم لیتا ہے۔ دوسری
پیدائش اسکی فکری سطح پر ہوتی ہے۔ جب اسے اس دنیا میں موجود ہونے کا احساس
ہوجائے۔ اپنے ارد گرد کی سمجھ آنے لگ جائے۔ تعلیم کو صحیح معنوں میں حاصل
کرنے کی راہ اختیار کرلی جائے۔ بنیادی اخلاقیات کے ساتھ جینے یعنی شعور کو
حاصل کرنے کا متمنی بن جائے۔ اور ان سب سے بڑھ کر حس جمالیات کا ادراک
ہوجائے۔ اس کے بعد انسان پچھلے ماہ و سال ترک کردیتا ہے۔ اور اسکا یوں ترک
کرتے جانا پھر معمول بنتا ہے۔ وہ روز بنتا اور پھر بگڑتا ہے۔ یہ
(Transformation) کا عمل ہوتا ہے نہ کہ (Improvement) کا! دونوں کو ایک
دوسرے سے ملایا نہیں جاسکتا۔ پہلی اصطلاح بنیادی طور پر اسکو پرانی زنجیروں
سے آزاد کرانے کا نام ہے۔ دوسری اصطلاح تب قابلِ عمل آئیگی جب وہ سیکھا
سکھایا چھوڑ کے روایتی بن کر پرانے راستوں کا انتخاب کرنے کے بعد کی
ٹھوکریں کھانے کے بعد دوبارہ اور دائمی طور پر بہتری کی طرف گامزن ہوگا۔
یہاں سے کچھ اسکی نئی اشکال سامنے آئیں گی۔ انہی کی بنیاد پر وہ دنیوی سطح
پر متحرک ہوگا اور ابتدائی کامیابیاں حاصل کرے گا۔ یہاں سے ملنے والا حوصلہ
اسے نفسیاتی طور پر مضبوط کرے گا۔ وہ آگے بڑھے گا، نئی راہوں کی تلاش میں!
ان پر چلنے کے لئے وہ کوشیشیں بھی کرے گا۔ شروعات میں ناکامیاں ہونگی کہ
جتنا شخصیت سازی کی بدولت ایندھن اکٹھا ہوا تھا وہ ابتدائی آسانیوں کی آمد
کے بدلے کھپ چکا۔ اسے اب ان نئی راہوں کے لئے پھر سے نئی ریاضتیں کرنی ہیں۔
ناکامیوں سے سیکھنا ہے بغیر گھبرائے اور پیچھے دیکھے! یہاں انسان کا امتحان
کڑے سے کڑا ہوچکا ہوتا ہے۔ آسودگی حاصل کرنے کی خواہش اگر وقت کے ساتھ
کمزور نہ پڑی ہو تو یہ مرحلہ جس میں نئی راہوں پر چلنے، دنیا کی باتوں کو
ایک طرف رکھ کے خود کا کچھ کرنے' کا باآسانی مکمل کیا جاسکتا ہے۔ وقت کے
بہاؤ میں اس کائنات پر پیدا کردہ انسانوں کا اکثریتی تناسب اس مرحلے یا اس
سے پہلے ہی ایک طرف ہوکر باہر ہوجاتا یا کردیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ' یہ سارا
عمل خدا کی اسکیم کے عین مطابق ہورہا ہوتا ہے۔ اسکی ذات نے اس دنیا میں
قلیل تناسب ہی بڑے لوگوں کا رکھنا ہوتا ہے۔ باقی اس دنیا کا نظم چلانے میں
اپنی کوشیشیں صرف کرتے ہیں۔ خدا کبھی بھی دو ڈھائی فیصد سے زیادہ عبقری
لوگوں کو پیدا ہی نہیں کرتا۔ ایسے نابغہ لوگوں کی اس دنیا میں آتے ہی وہ
مکمل تربیت ہوچکی ہوتی ہے جو وہ پھر استعمال میں لاتے ہوئے اس دنیا کے
امتحانات کا سامنا کرسکیں جس کا معمولی سا خاکہ اوپر بیان ہوا ہے۔ یہ عمل
کائنات کی تخلیق ہی سے جاری ہے اور تب تک جاری رہے گا جب تک آسمانوں پر
فائز طاقت اس دنیاوی نظام کی بساط لپیٹنے کا فیصلہ نہ کرلے!
