نیکیوں کے باوجود رب تعالیٰ کی پکڑ

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
جب ہم اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی جب جب اور جس جس موقع پر جن جن لوگوں نے اور قوموں نے کی تو اللہ تعالیٰ نے کس طرح عذاب میں مبتلا کرکے اپنی پکڑ میں لیا لیکن اس دنیا میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے کئی بندے ایسے بھی گزرے ہیں جو اپنے رب تعالیٰ کے احکامات کی پیروی اس کے حبیب کریمﷺ کی باتوں پر عمل پیرا ہوکر اپنی زندگی گزارتے ہیں لیکن دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ان کی بڑی سخت پکڑ ہوئی آخر کیوں ؟ تاریخ اسلام میں ہمیں کئی ایسے لوگوں کا ذکر بھی ملتا ہے جو اپنی زندگی میں بڑے نیک اور پرہیزگار ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا کوئی ایسا عمل جن کا انہیں اندازا نہیں ہوتا اور وہ ان سے سرزد ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کے انتقال کے بعد اپنی پکڑ میں تو لےلیتا ہے لیکن ان کی نیکیوں کے سبب انہیں یہ مہلت ملتی ہے کہ وہ اس پکڑ سے نجات حاصل کرلیں اس سلسلے کا واقعہ بھی آج کے مضمون میں شامل ہے جو آگے جاکر آپ کو پڑھنے کے لیئے ملے گا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اصل میں ہم یہ تو مانتے ہیں کہ رب تعالیٰ بڑا غفور الرحیم ہے لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ جبار بھی ہے وہ قہار بھی ہے ہم اپنے روزانہ کے معمولات میں جہاں ہمیں موقع ملتا ہے تو ہم کوئی نہ کوئی نیک کام کرتے ہیں وہاں کئی کام ایسے بھی سرزد ہوجاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا سبب بھی بن جاتے ہیں اور ہمیں اس کا اندازہ تک نہیں ہوتا اور ہم اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آجاتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ البروج آیت 12 میں ارشاد فرمایا

اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِیْدٌ(12)
ترجمعہ کنزالایمان::
بے شک تیرے رب کی گرفت بہت سخت ہے

لہذہ بالکل اسی طرح جیسے ایک شخص جو اللہ کے بہت زیادہ نیکوکار ، دیانتدار اور پرہیزگار انسان تھےاور لوگوں میں کافی پسند کیئے جاتے تھے اس علاقے کے لوگ اکثر ان کی دعوت کیا کرتے کیونکہ لوگوں کا یہ ماننا تھا کہ ان کے قدم ہمارے گھروں میں پڑنے سے برکت ہوجاتی ہے پھر وقت کے ساتھ ساتھ جب وہ بیمار ہوئے تو لوگوں کی لمبی قطاریں لگ گئی اس کی عیادت کے لیئے لیکن وہ بچ نہیں سکے اور دنیا سے رخصت ہوگئے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ان کے انتقال کے چند روز بعد کسی نے انہیں خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا تو رونے لگے کہ میں تو اللہ تعالیٰ کی بڑی سخت پکڑ سے گزر رہا ہوں تو خواب دیکھنے والا پریشان ہوگیا اور کہنے لگا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے بڑے نیک انسان تھے پھر یہ پکڑ کیسی ؟ تو کہنے لگے کہ اصل میں میں ایک دعوت میں گیا ہوا تھا دعوت میرے گھر کے قریب ہی تھی بس راستے میں ایک چھوٹا سا سنسان اور جنگل کا علاقہ تھا لہذہ میں اپنے کچھ دوستوں کے ہمراہ پیدل ہی چلا گیا کھانے سے فارغ ہوکر جب وہاں سے نکلا اور ہم جب واپس گھر کی طرف چلے تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے دانتوں میں کچھ پھس گیا ہے اور چلتے چلتے جب خلال کی حاجت بڑھ گئی تو راستے میں ایک کچا مکان نظر آیا جس کی چھت چٹائی کی تھی میں اسی وقت آگے بڑھا اور اس چٹائی سے ایک تنکہ نکال کر خلال کیا اور تنکہ وہیں پھینک دیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اس مکان کے مالک سے پوچھے بغیر وہ تنکہ کیوں لیا اور استعمال کے بعد بھی بجائے اسے واپس کرنے کے وہیں پھینک دیا بس میری اس غلطی پر