سانحہ مشرقی پاکستان کے بعدپاکستان کا ازلی دشمن بھارت کا
ہمیشہ سے نشانہ بلوچستان رہا ہے۔بھارت نے بلوچستان میں شورش برپا کرنے کے
لیے اپنی خفیہ ایجنسی راء کے ایجنٹوں،کریمہ بلوچ،ڈاکٹرماہ رنگ بلوچ،سمی دین
بلوچ اور ماماقدیرجیسے غداروں کے ذریعے تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں کے سامنے
بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق کے حوالے سے تاریخی حقائق کو مسخ پیش
کیا،علیحدگی کی آگ سلگائی، پھرعلیحدگی پسندتنظیموں کے دہشت گردوں کی مالی
معاونت،اسلحہ اور تربیت فراہم کی۔راء کا ایجنٹ کلبھوشن یادیوکی گرفتاری اور
اعترافی بیان نے بھارتی نیٹ ورک کا پردہ چاک کیا،کہ اس نے کس طرح بلوچستان
اور کراچی کے حالات خراب کرنے میں اہم کردار ادا کیا،اس کے بعد بھارتی راء
کے ایجنٹ اشوک کمار آنند اور یوگیش کمار کو ان کے آلہ کاروں اور سہولت
کاروں سمیت گرفتاری نے بھارت کا اصلی چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔یہ
دونوں راء کے ایجنٹ پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کی وارداتوں میں
براہ راست ملوث تھے۔اشوک کمار آنند اور یوگیش کمار نے اپنے کرائے کے قاتلوں
(ٹارگٹ کلرز)کے ذریعے 8ستمبر 2023کو راولا کوٹ میں محمد ریاض کو جبکہ
11اکتوبر 2023ء کو ڈسکہ میں شاہد لطیف کو قتل کروایا تھا۔اپنے اعترافی بیان
میں انہوں نے اپنی اس مذموم کاروائی کا اعتراف بھی کیا۔سیکرٹری خارجہ
محمدسائرس سجاد قاضی نے اس حوالے سے ایک اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے واضح
کیا کہ ٹارگٹ کلرز اور ان کے سہولت کاروں کو ٹھوس شواہد کی بنیاد پر گرفتار
کیا گیا ہے۔شاہد لطیف اور محمد ریاض کے قتل کے لیے مقامی سہولت کاروں کی
مدد لی گئی جبکہ بھارتی ایجنٹوں نے انہیں بیرون ملک سے رقم کی ادائیگی کی
جس کے فنانشل ٹرانزیکشنز کے مکمل شواہد موجود ہیں۔اس بات میں کسی شک وشبہ
کی گنجائش نہیں کہ بھارت ایک منہ زور ریاست اور دہشت گردی کا بڑا سپانسر بن
چکا ہے۔بھارت کی خفیہ ایجنسی راء نے 1970ء میں مشرقی پاکستان میں مکتی
باہنی کی مددکی،علیحدگی پسندوں کو اسلحہ اور تربیت فراہم کی۔اس حوالے سے
بہت سی دستاویزات موجود ہیں،ثبوتوں سے الماریاں بھری پڑی ہیں۔اسی طرح بھارت
نے 80کی دہائی کے دوران منتخب جمہوری سری لنکن حکومت کے خلاف تامل ٹائیگرز
کی حمایت کی۔تامل ٹائیگرز سری لنکن حکومت کے خلاف دہشت گردی کی کاروائیوں
میں ملوث تھے۔دنیا جان گئی ہے کہ دہشت گرد ی بھارت کی ریاستی پالیسی کا حصہ
ہے۔بھارت پاکستان پر الزام لگاکر اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا
رہا ہے۔بھارت خود دہشت گردی کروانے،دہشت گردی کی معاونت کرنے اور وسائل
فراہم کرنے میں ملوث ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ بھارت نے جب بھی پاکستان کے اندر
افراتفری پھیلانے کی کوشش کی،وہ اپنے مذموم مقاصد میں ناکام رہا اور ہمیشہ
ناکام رہے گا۔اس وقت بلوچستان میں سی پیک جیسے ترقیاتی منصوبے جن میں زیادہ
تر مکمل ہوچکے ہیں اور باقی تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں، بھارت کی آنکھ
میں کھٹک رہے ہیں،جن کو سبوثار کرنے کے لیے وہ دہشت گردانہ کاروائیوں کو
انجام دے رہا ہے۔ان منصوبوں پر کام کرنے والے کئی چینی انجینئرزاور
پاکستانی شہریوں کو قتل کیا گیا۔بھارت بلوچستان میں بدامنی،انتہاپسندی اور
تعلیم بلوچ نوجوانوں کو ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے لیے مختلف چالیں
چل رہا ہے اس سلسلہ میں بلوچستان میں ”جبری گمشدگیوں“کا ایک ڈرامہ رچایا
