کائنات میں اس سے بڑی حقیقت اور کیاہوگی کہ کربلامیں
شہادت حسین۴ نے جہاں اسلام کو زندگی دی اسکے بعدسے مختلف روحانی مراحل طے
کرتے ہوئے اسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے صوفیائے کرام نے خلوص و محبت سے
کام کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی اس کا نتیجہ ہے کہ اسلام مختصر مدت میں
عالم پر چادر نور بن کر چھا گیا اور ہر ذی شعور اس سے اکتسابِ فیض کیا ،
حضرت داتا علی ہجویری کشف المحبوب میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت
کی نشانیوں کو آج تک باقی رکھا ہے اور اپنے اولیاء کو اس کے اظہار کا ذریعہ
بنایا ہے تاکہ توحید الٰہی اور نبوت ۖ کے براہن ہمیشہ ظاہر رہیں اللہ تعالیٰ
نے اپنے اولیاء کرام کو کائنات کا والی بنایا ہے اور وہ دنیا میں ذکر الٰہی
اور اس کی دلیل بن گئے ہیں ، انہوں نے نفس کی پیروی چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی
بندگی اختیار کرلی ہے ، عقیدت کی وسعت سمندر سے زیادہ گہری ہوتی ہے اور جب
بات تصوف کی ہو تو عقیدت کی معراج رضا الٰہی سے آسمان کی وسعتوں کو چھونے
لگ جاتی ہے ایسے عقیدت مندوں کے اس ولی کا ذکر اس عظیم شعر سے کرنا چاہوں
گا
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
سرداد نداد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا اللہ است حسین
خالق کائنات رب العالمین نے انسانیت کے محسن اعظم ، ہادی رحمت مجسم رسول
اللہ ۖ کی امت میں ہر دور میں ایسے افراد مبعوث فرمائے ، جنہیں اللہ نے
اپنے خصوصی انعام و اکرام سے نوازا اور ان سے امت کی ظاہری و باطنی اصلاح
کا بندوبست فرمایا انہی بر گزیدہ ہستیوں میں سے حضرت خواجہ معین الدین چشتی
کا نام بھی آتا ہے ۔ آپ کے والد کا اسم گرامی غیاث الدین حسن اور والدہ
ماجدہ کا نام سیدہ ام الورع بی بی تھا ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی
شادی 590ہجری 1194ء کو بی بی امت کے ساتھ ہوئی ، آپ کے دو بیٹے اور ایک
بیٹی تھی آپ کے پیرو مرشد حضرت خواجہ شیخ عثمان ہارونی سے آپ کو بہت محبت
اور عقیدت تھی ، اس کی محبت اور عیقدت کو دیکھ کر خواجہ عثمان ہارونی نے آپ
کو (امیر تبرک) کے شرف سے نوازا آپ کو اپنا سجادہ نشین مقرر فرمایا ، خواجہ
غریب نواز معین ا لدین چشتی اجمیری نے اپنے گفتار اور اپنے کردار سے ایک
معیاری زندگی کا نمونہ پیش کیا ، وہ عشق الٰہی میں ایسے سرمست و سرشار تھے
، ان کو اپنی ہستی کا پتہ نہیں تھا ، پاک و ہند کے اولیاء اکرام ، صوفیائے
، عظام میں سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی کو سب سے منفرد اور بلند
مقام حاصل ہے ، آپ کو نائب الرسول فی الہند ۖ کے عظیم لقب سے بھی یاد کیا
جاتا ہے ، آپ کی مکمل زندگی نکات طریقت کا نمونہ تھی ، حقیقت و معرفت کا
آئینہ تھی ، معرفت الہیہ کا سرچشمہ تھی ، آپ نے اپنی روحانی طاقت سے اپنا
