ہماری زندگی پر احادیث کا اثر ( چودھویں حدیث)

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
ہماری زندگی پر احادیث کا اثر کے عنوان سے اب تک میں آپ تک تیرا احادیث اور ان کا خلاصہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرچکا ہوں آج اس سلسلے کی حدیث نمبر 14 یعنی چودھویں حدیث لے کر حاضر خدمت ہوں جو حدیث کی معروف کتاب مسند احمد سے لی گئی ہے اور جو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت میں ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
" اگر چار چیزیں اور خصلتیں تمہارے اندر ہوں تو اگر ساری دنیا بھی چھوٹ جائے تو کوئی حرج نہیں، امانت کی حفاظت، بات میں سچائی، اخلاق کی عمدگی اور کھانے میں پاکیزگی "
(مسند احمد 6652)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آج ہم ان چار خصلتوں یعنی عادتوں کا مختصر مگر جامع انداز میں ذکر کریں گے حضور اکرم ﷺ نے پہلی جس خصلت کا ذکر کیا ہے وہ ہے
1۔ امانت کی حفاظت::
امانت کہتے ہیں سلامتی اور کسی چیز کو محفوظ کرنے کو یا وہ چیز (نقد ، جنس یا بات) جو کسی کو (جوں کی توں واپس لینے یا محفوظ رکھنے کے لیے سونپی جائے، کسی کی حفاظت میں دی ہوئی چیز کو امانت کہتے ہیں جب ہم ایمانداری کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے ہم ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا ذکر خیر کریں گے کیونکہ
ربِّ کریم نے اپنے حبیب کو جہاں مُعَلّمِ کائنات بنایا وہیں آپ کے انداز و کردار کو بھی ہمارے لئے کامل نمونہ قرار دیا ہے، آپ کی مبارک سیرت کا ایک بہت ہی شاندار پہلو امانت و دیانت بھی ہے۔حضور خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شانِ امانت و دیانت شروع سےمشہور تھی،اعلانِ نبوت سے پہلے بھی آپ اِس خوبی سے جانےجاتے تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی عمر مبارک 25 سال کی ہوئی تو امین (امانت دار) کے لقب سے لوگ جاننے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی دیانتداری اور ایمانداری کے کفار اور مشرک بھی قائل تھے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اعلان نبوت سے قبل شہر مکہ کی انتہائی معزز ، مالدار اور عقلمند خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جنہیں اپنے سامان تجارت کی ترسیل کے لئے کسی ایماندار شخص کی تلاش تھی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور ﷺ کے حسن و اخلاق اور سچائی کے ساتھ ساتھ صفت ایمانداری سے بھی بخوبی آگاہ تھی لہذہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو پیغام بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم میری جانب سے آپ کو سامان ِ تجارت کے ساتھ شام بھیجنےکی پیشکش کا سبب وہ بات ہے جومجھے آپ کی (سچی) گفتگو، امانت داری اور اعلیٰ اخلاق کے بارے میں پہنچی ہے، اگر آپ یہ پیشکش قبول فرمالیں تو میں آپ کودیگر کے مقابلے میں دگنا مُعاوَضہ دوں گی۔ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِسے قبول فرمایا اور پہلے سے کئی گنا زیادہ نفع ہوا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی ایمانداری کو دیکھ کر لوگ اپنا سامان صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو بطور امانت دکھاتے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو مکہ سے مدینہ حجرت کرنا پڑی تو آپﷺ لوگوں کے سامان کی وجہ سے بڑے پریشان ہوئے گویا آپﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ لوگوں کا مال ان تک پہنچائیں یہاں ہمیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ایمانداری کا بھی پتہ چلتا ہے لہذہ حضورﷺ اور بعد میں آنے والے خلفاء راشدین ، تابعین تبہ تابعین اولیاء کرام اور بزرگان دین بھی ایمانداری کی خوبی سے سرشار نظر آتے ہیں جبکہ یہ سلسلہ آج بھی قائم ہے اور رہتی قیامت تک یہ ایمانداری کا سلسلہ جاری و ساری رہے گا ان شاءاللہ