جارہا ہے جس کو اس وقت ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ،سمی دین بلوچ اور ماماقدیر جیسے
غدار لیڈ کررہے ہیں،ان ملک دشمنوں کے بقول ریاستی ادارے ان کے لوگوں کو
جبری اغواء کرتے ہیں اور پھر مار دیتے ہیں، جبکہ اس بات کی حقیقت محض ایک
ڈرامے اور جھوٹ کے سواء کچھ نہیں،جس کا مقصدریاست اور ریاستی اداروں کو
بدنام کرنا اور ڈالر کمانا ہے۔اگر”لاپتہ افراد“کے حوالے سے واقعتا کوئی
صداقت ہوتی تو بلوچیت کا لبادہ اوڑھے دہشت گردوں کی پراکسی بلوچ یکجہتی
کمیٹی کی نام نہاد لیڈر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے سپریم کورٹ آف پاکستان کی
جانب سے ”لاپتہ افراد“کے حوالے سے بننے والے کمیشن کے ساتھ تعاون کیوں نہ
کیا؟ ظاہری سی بات ہے کہ ”لاپتہ افراد ڈرامہ!بلوچستان کی ترقی اصل
نشانہ“ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ایک ملک دشمن ایجنٹ ہے جو انڈین پے رول پر کام
کررہی ہے،اس سے قبل کریمہ بلوچ جوبھارت کے لیے کام کررہی تھی جس نے2016میں
نریندرمودی کو راکھی بھیج کر اپنے تعلقات کا اظہاربھی کیا،کو بھارت نے اپنے
مذموم مقاصد کے لیے خوب استعمال کیا،کریمہ بلوچ نے بی ایس او کے پلیٹ فارم
سے تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں کو ریاست کے خلاف گمراہ کیا اور پھر کینیڈا
بھاگ گئی جہاں بھارتی راء کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچی۔اس وقت ڈاکٹر ماہ
رنگ بلوچ،بی وائی سی کے پلیٹ فارم سے دہشت گردتنظیموں کو سہولت کاری فراہم
کررہی ہے۔مقامی وغیر مقامی افراد،پنجابی مزدوروں کے قاتلوں،اسمگلروں،بھتہ
خوروں اور دہشت گردوں کو ”لاپتہ افراد“کا ٹائٹل دے کر احتجاج اور دھرنوں کی
آڑ میں دنگا فساد پھیلا یا جارہا ہے۔گذشتہ دنوں ضلع پنجگور میں دہشت گردوں
کے خلاف آپریشن میں ہلاک ہونے والا گوادر کا رہائشی ذاکر حسین بھی لاپتہ
افراد کی فہرست میں شامل تھا،اس سے قبل بیلہ کیمپ پر حملہ کرنے والا خود کش
حملہ آور طیب بلوچ بھی مسنگ پرسن تھا،جبکہ عادل بلوچ آواران میں، دوستان
بلوچ،مند میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے دوران ہلاک ہونے والے بھی لاپتہ
افراد میں شامل تھے۔حقیقت تو یہ ہے ڈاکٹر ماہ ر نگ بلوچ لاپتہ افراد کے نام
پر ڈرامہ کررہی ہے اور اس کی بلوچ یکجہتی کمیٹی کالعدم تنظیموں کی ڈھال کا
کام کررہی ہے۔واضح رہے کہ کالعدم تنظیم بی ایل اے کا سابق کمانڈر طلعت عزیز
جو دہشت گردی سے تائب ہوکر قومی دھارے میں شامل ہوا نے بتایا کہ جن افراد
کی تصاویر کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج اور دھرنوں میں اٹھا کر انہیں
مسنگ پرسن قرار دیا جاتا ہے وہ سبھی پہاڑوں پر دہشت گردی کے کیمپوں میں
موجود ہیں۔بلوچ یکجہتی کمیٹی تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں کی برین واشنگ کرکے
انہیں ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر قائل کرتی ہے۔واضح رہے کہ جب موسیٰ
خیل میں 23معصوم اور بے گناہ مسافروں کو شناخت کے بعد،گوادر میں سات پنجابی
حجاموں کوجبکہ پنجگور میں چھ پنجابی مزدوروں کو بڑی بے رحمی سے شہید کیا
گیا تو اس وقت اس انسانی حقوق کی نام نہاد لیڈر،بلوچ نسل کشی کی ذمہ دار
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے منہ سے اظہارہمدردی کا ایک لفظ بھی ادا نہ ہوسکا اور
دہشت گرد ذاکر حسین،طیب بلوچ کے لیے احتجاج کرنے اور دھرنے دئیے گئے۔یہ
حقائق ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور اس کے مسنگ پرسن کی اصلیت کو عیاں کرتے ہیں
کہ کس طرح منفی پراپیگنڈے کے ذریعے ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کی
جارہی ہے۔
|