ہم اپنے اردگرد سے ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شعوری سطح پر طاقتور لوگوں کا
تناسب کتنا ہی کم ہوتا ہے۔ ہمارا گھر ہو، محلہ ہو، ہمارا کمرہ جماعت ہو،
خاندان یا پھر ملک' ایسے لوگ آپکو کم ہی ملیں گے جو علم اور اخلاق کی اعلی
سطحوں پر پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ باقی تو درجات ہوتے ہیں جن میں عام طور پر
اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے انسان دنیاوی امتحانات سے نبرد آزما ہورہے ہوتے
ہیں۔ تبدیلی کے ذریعے نئے راستے نئے امکان پیدا کئے جارہے ہوتے ہیں۔ یہ عمل
چلتا ہمیشہ رہتا ہے۔ پچھلے قطار میں لگے اگلوں کی یہاں سے رخصت پر وہ جگہیں
لے لیتے ہیں۔ پھر اپنا جوہر دکھاتے ہیں اور دنیا کو مزید بہتر سے بہتر کی
جہدوجہد میں وہ بھی حقیقت کو اپناتے ہوئے یہ جہان چھوڑتے ہیں۔ اس سے یہ بھی
سمجھنے کو مل جاتا ہے کہ کسی کے جانے سے نظام رکا نہیں کرتے۔ لوگ صفوں میں
پیچھے ہوتے ہیں جو بروقت تیار رہتے ہیں۔ بحث انکی قابلیتوں، دلچسپی اور
کارکردگی پر ہوسکتی ہے۔ انہی تین چیزوں کی تو اونچ نیچ سے دنیا میں تنوع
ہے۔ کچھ گھر، خاندان، معاشرے، صوبے، ریاستیں، مملکتیں بہت آگے ہیں، کچھ
انکے پیچھے، مزید پیچھے اور بہت تو آخر میں! یہ کائنات انسانوں پر مشتمل
ہے۔ ہر انسان جو یہاں بستا ہے وہ بغیر کسی تفریق کے یہاں کے امتحانات سے
کسی نہ کسی وقت، کسی نہ کسی سطح اور کسی نہ کسی حالت میں گزر رہا ہوتا ہے۔
اسکا شخصی، سماجی، معاشی، مذہبی یا سیاسی رجحان کا اس پہلو سے تعلق نہیں
ہوتا۔ اسوقت وہ محض دنیوی سطح پر یہاں کی آزمائشوں سے متعلق ہوتا ہے۔
یوں ادب سے ہاتھ باندھ کر عرض کریں تو شخصی اعتبار سے جتنی ہم سے غلطیاں
اور حماقتیں ہوئی ہیں اسکے لئے اتنی لمبی تمہید ہی باندھنا عین ضروری تھی۔
یہ سب کچھ چودہ سال مکمل ہونے پر غفلت کی نیند سے بیداری اور اسکے بعد کے
وقتوں یعنی نئی راہوں پر چلنے کے چار سالوں کا حاصل حصول ہے۔ اسی ہی سے سبق
حاصل کرتے ہوئے ہم اب آگے بہتر طریقے سے بڑھ سکیں گے۔ آسمانوں کی مہربانیوں
کے نتیجے میں نئی راہیں ہم چن چکے اور کامیاب بھی گئے۔ کرم برقرار ہے کہ ان
پر کامیابی سے سفر بھی جاری و ساری ہے۔ ویسے عاجزی سے عرض کریں کہ جو سخت
گیر حالات ہم نے ان راہوں کی خواہشیں رکھنے، انکو اختیار کرنے، ان پر قائم
رہنے، ان پر ناکامیاں ملنے اور پھر کامیابیاں ملنے پر' دیکھے ہیں انکو ایک
طرف رکھتے ہیں کہ آج کٹہرے میں ہم نے خود ہی خود کو کھڑا کردیا ہے۔ خود پر
جو بیتی ہے اس کے پیچھے تمام تر محرکات کو بھول چکے اور شخصیات کو ہم دل سے
معاف کرچکے ہیں۔ ان سب کو اپنا سمجھتے ہیں اور انکے عملوں کو اسی سطح کی
ناسمجھی سمجھتے ہیں جو انجانے (Misunderstanding) میں ہم سے بھی ہوئیں ہیں۔
خدا سے روز معافی مانگتے ہیں اور دعا بھی کرتے ہیں کہ تقوی کی نعمت سے صحیح
راستوں پر اب ہمیں قائم بالقسط رکھتے ہوئے ارادوں میں کامیابی حاصل کرنے کی
قوت عطاء کرے! ہم اس سارے سفر کے بعد عورت کی عزت، اسکی قدر و منزلت اور
باہمی تعلقات کے آداب اور اخلاقیات؛ جھوٹ، جذباتیت، بداخلاقی اور اقربا
پروری سے انکار جیسے اسباق سیکھ چکے کہ اس دنیا میں انسان آیا ہی سیکھنے،
بہتر سے بہتر بننے اور دنیاوی امتحانات سے گزر کر اپنے رب کے ہاں پیش ہو
جانے کے لئے ہے۔ اختتام اس خوبصورت شعر پر کہ:
سفر میں لغزشیں ہوں تو کچھ عجب نہیں
جو گر کر پھر اٹھ کھڑا ہوا ہو، وہی بلند ہے
|