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں امانت کی حفاظت کے حوالے سے ایک معروف واقعہ میں نے پڑھا جو بڑا حیرت انگیز اور ناقابل یقین واقعہ تھا لہذہ میں اس واقعہ کو آج کے مضمون کا حصہ بنانے کی سعادت حاصل کروں گا یہ واقعہ پانچویں صدی کے مشہور ولی صفت انسان قاضی ابوبکر محمد ابن عبدالباقی انصاری علیہ الرحمہ کے بارے میں ہے جو انہوں نے خود اپنی زبانی سنایا تھا فرماتے ہیں کہ وہ مکہ معظمہ میں مقیم تھے غربت کا زمانہ تھا فقر و فاقہ کی زندگی تھی ایک دن بھوک سے بیقرار گھر سے نکل گیا کہ شاید کچھ کھانے کو مل جائے ابھی گلی سے گزر رہا تھا تو ایک خوبصورت تھیلا زمین پر پڑا ہوا تھا میں اٹھایا اور دیکھا تو اس میں ایک قیمتی موتیوں والا ہار تھا میں اسے گھر لے گیا اور بحفاظت رکھ کر واپس گھر سے نکلا ابھی تھوڑا ہی آگے بڑھا تھا کہ ایک بزرگ شخص لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ میرا قیمتی ہار گم ہوگیا ہے اگر کسی کو ملے تو مجھے دے دے میں اسے پانچ سو اشرفیاں بطور تحفہ دوں گا آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں آگے بڑھا اور انہیں اپنے ساتھ گھر لے گیا راستے میں یہ سوچتا رہا کہ انعام کی رقم میرا حق ہے یا نہیں کیونکہ مجھے تو وہ ملا تھا اگر میں واپس نہ کروں تو گناہگار ہو جائوں گا امانت میں خیانت کرنے والا بن جائوں گا
بہرحال گھر پہنچا، پہچان کرانے کے بعد ہار اُن کے حوالے کر دیا ، بزرگ بہت خوش ہوئے اور پانچ سو اشرفی بطور تحفہ میرے حوالے کرنے لگے، میں عجیب کشمکش میں تھا کہ ایک طرف غربت، فاقہ کشی اور دوسری طرف غیرت ، خود داری۔ یہ تحفہ لینا اُن کا ضمیر گوارا نہیں کر رہا تھا اور بار بار جھنجھوڑ رہا تھا کہ تم نے کون سا کارنامہ کیا ہے، یہ تو تمھارا فرض تھا۔ اگر یہ فرض ادا نہ کرتے تو گناہ گار ہوتے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں میں نے تحفہ لینے سے انکار کردیا وہ بزرگ میری ایمانداری سے بہت خوش ہوئے اور دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوگئے کچھ دنوں کے بعد مجھے مکے سے ایک کشتی پر سوار ہوکر ایک سفر ہر جانا پڑا کشتی میں کئی مسافر سوار تھے کشتی اپنے انداز سے چل رہی تھی کہ اچانک ایک زور دار ہوا کا جھونکا آیا اور محسوس ہوا کہ کوئی طوفان ہے کشتی ہچکولے کھانے لگی اور اس تیز طوفان کا مقابلہ نہ کرتے ہوئے بالآخر ڈوب گئی لوگ ڈوبنے لگے کہ مجھے ایک تختہ مل گیا اور میں نے خدا سے دعا کرنا شروع کردیا کہ یااللہ اگر بچنا ممکن ہے تو بچالے پھر وہ تختہ مجھے ایک کنارے تک لے گیا اور میں کنارے پہنچ کر سب سے پہلے سجدہ شکر ادا کیا اور پھر نظر اٹھا کر دیکھا تو مجھے کوئی بستی نظر آئی مسجد کے مینار نظر آئے گویا میں مسجد میں نے مسجد میں داخل ہوکر سب سے پہلے وضو کیا اور اپنی پرسوز آواز میں زور سے تلاوت قرآن شروع کردی میری آواز سن کر وہاں کے لوگ مسجد میں آنا شروع ہوگئے اور میری تلاوت سننے والوں کی بھیڑ جمع ہوگئی میں کچھ ہی دنوں میں مشہور ہوگیا لوگوں نے عرض کیا کہ ہمیں بھی ایسا قرآن پڑھنا سکھا دیں لوگ مجھ سے کتابت کرواتے اور مجھ سے بہت محبت کرتے تھے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ایک دن کچھ لوگ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یہاں ایک بہت بڑے بزرگ آباد تھے جو آپ کے آنے سے چند دن قبل ہی انتقال کرگئے ان کی ایک انتہائی حسین و جمیل اور سلیقہ مند لڑکی ہے جو اب بالکل اکیلی ہے آپ نوجوان ہیں حسین ہیں آپ کے لئے پیغام بھیج دیا جائے اگر آپ کر اعتراض نہ ہو ؟ وہاں کے لوگ مجھ سے بہت عقیدت و محبت رکھتے تھے لہذہ میں حامی بھر لی میں نے سوچا کہ ایک شادی کی سنت بھی ادا ہو جائے گی گویا ہماری شادی ہوگئی جب میں زوجہ کو دیکھا تو حیرت سے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی کیونکہ وہ حسین و جمیل تو تھی ہی لیکن اس نے گلے میں جو ہار پہنا ہوا تھا یہ وہی ہار تھا جو میں نے بزرگ کو لوٹایا تھا وہ لڑکی بھی حیرت سے مجھے دیکھ رہی تھی کہ میں اس ہار کو اتنے دور سے کیوں دیکھ رہا ہوں میری حیرانگی کو دیکھ کر سارے لوگ اکٹھے ہوگئے اور میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے تب میں نے ساری کہانی اپنی زوجہ اور وہاں کے لوگوں کو سنائی تو ان میں سے ایک شخص نے عرض کیا کہ وہ نوجوان آپ تھے وہ جب آپ سے مل کر آئے تھے تب ہی سے آپ کی ایمانداری کے بارے میں ہمیں بتاتے تھے اور وہ افسوس کرتے تھے کہ کاش وہ اپنی بیٹی کی شادی ایسے ایماندار شخص کے ساتھ کرسکتے اور خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ آپ یہاں تشریف لے آئے ان کی بات سن کر میں اسی وقت سجدے میں گر گیا اور اللہ کا شکر بجانے لگا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سچے دل اور نیک نیتی سے ایمانداری کرنے کا یہ صلہ آپ کو کیسا لگا اب آیئے ہماری آج کی حدیث میں حضور ﷺ نے جو دوسری بات ارشاد فرمائی وہ ہے بات میں سچائی
2. بات میں سچائی ::
کسی کے بھی منہ سے نکلی یا زبان سے ادا ہونے والی ہر وہ بات جس میں کوئی شک و شبہ نہ ہو غلط بیانی کا اندیشہ نہ ہو جھوٹ کی آمیزش نہ ہو اور بات کے سچ ہونے پر پورا اعتبار ہو اسے بات میں سچائی کہتے ہیں اور ایسے لوگوں کے بارے میں اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ بات کیسی بھی ہو لیکن وہ بولتا بالکل سچ ہے یعنی اس کی بات میں سچائی نظر آتی ہے اگر ہم اپنے اسلاف کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے سچ کے ساتھ زندگی کے ہر قدم پر دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کی اور جب ہم اپنے اطراف موجود لوگوں اور گھروں کی کہانیوں کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو بھی ہمیں ایسے واقعات سے واسطہ پڑتا ہے جہاں جھوٹ اور سچ کی جنگ میں ہمیں کسی کی ہار اور کسی کی جیت نظر آتی ہے اور ویسے بھی زندگی میں ہمیں کئی مرتبہ ایسے مواقع ملتے ہیں جہاں سچ بولنا ہمارے لئے بہت مشکل ہوتا ہے یہاں تک کہ کئی لوگ سچ بول کر اپنی جان تک گنوا بیٹھتے ہیں اور کئی لوگ ایسے مشکل وقت میں شیطان کے بہکاوے میں آکر جھوٹ اور غلط بیانی کے ذریعے اپنی جان چھڑا لیتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دراصل
کسی بھی بات یا کام کا واقع اور حقیقت کے مطابق ہونا سچائی ، سچ یا صدق کہلاتا ہے مثال کے طور آپ کسی کو بتاتے ہیں کہ ہمارے گھر کے سامنے ایک پارک ہے اور وہ جا کر دیکھے اور آپ کے گھر کے سامنے پارک ہو تو وہ آپ کی بات کو سچا قرار دے گا اور آپ کی بات سچائی سے متصف ہوگی اور اللہ تعالی اور اس کے حبیب کریمﷺ نے بھی ہمیشہ سچ کی ہی تلقین کی ہے جیسے قرآن مجید کی سورہ التوبہ کی آیت 119 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ۔
ترجمعہ کنزالایمان::
اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو۔

اسی طرح کئی احادیث بھی ہمیں ملتی ہیں جہاں سچ کی تلقین اور جھوٹ سے دور رہنے کا کہا گیا ہے جیسے ایک حدیث کے مطابق حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
" تم صدق پر قائم رہو کیونکہ صدق نیکی کے راستے پر چلاتا ہے اور نیکی جنت کے راستے پر چلاتی ہے۔ انسان مسلسل سچ بولتا رہتا ہے اور کوشش سے سچ پر قائم رہتا ہے، حتی کہ وہ اللہ کے ہاں سچا لکھ لیا جاتا ہے اور جھوٹ سے دور رہو کیونکہ جھوٹ کج روی کے راستے پر چلاتا ہے اور کج روی آگ کی طرف لے جاتی ہے، انسان مسلسل جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کا قصد کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسے جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے۔"
