مسلمانوں کو تکلیف دینے والا سخت گناہ کا مرتکب ہوتا ہے

مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ، زبان، عمل سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ جو دوسروں کیلئے تکلیف کا باعث بنتا ہے وہ سخت گناہ سر لیتا ہے۔ کوشش کریں کہ ہماری وجہ سے دوسرے تکلیف نہ اٹھائیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں چند مفید باتیں

فراڈ، دھوکہ، بدعنوانی قبیح افعال ہیں ۔ مسلمان کے شایان شان نہیں

تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

مسلم معاشرہ کی اپنی خوبیاں ہیں، یہ ایسا خوبصورت اور تہذیب یافتہ طبقہ ہے جس کی دنیا کی کسی قوم میں مثال نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ فحاشی و عریانی کا دلدادہ یورپ بھی تیزی سے اسلام کی طرف مائل ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ مسلم اقوام کی زبوں حالی نہیں بلکہ دین اسلام کے پختہ قوانین و شعار ہیں جن سے کوئی بھی ذی شعور استفادہ کیے بغیر رہ نہیں سکتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مسلمان کیوں زبوں حالی کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں تو اس کی بہت ساری وجوہات ہیں جن میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان دوسرے مسلمان کیلئے تکلیف و اذیت کا باعث بن رہا ہے۔

سرہ الاحزاب کی آیت ٣٣ میں ارشاد ربانی ہے: ترجمہ: جو لوگ مسلمان مردوں اور عورتوں کو کسی خطاء کے بغیر ستاتے(تکلیف دیتے) ہیں انہوں نے بہتان باندھا اورکھلے گناہ کا بوجھ اپنے سر لیا۔
ایک وقت تک جب فحاشی، بے حیائی، بے پردگی، ناقص لباس، یا ایسا لباس جس سے جسم کے اعضاء ظاہر ہوں نہایت معیوب سمجھا جاتا تھا، اول تو گھر میں ہی بڑے ایسے عمل سے منع کر دیتے، یا پھر برادری کے بزرگ یا ارد گرد کے سمجھدار لوگ محبت سے سمجھا دیتے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے ان افعال کے نام تبدیل کر دیے، کسی نے روشن خیالی کہا تو کسی نے ماڈرن ازم، کسی نے وی آئی پی کلچر کہا تو کسی نے سلجھا ہوا طبقہ گناہ تو گناہ ہی رہا لیکن ہم نے اس کی پیکنگ تبدیل کرکے اس گناہ کو مستقل طور پر اپنا لیا۔

جھوٹ، غیبت، چغلی، وعدہ خلافی، بہتان تراشی، دھوکا دہی، بد دیانتی جیسے افعال کو شدید نفرت سے دیکھا جا تا تھا۔ بددیانت شخص کے ساتھ کوئی میل جول نہیں رکھتا تھا۔ دھوکا دینے والے سے ہر کوئی نفرت کرتا تھا، پھر ہم نے ان تمام غلیظ افعال کو اپنا نا شروع کر دیا، ان سب کے مجموعے کونئے نام جیسے سیاست، چالاکی، یوٹرن جیسے نام دے کر خود کو ملوث کر لیا۔ یہ گندے عمل ویسے کے ویسے ہی رہے اور ہم نے اس کو معاشرہ میں مقام دینا شروع کر دیا۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ سلام اللہ علیہا سے روایت ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بارگاہ الٰہی میں سخت ترین بدکاری یہ ہے کہ کسی مسلمان کی عزت کو پامال کیا جائے۔
آج دوسروں کی عزتوں کو اچھالنا معمولی سی بات ہے، سوشل میڈیا تو وہ حمام بن گیا ہے جس میں سب ننگے موجود ہیں۔ طنزومزاح کی آڑ میں ماں اور باپ جیسی مقدس ہستیوں کی وہ عزت پامال کی جاتی ہے کہ الامان الحفیظ۔

بسا اوقات ہم نیکی کرتے ہوئے بھی دوسروں کیلئے تکلیف کا باعث بن رہے ہوتے ہیں، جیسے زکات کی رقم تقسیم کرنی ہوتو صبح سے ضرورت مندوں کی لائن گھر کے باہر لگوا دیتے ہیں تاکہ سب لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ آج سیٹھ صاحب رقم خیرات کرنے والے ہیں یا کھانا تقسیم کرنے والے ہیں۔ ایسا ہی ایک نہایت نا پسندیدہ عمل ہم حج و عمرہ کے دوران حجر اسود چومنے کے معاملے میں کرتے ہیں جانے انجانے میں کتنے ہی لوگوں کو مسل کے رکھ دیتے ہیں ، ایسے ہجوم میں خواتین و بچوں کو بھی نہیں بخشا جاتا ہے۔ اپنا جوتا تو رکھ کے بھول گئے یا کسی نے اٹھا لیا تو جاتے جاتے ہم کسی دوسرے کا جوتا اٹھا کے حرم کے اندر چوری کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔

دکان مین بازار کے اندر بنا لی اب اس سے باہر تجاوزات کرکے آنے جانے والوں کیلئے تکلیف کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔ عین سڑک کے وسط میں گاڑی کھڑی کر کے ہماری تو شاپنگ یا ونڈو خریداری ہوجاتی ہے لیکن ہماری بدولت جن لوگوں کو زحمت و تکلیف اٹھانی پڑرہی ہے اس کا جواب دہ کون ہے ؟ آئیے آج اپنے معاملات کی اصلاح کریں، نہ خود تکلیف اٹھائیں نہ دوسروں کیلئے تکلیف کا باعث بنیں۔

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Read More Articles by محمد قاسم وقار سیالوی: 44 Articles with 9724 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.