قفس

زندگی ایک قفس ہے، یہ جملہ سننے میں بہت سادہ لگتا ہے لیکن حقیقت میں یہ ہر اُس لڑکی کی داستان ہے جو معاشرتی بندشوں، رواجوں اور توقعات کے جال میں جکڑی ہوئی ہے۔ یہ کہانی بھی ایسی ہی ایک لڑکی، عائشہ کی ہے جو اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے جینے کا خواب دیکھتی تھی۔

عائشہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئی، جہاں بچیوں کی زندگی کا مقصد گھر کے کام کرنا اور ایک دن کسی دوسرے گھر کی ذمہ داری بن جانا تھا۔ عائشہ کی آنکھوں میں خواب تھے، لیکن اس کے اردگرد کا ماحول ہمیشہ ان خوابوں کو دبانے کی کوشش کرتا رہا۔ گاؤں میں لڑکیوں کا اسکول جانا بھی کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ عائشہ کے والد، جو روایات کے سخت پیروکار تھے، نے اس کی پڑھائی کو ایک بے معنی کام سمجھا۔ لیکن عائشہ کی ماں نے، جو خود ان بندشوں کا شکار ہو چکی تھی، عائشہ کی تعلیم کے لیے خاموشی سے لڑائی لڑی۔

عائشہ ایک ذہین اور باہمت لڑکی تھی جو ہمیشہ نمایاں نمبر لے کر اپنی قابلیت کا ثبوت دیتی رہی۔ لیکن اس کے والد کی نظر میں لڑکیوں کی تعلیم کی کوئی اہمیت نہ تھی، کیونکہ وہ اسے شادی کے بعد غیر ضروری سمجھتے تھے۔ جب عائشہ نے میٹرک پاس کیا اور کالج جانے کی خواہش ظاہر کی، تو والد نے سختی سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ "لڑکیوں کا کالج جانا ہماری عزت کے خلاف ہے۔" عائشہ کے لیے یہ ایک کڑا امتحان تھا، لیکن اس نے ہار ماننے سے انکار کیا۔ وہ جانتی تھی کہ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے اسے ہمت دکھانی ہوگی۔

عائشہ نے اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے دن رات محنت کی۔ کالج میں داخلہ لینے کے بعد اس نے سائنس کے مضمون کا انتخاب کیا اور اپنی تمام تر توجہ پڑھائی پر مرکوز کر دی۔ تاہم، اس کے دل میں ہمیشہ یہ خوف بھی رہتا تھا کہ اگر اس کے والد کو اس کی تعلیم کے بارے میں پتہ چلا تو وہ اسے واپس بلا کر اس کی تعلیم کو روک دیں گے۔ لیکن عائشہ نے اس خوف کو اپنے عزم کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ وہ جانتی تھی کہ اس کا مقصد صرف اپنی تعلیم مکمل کرنا نہیں ہے، بلکہ وہ اس سے آگے کچھ بڑا کرنا چاہتی تھی۔

کالج کے آخری سال میں عائشہ نے ایک پروجیکٹ شروع کیا جس کا موضوع تھا: "لڑکیوں کی تعلیم کے معاشرتی اثرات۔" اس پروجیکٹ کے ذریعے وہ نہ صرف اپنی تعلیم کو پورا کرنا چاہتی تھی بلکہ وہ ان لڑکیوں کے لیے آواز بھی اٹھانا چاہتی تھی جو معاشرتی پابندیوں کے سبب اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال نہیں کر پاتیں۔ عائشہ کا مقصد یہ تھا کہ وہ معاشرتی تبدیلی کی ایک چھوٹی سی کوشش کرے اور لڑکیوں کے حقوق کے حوالے سے آگاہی بڑھائے۔ اس پروجیکٹ کے ذریعے اس نے یہ ثابت کیا کہ تعلیم لڑکیوں کے لیے بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ لڑکوں کے لیے۔