(صحیح مسلم 6639)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قرآن اور حدیث دونوں دونوں جگہوں میں ہمیں سچ بولنے کی تلقین ملتی ہے معلوم یہ ہوا کہ بات ہمیشہ وہ کرنی چاہئے جس میں جھوٹ کا کوئی عمل دخل نہ ہو اور اس میں سچائی جھلکتی ہو آج کی حدیث میں جو تیسری بات حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمائی وہ ہے اخلاق کی عمدگی
3. اخلاق کی عمدگی::
اخلاق دراصل جمع ہے خلق کی اس کے معنی ہیں طبیعت یا عادت وغیرہ اخلاق اچھا بھی ہوتا ہے اور برا بھی جیسے کسی کے بارے میں کہا جائے کہ یہ شخص کتنا بااخلاق انسان ہے یا کہا جائے کہ یہ انسان کیسا ہے اخلاق نام کی کوئی چیز نہیں اس میں جبکہ اللہ تعالٰی اور اس کے حبیب کریمﷺ کی طرف سے حسن اخلاق کی بڑی سخت تلقین کی گئی ہے حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ’’اگر نفس میں موجود کیفیت ایسی ہو کہ اس کے باعث عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ اچھے اَفعال ادا ہوں تو اسے حسن اَخلاق کہتے ہیں اور اگر عقلی اور شرعی طور پر ناپسندیدہ برے اَفعال ادا ہوں تو اسے بداَخلاقی سے تعبیر کیاجاتا ہے۔‘‘
( احیاء العلوم، 165/3)
اسی طرح ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے حسن اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ " حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا اخلاق قرآن ہے " اس طرح قرآن مجید میں کئی جگہوں پر رب تعالیٰ نے حسن اخلاق کا درس دیا ہے اور اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی اخلاق کریمہ کا ذکر کیا ہے جیسے سورہ القلم کی آیت 4 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ

وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(4)
ترجمعہ کنزالایمان::
اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔

فقہاء نے اس آیت کے خلاصہ میں یہ ہی لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے اخلاق کے بارے ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم حسن اخلاق کے ایک بہت بڑے مقام پر فائز ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اصل میں لوگوں کے ذہن میں حسن اخلاق کے معنی کسی سے اچھے انداز میں بات کرنا کے ہیں جبکہ حسن اخلاق بہت سے شعبوں سے منسلک ہے جیسے ؛ شیریں و میٹھے بول، عفو و درگزر،رفق و نرمی،شفقت و مہربانی، انس و محبت، اکرام و اعزاز، حلم و بردباری، حیا و شرم، وسعت ظرفی و سخاوت، صلہ رحمی و حاجت روائی، تعاون و امداد، صبر و شکر، متانت و سنجیدگی، عدل و انصاف، امانت و دیانت، ماں باپ، بھائی بہن، عزیز و اقارب، بیوی بچے، یتیموں مسکینوں، پڑوسی، مسلمان اور غیر مسلم حتی کہ جانوروں اور پرندوں کے ساتھ بھی حسن سلوک و حسن معاملہ وغیرہ، یہ تمام حسن اخلاق کے شعبے ہیں جن کی شریعت مطہرہ میں تعلیم دی گئی ہے اور ان تمام شعبوں میں اچھا رویہ اختیار کرنے والا ہی اچھے اخلاق کا حامل اور اس عظیم صفت سے متصف کہلانے کا مستحق ہوگا لہذہ حسن اخلاق کے ان تمام شعبوں پر مہارت حاصل کرنے والا ہی حقدار جنت ہوگا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آج کی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے جو چوتھی اور آخری بات ارشاد فرمائی وہ ہے
4. کھانے میں پاکیزگی ::
کھانے میں پاکیزگی کا مطلب ہے حلال کمانا اور حلال کھانا کیونکہ حلال کے لقمہ ہی سے ہمیں دیانتداری امانت کی حفاظت بات میں سچائی اور حسن اخلاق کی تربیت ملتی ہے قرآن مجید کی سورہ البقرہ کی آیت 168 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ﳲ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(168)
ترجمعہ کنزالعرفان::
اے لوگو! جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اس میں سے کھاؤ اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