میری پکڑ ہوگئی ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب اندازہ لگایئے کہ ہم اپنی زندگی کے روز مرہ کے معمولات میں ایسی کتنی غلطیاں کرجاتے ہیں کتنی خطائیں اور کتنے ایسے گناہ کرجاتے ہیں کہ ہمیں دین سے دوری کے سبب علم ہی نہیں ہوتا اور پھر اللہ تعالیٰ کسی کو اس دنیا میں یا پھر بروز محشر پکڑ میں لے لیتا ہے اور اس کی ساری عبادات اور نیکیاں اس وقت تک ضائع رہتی ہیں جب تک سامنے والا یعنی مالک معاف نہ کرے اسی لیئے ہمارے اسلاف نے ہمیں ہر قدم پر یہ نصیحت کی کہ ہم اپنے کام کو صرف رب تعالی کی رضا کے لیئے کرنے کی عادت بنالیں کیونکہ جو کام ہم اللہ رب العزت کی رضا کی خاطر کرتے ہیں وہ کام ہمارے لیئے بجائے پکڑ کے نجات کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آج کے معاشرے میں ہم دن رات لوگوں کو دھوکا دینے لوگوں کا مال ہڑپنے لوگوں کا دل دکھانے اور لوگوں کی غیبت و چغلی میں مصروف عمل رہتے ہیں اور ہمیں یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ایسے اعمال کی معافی بھی اللہ تعالیٰ اس وقت دے گا جب تک لوگ ہمیں معاف نہیں کردیتے ہمارے فقہاء کی دی ہوئی تعلیمات کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایسے کئی لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی نیکیوں میں گزاری لیکن اللہ تعالیٰ کے ناراضگی والے یہ اعمال ان کی پکڑ کا سبب بنے ایسا ہی ایک واقعہ یہاں میں تحریر کرنے کی سعادت حاصل کروں گا جو پچھلے واقعہ سے ملتا ضرور ہے مگر لیکن اس میں اللہ تعالیٰ کی پکڑ کچھ مختلف انداز سے ہوئی پڑھیئے اور اس واقعہ سے ملنے والے سبق سے کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ کی اس کائنات میں ایک شخص ایسا بھی تھا جو انتہائی نیک اور پرہیزگار تھا اپنے نیک کاموں اور اچھے اخلاق کی بدولت لوگوں میں وہ بڑی عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا کئی لوگ اس سے مرید بھی ہوئے لیکن جب اس دنیا میں گزارنے والی زندگی کا مقررہ وقت پورا ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے واپس اپنے پاس بلایا یعنی اس کا انتقال ہوگیا انتقال کے کچھ عرصہ بعد ایک مرید کو خواب میں ان کا دیدار ہوا تو وہ بہت پریشان دکھائی دے رہے تھے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے کسی ایسے عمل سے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند تھا پکڑ میں لے لیا ہے تو مرید نے کہا کہ آخر ایسا کیا گناہ سرزد ہوگیا تو کہنے لگا کہ ایک دفعہ میں اپنے پھٹنے ہوئے کرتے کی سلائی کرنے کے لیئے بیٹھا تو دیکھا کہ میرے پاس سوئی نہیں ہے تو میں نے پڑوس سے سوئی مانگی اور اپنا کرتا سینے لگا جب کرتا سل گیا تو میں نے یہ سوچ کر کہ ایک دو دن میں یہ سوئی واپس کردوں گا ایک جگہ رکھ دی لیکن اگلے ہی دن میرا انتقال ہوگیا میرے اس سوئی کو اپنے مالک کو واپس نہ کرنے کے جرم میں اللہ تعالیٰ نے میری پکڑ فرمائی لہذہ جب اس مرید کی آنکھ کھلی تو بھاگا ہوا اپنے پیر صاحب کے گھر پہنچا اور سوئی مانگی بڑی مشکل سے اسے سوئی ملی اور اسی وقت پڑوسی کے پاس پہنچا اور سارا ماجرا بیان کیا اور کہا کہ اللہ کی رضا کے لیئے آپ انہیں معاف کردیجیے تو انہوں نے معاف کردیا تب جاکر اللہ تعالیٰ نے انہیں بخش دیا اور وہ اللہ کی پکڑ سے آزاد ہوگئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ ایک حقیقت ہے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے جب ہم کسی کے ساتھ کوئی جانے انجانے میں زیادتی کر لیتے ہیں تو بروز قیامت جب تک وہ ہمیں معاف نہیں کرتا ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی معافی نہیں ملے گی اس لیئے ہمارے اسلاف کہتے ہیں کہ زندگی میں جیتے جی سب کو معاف کردو اور جس جس کے ساتھ زیادتی کی ہے