لاکھوں کروڑوں درود و سلام سرکار ﷺ کی ذاتِ اقدس پر،حضرتِ انسان الفاظ و
آواز کی دنیا میں رہتا ہے، آواز کی تاریخ بہت پرانی ہے، اِتنی پرانی ہے کہ
انسان کی تخلیق سے بھی پہلے آواز موجود تھی، یہ کائنات شروع ہی ایک آواز سے
ہوئی تھی، کن فیکون کی آواز اور حتم بھی ایک آواز پر ہی ہوگی، کائنات کی
تخلیق سے پہلے بھی تو آواز موجود تھی، قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ اے
مسلمانوں درود شریف پڑھو کیونکہ اللہ تعالی اور فرشتے بھی درود شریف پڑھ
رہے ہیں، درود شریف تو کائنات بننے سے پہلے چل رہا ہے، انسانوں کو تو بہت
بعد میں اِس میں شامل کیا گیا ہے، تو کن فیکون سے پہلے کی آواز درود شریف
کی آواز تھی جو کہ اللہ تبارک و تعالی اور فرشتے سرکار ﷺ پر بھیج رہے ہیں،
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں وقت کا کینوس نہیں ہے، یعنی
اللہ کے ہاں کوئی ماضی یا مستقبل نہیں ہے سارا وقت ایک ہی وقت ہے تو جو
درود شریف کائنات بننے سے پہلے چل رہا ہے وہ آج بھی چل رہا ہے، اِس میں
کوئی رکاوٹ یا کوئی کمی نہیں آ سکتی، تو عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آواز تو
کائنات بننے سے پہلے سے موجود تھی، کیا وہ آواز ہی تھی، وہ کیا الفاظ تھے
یا کیا طریقہ تھا جس سے کہ درود شریف ادا ہوتا تھا، یہ ایک راز ہے، انسانی
عقل کو اِتنی رسائی نہیں دی گئی کہ اِس بات کو سمجھ سکے، حضرت واصف علی
واصف رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے سوال کر دیا کہ سرکار یہ بتائیے کہ اللہ اور
فرشتے کن الفاظ میں درود شریف ادا کر رہے ہیں، تو آپ نے قدرے سختی سے ارشاد
فرمایا کہ آپ یہ کیوں پتہ کرنا چاہتے ہیں آپ کو جو حکم دیا گیا ہے وہ پورا
کریں، درود شریف پڑھا کریں، میں پہلے بھی کئی دفعہ عرض کر چکا ہوں کہ درود
شریف صرف الفاظ نہیں ہیں، درود شریف یاد ہے آنسو ہیں، ادب ہے، آپ یاد کریں
تو پھر سرکار ﷺ بھی یاد کریں گے، یہ ایک راز ہے جو کہ بزرگ اور فقیر بتا
گئے ہیں، تو صاحب ہم الفاظ و آواز کی دنیا میں رہتے ہیں الفاظ و آواز سے بچ
نہیں سکتے، اُن کی منفی اور مثبت تاثیریں وجود کا حصہ بنتی رہتیں ہیں،
جذبات بھی مرہون منت ہیں آواز کے اور الفاظ کے، ایک بے بس اور لاچار انسان
کے لیے حرفِ تسلی کیا معنی رکھتا ہے یہ تو شاید وہی بتا سکتا ہے، وہ آواز
جو اسے ہمت اور تسلی دے جاتی ہے، اُس کی کیا تاثیر ہے یہ شاید بیان ہی نہ
کی جاسکے، وجود کے باہر کی آواز مرہونِ منت ہے سامعین کے شوق کی، اگر سننے
والے شوق رکھیں تو آواز بڑھتی جاتی ہے، لیکن کچھ آوازیں اندر کی بھی تو
ہوتی ہیں، اندر کے اندر کی، جن کو کہ بیان نہیں کیا جا سکتا، وجود صرف
محسوس کر سکتا ہے، ایک مرحلہ ایسا آتا ہے کہ خاموشی بھی آواز بن جاتی ہے،
اندر کی اواز، وہ آواز آپ سن نہیں سکتے جب تک کہ آپ درد آشنا نہ ہو جائیں،
محرمِ راز نہ ہو جائیں،محرمِ ذات نہ ہو جائیں، انسان خلق ہی قانونِ فطرت پر
کیا گیا ہے، انسانی وجود کی فطرت میں ہی گناہ و ثواب، غلط اور صحیح جاننے
اور سمجھنے کا شعور موجود ہے، چاہے وہ کسی بھی مذہب یا عقیدے سے تعلق رکھتا
ہو، تو اِن گناہ و ثواب یا صحیح اور غلط کا فیصلہ بھی ایک آواز ہی کرتی ہے
جو کہ ضمیر کی آواز ہے، کوئی بھی بڑے سے بڑا گناہ گار گناہ کرنے سے پہلے
اِس آواز سے آشنا ہوتا ہے، کچھ آوازیں اندر کی آوازیں ہوتی ہیں وہ ہر کسی
سے نہیں کہی جا سکتی اور نہ ہی ہر کوئی سمجھ سکتا ہے، درد شناس اپنا درد
آشنا ڈھونڈتا پھرتا ہے، اور جب وہ درد آشنا مل جاتا ہے تو پھر اُس کے پاس
بیٹھنے، اس سے بات کرنے اور اس کو دیکھنے سے ہی سکون حاصل ہوتا ہے، اُسی کو
محرمِ راز کہا گیا ہے، محرمِ راز اندر کی سرگوشیاں جانتا ہے، اندر کی باتیں
جانتا ہے، وہاں آواز و الفاظ کی ضرورت نہیں رہتی، آنسو رُودادِ غم کہتے ہیں،
اگر آواز خاموش ہو جائے تو سمجھ لیجئے کہ کوئی طوفان بپا ہونے والا ہے،
کیونکہ خاموش کرائی گئی آواز رب کے حضور سجدہ ریز رہتی ہے، خاموش آواز آنسو
بن کر فریاد بن جاتی ہے اور ایک آہ بن کر ہمیشہ زندہ رہتی ہے، اور اِن
الفاظ و آواز کا کیا کہنا جو سرکار ﷺ کی زبان مبارک سے ادا ہوئے، سرکار کی
بات باتوں کی پیغمبر ہے، یہی وہ آواز ہے جو دنیا اور آخرت میں سب سے معتبر
ہے، اور سلام عرض ہے اُن عاشقان پر جنہوں نے آپ ﷺ کی آواز پر لبیک کہا،
اللہ تعالی آپ کے لیے آسانیاں فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا
فرمائے آمین ثم آمین
|