ایثار خلوص اور رواداری سے ایک نئے سماج کی تشکیل کی ،اجمیر راجھستان کی
راجھستانی سے 130کلومیٹر کا فاصلے پر نیشنل ہائی الرٹ اور آراولی پہاڑی کے
خوبصورت دامن پر واقع ہے ، بغداد سے واپسی پر خواجہ غریب نواز 1156عیسوی
میں حرم شریف پہنچے خواجہ عثمان ہارونی نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر دعا کی اللہ
تعالیٰ کی منظوری آئی کہ ّہم نے معین الدین کو قبول کیا ، خواجہ غریب نواز
معین الدین چشتی سے مریدوں کے بارے میں کچھ نام تاریخ میں آتے ہیں ، سب سے
پہلے مرید اور سجادہ نشین حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کا نام آتا ہے
، ۔ خواجہ فخر الدین ، خواجہ محمد یادگار چشتی ، خواجہ علاؤ الدین نیلی
چشتی۔حضرت خواجہ نصیر الدین چشتی کے نام آتے ہیں خواجہ غریب نواز معین
الدین چشتی سے منسوب تصانیف اور عملی نگارشات کو تذکرہ نویسوں سے یوں شمار
کیا ہے ، انیس الارواح ، حدیث المعارف ، کشف الاسرار ، تہنج الاسرار ،
رسالہ آداب ، سیر العارفین ، مسالک الساکین ، مرقعہ خواجگان اور مراة
الاسرار شامل ہیں ، سلسلہ چشتیہ کے عیقدت مندوں کی زباں پر ایک شعر ضرور
ہوتا ہے ۔
الہٰی تابود خورشید و ماہی
چراغ چشتیہ رار و شنائی
اے اللہ تعالیٰ جب تک چاند اور سورج کی روشنی باقی ہے ، سلسلہ چشتیہ کے
چراغ کو روشن رکھ ۔
سلسلہ چشتیہ کے عقیدت مندوں کی پاکستان میں کوئی کمی نہیں ہے کراچی
،حیدرآباد سمیت پورے پاکستان میں عرس مبارک حضرت خواجہ معین الدین چشتی
نہایت عقیدت واحترام سے منا جاتا ہے جس میں یادگار چشتیہ منزل چوک حیدرآباد
بھائی خان چاڑی پر سالانہ عرس مبارک کی 6 روزہ تقریبات کا آغاز یکم رجب سے
بعد نماز عشا قرآن خوانی و نعت خوانی سے شروع ہوتا ہے جو چھٹی شریف تک جاری
وساری رہتا ہے عرس شریف کی تقربیات کا آغاز حضرت مخدوم احمد چشتی گدی نشین
آستانہ عالیہ اجمیر شریف کی رہائش گاہ واقع چوک بھائی خان چاڑی میں ہوتا ہے
مرحوم حافظ ایس مطلوب احمدچشتی کے صاحبزادے منہاج احمد چشتی (جنرل
سیکریٹری) غلام شبر چشتی،(جوائنٹ سیکریٹری) سید حافظ مسعود احمد چشتی انجمن
یاد گار چشتیہ خدام خواجہ معین الدین حسن چشتی کی زیرنگرانی محفل سماع وذکر
غریب نواز منعقد ہوتا ہے جس میں شہرمعززین کے ساتھ عقیدت مندوں کی بڑی
تعداد شرکت کرتی ہیں بر صغیر پاک و ہند میں حضرت خواجہ غریب نواز معین
الدین چشتی حسن سنجری اجمیریؒ کو سلسلۂ چشتیہ بانی کی حیثیت سے صدیوں سے
جانا اور مانا جاتا ہے آپ کا وصال 6رجب 632ھ بروز پیر نمازِ عشاء کے بعد
ہوا ہر سال آپ کا عرس یکم رجب سے شروع ہوکر 6رجب تک جاری رہتا ہے اور نہایت
عیقدت و احترام سے منایا جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام پر مکمل عمل
کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے پیرو مرشد کی طرزِ فکر کو عام کرنے میں
ہماری مدد فرمائے ۔ (آمین)
|