اب وہ چاہے سنجیدگی میں کی ہو ، مذاق میں کی ہو یا کسی اور مقصد سے اس سے جاکر معافی مانگ لو کیونکہ اگر اس نے معاف نہ کیا تو بروز قیامت بہت مشکل ہوگی اور اگر ایسا نہ ہوا تو اللہ رب العزت کی پکڑ بڑی سخت ہے اس لیئے زندگی کے ہر لمحہ میں ہر قدم پر اور ہر عمل میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کے حبیب کریمﷺ کی ناراضگی کا خیال رکھتے ہوئے آپنا قدم بڑھائیں تاکہ بروز قیامت آپ کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آنے کی بجائے آپ کی نجات کا ذریعہ بن جائے۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دراصل نیکیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دنیاوی اعتبار سے ہم جب کوئی نیک عمل کرتے ہیں یا عبادت کرتے ہیں تو وہ خالصتاً اللہ کی رضا کے لیئے کرنے کی بجائے لوگوں کے دکھاوے کے لیئے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لہذہ لوگوں کی نظروں میں ہم نیک اور پرہیزگار ہوتے ہیں لیکن اللہ رب العزت یا تو دنیا میں یا پھر بعد مرنے کے ہمیں اپنی پکڑ میں لے لیتا ہے جیسے قرآن مجید کی سورہ النساء کی آیت 142 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْۚ-وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰىۙ-یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا(142)
ترجمعہ کنزالعرفان::
بیشک منافق لوگ اپنے گمان میں اللہ کو فریب دینا چاہتے ہیں اور وہی انہیں غافل کرکے مارے گا اور جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں توبڑے سست ہوکر لوگوں کے سامنے ریاکاری کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں اور اللہ کو بہت تھوڑا یاد کرتے ہیں ۔

اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص ساٹھ سال تک نماز پڑھتا ہے، مگر اس کی ایک نماز بھی قبول نہیں ہوتی۔ پوچھا گیا وہ کیسے ؟انہوں نے کہا: کیوں کہ نہ وہ رکوع پورا کرتا ہے اور نہ سجود،نہ قیام پورا کرتا ہے اور نہ اس کی نماز میں خشوع ہوتا ہے۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہم اکثر یہ بات سنتے اور پڑھتے ہیں کہ عالم دین ، خافظ قرآن ، مفتی ، امام مسجد اور شہید وغیرہ یہ سارے لوگ جنتی ہیں بیشک یہ بات کسی حد تک صحیح ہے لیکن یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے منصب اور عہدے کا استعمال صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیئے کیا ہو انہیں جو منصب ملا ہوا ہوتا ہے اس کا استعمال اپنی آخرت کی بھلائی کے لیئے استعمال کرتے ہیں جبکہ جو لوگ دنیاوی دکھاوے اور ریاکاری کے سبب اپنے منصب کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بغیر خشوع و خضوع کے لوگوں کے سامنے نیکوکار اور پرہیزگار بنتے ہیں ان کی ان نیکیوں اور نیک اعمال کے باوجود اللہ رب العزت کی طرف سے بڑی سخت وعید ہے بڑی سخت پکڑ ہے ایسے لوگوں کی ان کی ساری عبادات اور نیک اعمال ان کے منہ پر ماردی جائیں گی ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا:’’انسانوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہوں گے،لیکن وہ نماز نہیں ہوگی۔ ‘‘۔اب زرا غور کریں کہ کیا آج کا وقت وہ وقت نہیں ہے اسی طرح حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ نے ایک دفعہ ایک حاجی سے حج کی واپسی پر تمام مناسک حج میں دل میں پیدا ہونے والی کیفیات کے بارے پوچھا تو اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ میرے دل میں تو ایسی کیفیات پیدا نہیں ہوئی تو آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ تمہارا حج نہیں ہوا دوبارہ حج کرو اصل میں جب تک ہم اپنے کسی بھی نیک عمل میں اس کے آداب اور اپنے دل کے اندر پیدا ہونے والی کیفیات کا خیال نہیں رکھتے تب تک ہماری