جمعہ نامہ:کفر و اسلام کا فرق

ارشادِ ربانی ہے:’’ بھلا وہ شخص جو مُردہ (یعنی ایمان سے محروم) تھا پھر ہم نے اسے (ہدایت کی بدولت) زندہ کیا اور ہم نے اس کے لئے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لئے) چلتا ہے‘‘خالق کائنات نے نوروظلمات کی تمثیل سے استفہامیہ انداز میں بنی نوعِ انسانی کو غوروفکر کی دعوت دی ہے۔ یہاں ایمان و ہدایت کوحیات اور کفر و ضلالت کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ انسانی زندگی صرف کھانے ،پینے ،سونے اور افزائش نسل جیسی جبلی ضروریات کی تکمیل کا نام نہیں ہے اس لیے کہ وہ تو حیوان بھی کرتے ہیں ۔ عقل و شعور کے حامل فردکاقلب ہدایت الٰہی سے معمور ہوتا ہے۔ وہ نفسیاتی آلائشوں سے آزاد ہوکر حق کی معرفت حاصل کرلیتا ہے۔ اس کے لیےذوق اور عادت کی رکاوٹ قبولیتِ حق کی راہ میں حائل نہیں ہوتیں۔ حق کی روشنی کا یہ مسافر دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیتا ہے۔

اس آیت میں آگے تقابل کرتے ہو فرمانِ فرقانی ہےکہ کیا وہ اہل ایمان :’’ اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ (وہ جہالت اور گمراہی کے) اندھیروں میں (اس طرح گھِرا) پڑا ہے کہ اس سے نکل ہی نہیں سکتا‘‘۔ ہدایت الہی سے محرومی انسان کو ایک چلتی پھرتی لاش میں تبدیل کردیتی ہے ۔ اوہام وتعصبات سے پراگندہ قلب و ذہن اشیاء کی ماہیت سے بے خبر ہوجاتا ہے ۔ رسوم و رواج کا جال اشرف الخلوقات کو کسی متبادل پر عقیدہ و نظریہ کی جانب متوجہ ہونے نہیں دیتا۔ کبرو غرور اس کی راہ کا ایسا روڑہ بن جاتا ہے کہ وہ خود ساختہ چیزوں کو خدا کا مذہب بتا کر عوام کا مرجع بننے کی سعی کرتا ہے۔ دین حق کی پکار کو اپنے خلاف بغاوت قرار دے کر اس کی دشمنی پر تُل جاتا ہے۔وہ عدمِ تحفظ کا شکار ہوکر دعوتِ حق کے خلاف پہلے تو شکوک و شبہات کےشوشے چھوڑتا ہے پھر داعی کی ذات کو بدنام کرنے کی کوشش کرتاہے بالآخر تعذیب پر اتر جاتا ہے۔

کفرو گمراہی کے ان علمبرداروں اور ان کے پیروکاروں کو کتاب اللہ میں مردہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور ان کے اپنے حال میں مست رہنے کی یہ وجہ بتائی گئی ہے کہ: ’’اسی طرح کافروں کے لئے ان کے وہ اعمال (ان کی نظروں میں) خوش نما دکھائے جاتے ہیں جو وہ انجام دیتے رہتے ہیں‘‘۔اعمال کی خوشنمائی کے حوالے سے سورۂ انفال میں ارشادِ قرآنی ہے:’’اور جب شیطان نے ان (کافروں) کے لئے ان کے اَعمال خوش نما کر دکھائے اور اس نے (ان سے) کہا: آج لوگوں میں سے کوئی تم پر غالب نہیں (ہو سکتا) اور بیشک میں تمہیں پناہ دینے والا (مددگار) ہوں۰۰۰۔‘‘ اسی موضوع پرسورۂ فاطر میں کتابِ الٰہی سوال کرتی ہے:’’ (بھلا کچھ ٹھکانا ہے اُس شخص کی گمراہی کا) جس کے لیے اُس کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہو اور وہ اُسے اچھا سمجھ رہا ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے‘‘۔ساتھ ہی داعیٔ حق کو تسلی دی گئی کہ:’’ پس (اے نبیؐ) خواہ مخواہ تمہاری جان ان لوگوں کی خاطر غم و افسوس میں نہ گھلے جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اُس کو خوب جانتا ہے‘‘۔