عائشہ کی مشکلات یہاں ختم نہیں ہوئیں۔ جب وہ یونیورسٹی میں داخلہ لے کر اپنی تعلیم کے سفر میں آگے بڑھ رہی تھی، اس کے والد کو اس کے بارے میں علم ہو گیا۔ اس خبر پر ان کا ردعمل بہت سخت تھا اور فوراً عائشہ کو واپس بلانے کا حکم دیا۔ یہ عائشہ کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا، کیونکہ اس کے دل میں ایک شدید کشمکش جاری تھی: کیا وہ اپنے خوابوں کا پیچھا کرے یا اپنے والد کی مرضی کے آگے جھک جائے؟
اس کی ماں، جو ہمیشہ اس کی حمایت کرتی آئی تھی، ایک مرتبہ پھر اس کے لیے طاقت کا ذریعہ بنیں۔ انہوں نے عائشہ سے کہا، "بیٹی، زندگی ایک قفس ہو سکتی ہے، لیکن تمہارے پاس پرواز کرنے کی طاقت ہے۔ اگر تم نے آج ہار مانی تو یہ قفس ہمیشہ کے لیے تمہارا مقدر بن جائے گا۔" یہ الفاظ عائشہ کے دل میں ایک نئی امید اور ہمت کی لہر پیدا کر گئے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے خوابوں کو کبھی ترک نہیں کرے گی، چاہے اس کے والد کی ناراضگی کا سامنا ہو۔

عائشہ نے اپنے والد کے فیصلے کے خلاف جانے کا عزم کیا۔ اس نے یونیورسٹی میں اپنی تعلیم جاری رکھی اور ہر دن اس کی محنت کا صلہ دینے کے لیے اپنی تمام توانائیاں لگائیں۔ عائشہ ہمیشہ اپنے والد کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتی رہی کہ وہ ان کی عزت کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچائے گی، بلکہ وہ اپنی تعلیم اور کیریئر کے ذریعے اپنے خاندان کا نام روشن کرے گی۔ اس کے والد کا دل نرم کرنے میں وقت لگا، لیکن عائشہ کی لگن اور کامیابیاں آخرکار ان کے دلوں تک پہنچیں۔

عائشہ نے اپنی انجینئرنگ کی ڈگری مکمل کی اور ایک بڑی کمپنی میں نوکری حاصل کی۔ اس کی محنت اور عزم نے نہ صرف اس کی زندگی بدل دی بلکہ اس کے والد کے خیالات میں بھی تبدیلی لائی۔ جب عائشہ نے پہلی بار اپنے والد کو اپنی کامیابیوں کے بارے میں بتایا، تو ان کے دل میں فخر اور محبت کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی۔ وہ اپنی بیٹی کی کامیابی پر فخر محسوس کرتے تھے اور انہیں یہ سمجھ آ گیا کہ لڑکیوں کی تعلیم صرف ان کی زندگی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ عائشہ نے نہ صرف اپنے خوابوں کو حقیقت بنایا بلکہ اپنی محنت سے ایک نئی راہ بھی ہموار کی۔

عائشہ نے اپنی کامیابی کو ان لڑکیوں کے لیے ایک طاقتور پیغام بنا دیا جو معاشرتی پابندیوں اور محدودیتوں کی وجہ سے قفس میں قید تھیں۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، وہ اپنے گاؤں واپس گئی اور وہاں ایک اسکول قائم کیا جہاں لڑکیاں تعلیم حاصل کر سکیں۔ اس اسکول کا مقصد صرف پڑھائی نہیں تھا بلکہ ان لڑکیوں کو اپنے خوابوں کی تعبیر کا موقع فراہم کرنا تھا۔

عائشہ نے ثابت کر دیا کہ زندگی واقعی ایک قفس بن سکتی ہے، لیکن اگر انسان کے اندر ہمت اور حوصلہ ہو، تو وہ اس قفس سے نکل کر اپنی مرضی کی دنیا بنا سکتا ہے۔ عائشہ کی جدوجہد اور کامیابی نے نہ صرف اس کی اپنی زندگی بدلی، بلکہ اس نے دوسروں کی زندگیوں میں بھی روشنی پیدا کی۔
 

SALMA RANI
About the Author: SALMA RANI Read More Articles by SALMA RANI: 43 Articles with 19118 views I am SALMA RANI . I have a M.PHILL degree in the Urdu Language from the well-reputed university of Sargodha. you will be able to speak reading and .. View More