یوتھ آفس پشاور کے پروگرام: بجٹ، عملدرآمد اور پھیلاو میں مسائل کا جائزہ



ڈائریکٹریٹ آف یوتھ کے زیر انتظام ڈسٹرکٹ یوتھ آفس پشاور نے سال بھرمیں نوجوانوںکے لئے مختلف پروگرام منعقد کروائے.، آگاہی اور ہنر کی ترقی کے حوالے سے مختلف پروگرامز کا انعقاد کیا۔ تاہم، ان پروگرامز کا گہرائی سے جائزہ لینے پر بجٹ کے غیر متوازن استعمال، اخراجات میں کمی اور وسائل کے مناسب استعمال کی کمی کے حوالے سے چند سنگین مسائل سامنے آتے ہیں۔یوتھ آفس پشاور کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سب سے نمایاں مسئلہ پروگراموں کے اخراجات میں فرق ہے۔ مثال کے طور پر، ویمنز ویک ایکسپو جو 19 ستمبر 2024 کو ہوئی، اس میں اخراجات 485,000 روپے ہیں جو دوسرے پروگرامز کے اخراجات سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس کے مقابلے میں، مون سون پلانٹیشن ڈرائیو 24 جولائی 2024 یا یومِ استحصال 4 اگست 2024 جیسے پروگرامز کے اخراجات صرف 40,000 اور 50,000 روپے ہیں۔

یہ فرق اس بات کو جنم دیتا ہے کہ وسائل کی تقسیم کس طرح کی گئی ہے اور کیا یہ اخراجات واقعی پروگرام کے مقاصد کے لحاظ سے جائز ہیں؟ کیا اتنے بڑے اخراجات کا کوئی ٹھوس جواز تھا؟ اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ان اخراجات کی تفصیلات اور شفافیت کیوں نہیں فراہم کی گئی؟ مزید برآں، ستمبر سے دسمبر 2024 تک کے دوران کئی پروگرامز کے اخراجات پر "بل زیر التواء" کا نشان لگا ہوا ہے، جن میں اہم پروگرامز جیسے یوتھ کے امن کے قیام میں کردار پر پہلی تربیتی نشست اور ڈیجیٹل ہنر کی ترقی شامل ہیں۔ دیگر پروگرامز جیسے اینٹی کرپشن سیمینار اور مشعلِ امن 11 دسمبر 2024 کو بھی بغیر کسی طے شدہ ادائیگی کے ہیں۔

یہ محض ایک معمولی انتظامی مسئلہ نہیں بلکہ ایک نظامی خرابی کی نشاندہی کرتا ہے جس کا مطلب ہے کہ مالیاتی منصوبہ بندی اور عملدرآمد میں نااہلی اور تاخیر کی علامت ہے۔ ان زیر غور بلز سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے دعوے کے باوجود ان پروگراموں کے پیچھے جو مالی انفراسٹرکچر اور منصوبہ بندی ہے وہ غیر مو¿ثر اور بے ترتیب ہے۔ایک اور اہم مسئلہ شرکاءکی تعداد پر زیادہ زور دینا ہے، بجائے اس کے کہ ان پروگراموں کے اثرات پر غور کیا جائے۔ جیسے سائنس اور آئی ٹی نمائش (500 شرکائ) اور پاکستان یومِ دفاع (100 شرکاء) 5 ستمبر 2024 کو، اگرچہ ان پروگرامز میں شرکت کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، لیکن ان پروگراموں کا نوجوانوں پر طویل المدتی اثرات ابھی تک غیر واضح ہے۔

اگرچہ آگاہی کے پروگرام اہم ہیں، لیکن یہ اکثر ایک علامتی اقدام کی طرح لگتے ہیں نہ کہ ایک ایسی قابل عمل حکمت عملی جو گہرے مسائل کو حل کرے۔ کیا یہ پروگرام نوجوانوں کی زندگیوں میں حقیقی تبدیلی لا رہے ہیں؟ کیا یہ معاشرتی اور تعلیمی مقاصد کو پورا کر رہے ہیں؟ زیادہ تر پروگرامز، جیسے منشیات سے آگاہی 5 نومبر 2024 اور ویمنز ویک (جو تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا دعویٰ کرتا ہے) ان کے نتائج کے حوالے سے سوالات چھوڑتے ہیں۔پروگرامز کا موضوع مختلف ہے — جیسے ڈیجیٹل ہنر، والنٹیئرزم، اجتماعی ہم آہنگی، اور قومی آگاہی — جو اگرچہ قابل تعریف ہیں لیکن حکمت عملی کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ پروگرامز، اگرچہ متنوع ہیں، نظر آتے ہیں کہ ان کا کوئی ایک واضح مقصد نہیں ہے۔ بعض پروگرامز جیسے ویب ڈویلپمنٹ بوٹ کیمپ ہنر سیکھانے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ دیگر پروگرامز جیسے اسلامی تقریبات اور بین المذاہب ہم آہنگی پر زور دیتے ہیں جن کے نتائج میں کوئی واضح تبدیلی نظر نہیں آتی۔

مزید یہ کہ کچھ پروگرامز جیسے کشمیر یومِ سیاہ (27 اکتوبر 2024) اور دوسرے قومی دنوں کے حوالے سے پروگرامز، سیاسی یا حب الوطنی کے اظہار کی زیادہ جھلک دیتے ہیں بجائے اس کے کہ یہ نوجوانوں کی سماجی اور تعلیمی ترقی میں مددگار ثابت ہوں۔ اگرچہیوتھ آفس پشاور کے پروگرامز کو اصولی طور پر قابل تعریف سمجھا جا سکتا ہے، تاہم ایک گہرے جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان پروگرامز میں اخراجات کی غیر منصفانہ تقسیم، مالی معاملات میں عدم شفافیت، اور نتائج کی کمی جیسے مسائل موجود ہیں۔ نوجوانوں کو حقیقت میں فائدہ پہنچانے کے لیے ان پروگراموں کو مزید حکمت عملی سے ترتیب دینے اور بہتر مالیاتی انتظام کی ضرورت ہے۔یہ وقت ہے کہ متعلقہ حکام ان پروگرامز کے ڈیزائن اور عملدرآمد کا دوبارہ جائزہ لیں۔ نوجوانوں کی طاقتور بنانا ایک قابل قدر مقصد ہے، لیکن جب تک مالیاتی انتظام اور حقیقت پسندانہ نتائج پر توجہ نہ دی جائے، یہ اقدامات محض علامتی رہ جائیں گے اور ان کا کوئی حقیقی اثر نہیں ہوگا۔

#youth #kpk #kp #peshawar #pakistan #directorate #youthdepartment #program #analysis #kikxnow

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 657 Articles with 526926 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More