ابلیس کے پیروکاروں کو اس طرح بھی دعوتِ فکر دی گئی ہے کہ :’’اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہے ۔نہ تاریکیاں اور روشنی یکساں ہیں ۔ نہ ٹھنڈی چھاؤں اور دھوپ کی تپش ایک جیسی ہے ۔ اور نہ زندے اور مردے مساوی ہیں اللہ جسے چاہتا ہے سنواتا ہے‘‘ْ۔ سورۂ ہود میں کافر و مسلم کے فرق کو اس مثال کے ذریعہ ترغیب دی گئی ہے کہ:’’ دونوں فریقوں کی مثال اندھے اور بہرے اور (اس کے برعکس) دیکھنے والے اور سننے والے کی سی ہے۔ کیا دونوں کا حال برابر ہے؟ کیا تم پھر (بھی) نصیحت قبول نہیں کرتے‘‘۔اس آفاقی حقیقت سے عوام الناس کو روشناس کرانا اہل ایمان کی ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کے ادا کرنے والے داعیانِ اسلام کو مایوسی سے بچانے کےلیے نبی اکرم ﷺ کے توسط سے یہ رہنمائی کی گئی کہ : ’’مگر (اے نبیؐ)آپ اُن لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں مدفون ہیں آپ تو بس ایک خبردار کرنے والے ہیں ‘‘۔

اس کے ساتھ اہل ایمان کو بشارت دی گئی ہےکہ:’’ جو لوگ ایمان لاتے ہیں، اُن کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں، اُن کے حامی و مدد گار طاغوت ہیں اور وہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ کفرو اسلام کے درمیان یہ فرق عملی زندگی میں بھی آئے دن نظر آتا ہے۔ پچھلے دنوں بھوپال میں تبلیغی جماعت کے عالمی اجتماع کا انعقاد ہوا جس میں لاکھوں فرزندانِ تو حید نے شرکت کی۔ وہ سارے لوگ امن و سکون کے ساتھ آئے اور بغیر کسی شورو غل کے دین کی اچھی اچھی باتیں سیکھ کر لوٹ گئے ۔ اسی طرح آج کل اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتیؒ کی درگاہ پر ہر دن ہزاروں زائرین آرہے ہیں اور بلا کسی دنگا فساد کے روحانی فیوض و برکات حاصل کررہے ہیں ۔

اس کے برعکس پریاگ راج میں کمبھ میلے کو دیکھیں جو ہندو مسلم منافرت، دھونس دھمکی، دنگا فساد، گالی گلوچ ،الزام تراشی اور اوچھی سیاست کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ کوئی ’ڈروگے تو مروگے ‘ کا پوسٹر لگاتا ہے مجبوراً انتظامیہ کو اسے ہٹانا پڑتا ہے۔ اس کے بعد کوئی عتیق احمد کے قاتلوں کو ہندو سمراٹ بنا دیتا ہے۔ اس بینر سے نجات ملتی ہے تو کسی گنگا کی آلودگی سے پریشانی ہوجاتی ہے۔ اس درمیان کہیں وزیر اعلیٰ کے ناتھ فرقے سے تعلق رکھنے والے سادھووں کی انکے اپنے صوبے میں پٹائی ہوجاتی ہے ۔ اس فتنہ و فساد سے علی الرغم سادھو سنتوں کے جو کارنامے سوشیل میڈیا کی زینت بن رہے ہیں ان کو دیکھنے کے بعد یہ پورا میلہ ایک رنگا رنگ تماشا لگتا ہے۔اہل ایمان کے روح پرور اجتماعات اور کمبھ میلے کا فرق جن لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہا ہو انہیں سورۂ ملک اس آیت پر غور کرنا چاہیے:’’ بھلا سوچو، جو شخص منہ اوندھائے چل رہا ہو وہ زیادہ صحیح راہ پانے والا ہے یا وہ جو سر اٹھائے سیدھا ایک ہموار سڑک پر چل رہا ہو؟‘‘

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2130 Articles with 1499717 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.