اسی طرح ایک حدیث کے مطابق حضرت ا بو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے اگر کوئی رسی میں لکڑیوں کا گٹھا باندھے اور اسے اپنی پیٹھ پر لادکر لائے تو دوسرے کے پاس جاکر سوال کرنے سے بہتر ہے،(معلوم نہیں) وہ اسے دے یا نہ دے۔‘‘
( صحیح بخاری 1470)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اوپر پیش کی گئی آیت مبارکہ اور احادیث مبارکہ پڑھنے سے یہ واضح پیغام ہمیں ملتا ہے کہ زمین پر ملنے والی ہر اس چیز کا انتخاب کرنا جو ہمارے لیئے حلال ہو وہ ہمارے لیئے بہتر ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب کریمﷺ کے فرمان کے مطابق ہمیں حلال چیز کھانی چاہیئے اور شیطان کے راستے پر چلنے سے سختی کے ساتھ گریز کرنا چاہئے اور جو کمائی اپنے ہاتھ سے کمائی ہوئی ہو حلال طریقے سے وہ ہی ہمارے لیئے پاکیزہ کھانا ہوگا یعنی حلال ہوگا حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ فریضہ حج کے بعد سب سے اہم فریضہ رزق حلال کی تلاش ہے اور ایک جگہ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ " اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیئے حلال رزق تلاش کرو کہ یہ بھی ایک جہاد ہے "
جبکہ ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ " اپنے ہاتھ سے کمائی ہوئی کمائی اور اس کا کھانا سب سے بہتر ہے
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام زراعت کا کام کیا کرتے تھے اور حضرت داؤد علیہ السلام زرہیں بنایا کرتے تھے جبکہ حضرت نوح علیہ السلام بڑھئی کا کام کرتے تھے حضرت ادریس علیہ السلام درزی تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام بکریاں چراتے تھے ویسے ہمارے فقہاء نے لکھا ہے کہ کم و بیش تمام انبیاء علیہم السلام نے بکریاں چرانے کا کام کیا ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے اس سلسلے میں ارشاد فرمایا کہ " اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں " حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے کچھ صحابہ نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے کبھی بکریاں چرائی ہیں تو فرمایا کہ ہاں میں نے چند قیراط کے عوض بکریاں چرائی ہیں اب اندازہ لگایئے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم بکریاں چرا سکتے ہیں اور وہ بھی اپنی نہیں بلکہ اجرت پر تو کسب حلال کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی اور یہ رہتی قیامت تک آنے والے امتیوں کے لیئے درس ہے کہ کسب حلال کے لیئے محنت مزدوری کرنا بہتر ہے دوسروں کو سامنے ہاتھ پھیلانے کے مقابلہ میں جبکہ اس کی مرضی ہے وہ دے نہ دے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہماری آج کی حدیث میں موجود حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے فرمائے ہوئے چاروں نکات پر ہم نے بات کی یعنی امانت کی حفاظت ، بات میں سچائی ، اخلاق میں عمدگی اور کھانے میں پاکیزگی اگر دیکھا جائے تو اس حدیث کی رو سے ان چاروں فرمودات میں ہماری پوری زندگی کا نچوڑ ہے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے کا طریقہ اور حضور ﷺ کی باتوں پر عمل کرکے دنیا اور آخرت میں نجات کا واحد طریقہ اس حدیث میں موجود فرمودات پر عمل کرنے سے ہے اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے سچ لکھنے ہمیں پڑھنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ایسی احادیث پر غور کرتے ہوئے اپنی زندگی کو ایسی نصیحتوں پر عمل پیرا ہوکر گزارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہماری زندگی پر احادیث کا اثر کے عنوان سے اس سلسلے کی پندرھویں حدیث لیکر بہت جلد حاضر خدمت ہوں گا ان شاءاللہ ۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 174 Articles with 142516 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.