کوئی نیکی نیکی نہیں ہے نیک اعمال صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور دل کی خوشی اور پوری طرح سے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق کرنے چاہئے ورنہ ان نیک اعمال کے باوجود ہم اللہ تعالیٰ کی سخت پکڑ کا شکار ہو جائیں گے اور ہمارے نیک اعمال ہمارے کسی کام کے نہیں ہوں گے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دنیاوی زندگی میں کیا ہوا کوئی بھی نیک عمل اس وقت قابل قبول نہیں جب تک ہم وہ کام خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیئے نہ کریں دنیاوی دکھاوے اور ریاکاری سے بچتے ہوئے جیسے ایک شخص نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللّٰہ اللہ رب العزت نے جنت بھی بنائی اور جہنم بھی تو وہ کون لوگ ہیں جو سب سے پہلے جنت میں جائیں گے اور وہ جو جہنم میں جائیں گے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بتائو تمہارے گھر کے نزدیک کوئی مسجد ہے تو عرض کیا جی ہاں تو فرمایا کہ صبح فجر سے کچھ وقت پہلے اس مسجد کے قریب چھپ کر بیٹھ جانا اور دیکھنا کہ جو شخص سب سے پہلے مسجد میں داخل ہوگا وہ جنتی ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس شخص نے ایسا ہی کیا پھر اس نے دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص آیا اس نے مسجد کا دروازہ کھولا اندر جا کر جھاڑو لگائی پھر وضو کرکے اذان دی یوں جماعت کے وقت نماز ادا کرکے وہ باہر آگیا جب زرا سورج چڑھا تو وہ شخص دوبارہ حضورکریمﷺ کے پاس حاضر ہوگیا اور عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم میں جنتی کو دیکھ لیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ صبح پھر سے یہ ہی عمل دھرانا کیونکہ صبح جو سب سے پہلے آئے گا وہ جہنمی ہوگا تو وہ اگلی صبح پھر جا کر بیٹھ گیا اس نے دیکھا کہ وہ ہی بوڑھا شخص آیا اور اس نے سارے وہ ہی عمل دہرائے جو گزشتہ کیئے تھے وہ حیران ہوگیا کہ کل یہ جنتی تھا اور جہنمی یہ کیا ماجرا کیا ہے ؟

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس کا دماغ کام نہیں کررہا تھا تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے حاضر ہوگیا اور عرض کرنے لگا یارسول اللہ ایسا نمازی پرہیزگار شخص جو جنتی تھا اور اگلے ہی جہنمی ہوگیا آخر کیوں ؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دراصل کل اس نے جو کچھ بھی کیا وہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیئے کیا تھا لیکن آج اسے شک ہوگیا کہ اسے کوئی دیکھ رہا ہے لہذہ اس نے آج سارے عمل اسے دکھانے کے لیئے کیئے یعنی وہ ریاکار بن گیا اس لیئے اس کی عبادت اللہ تعالیٰ نے اس کے منہ پر مارتے ہوئے اسے جہنمی بنادیا کہ دکھاوے کی عبادات رب تعالی کو نہ پسند ہے اور نہ ہی قبول ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بات وہ ہی آجاتی ہے کہ دنیا میں آپ کتنے ہی عبادت گزار ، نیکوکار اور پرہیزگار بن کر زندگی گزارتے ہیں لیکن آپ کی نیت میں اگر ریاکاری کا عنصر شامل ہے تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آجائو گے اور بیشک اللہ تعالیٰ کی پکڑ بڑی سخت ہے لہذہ اپنا ہر کام صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیئے کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے ہم محفوظ رہ سکے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے صرف وہ ہی کام لے جس میں اس کی رضا شامل ہو اپنے احکامات پر عمل پیرا ہونے اور اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے مجھے سچ لکھنے ہم سب کو پڑھنے ، سمجھنے اور سمجھ کر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 173 Articles with 141061 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.