ڈگری مکمل کرنے کے بعد نوجوانوں پر سب سے زیادہ دباؤ "پیسہ
کمانے" کا ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں تعلیم اور خاص طور پر ڈگری کا معیار
صرف اس بات پر رکھا جاتا ہے کہ آپ کی آمدنی کتنی ہے۔ اگر کوئی نوجوان ڈگری
کرنے کے بعد اچھی تنخواہ والی نوکری حاصل کر لیتا ہے یا کسی کامیاب کاروبار
کا آغاز کر لیتا ہے تو اسے معاشرتی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ
اپنی پسند کا کوئی غیر روایتی راستہ اختیار کرے یا مثلاً ریڑھی لگا لے، تو
اسے تنقید، طنز اور بے عزتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ صورتحال ہمارے معاشرتی رویوں کی عکاسی کرتی ہے، جہاں تعلیم کا مقصد صرف
اور صرف پیسہ کمانا اور سماجی رتبہ حاصل کرنا بن چکا ہے۔ اس کا اثر
نوجوانوں کی ذہنی صحت اور ان کی خود اعتمادی پر پڑتا ہے۔ نوجوان جب معاشرتی
توقعات پر پورا نہیں اتر پاتے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں، حالانکہ
ہر کام، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، عزت کا مستحق ہے۔
مزید یہ کہ، اکثر نوجوان ڈگری مکمل کرنے کے بعد اپنے ذہن میں ایک خاص معیار
طے کر لیتے ہیں کہ انہیں ایک مخصوص قسم کی نوکری یا عہدہ ہی قبول کرنا ہے۔
یہ سوچ ان کے کیریئر کو محدود کر دیتی ہے۔ یہی نوجوان جب بیرون ملک جاتے
ہیں تو وہی لوگ بغیر کسی جھجک کے ہر قسم کا کام کرنے کے لیے تیار ہو جاتے
ہیں۔ چاہے وہ کام صفائی کا ہو، تعمیراتی مزدوری ہو یا کسی فاسٹ فوڈ
ریستوران میں کام کرنا، وہ اسے معیوب نہیں سمجھتے۔ لیکن اپنے ملک میں وہی
کام کرنے کو اپنی عزت کے خلاف سمجھتے ہیں۔
یہ رویہ نہ صرف ہمارے معاشرتی نظام کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے بلکہ ہمارے
نوجوانوں کی ترقی کے راستے میں بھی رکاوٹ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم
اپنے نوجوانوں کو یہ یقین دلائیں کہ کوئی بھی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔
ہر کام اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایمانداری اور
محنت سے کمایا گیا رزق ہی اصل کامیابی ہے۔
معاشرتی طور پر ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ ہمیں ڈگری کو صرف پیسے کے پیمانے
پر نہیں پرکھنا چاہیے بلکہ اسے ایک فرد کی صلاحیت، تربیت اور مہارت کی
نشانی سمجھنا چاہیے۔ نوجوانوں کو حوصلہ دینا ہوگا کہ وہ اپنے شوق اور
دلچسپی کے مطابق کیریئر کا انتخاب کریں اور اس راستے پر بغیر کسی خوف کے
آگے بڑھیں۔ یہی رویہ ہمارے معاشرے کو مضبوط کرے گا اور ہمارے نوجوانوں کو
ایک بہتر مستقبل کی طرف لے جائے گا۔
|