کیا دعائیں رد نہیں ہوتیں۔۔۔۔

قرآن کے مطابق دعا کیا ہے؟اور اسے مانگنے کا طریقہ کیا ہے؟

بسم الله الرحمن الرحيم
رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي – وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي – وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي

سورة البقرة
وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ ﴿۱۸۶﴾
"اور جب سوال کریں آپ سے میرے بندے میرے بارے میں تو بے شک میں قریب ہوں میں جواب دیتا ہوں دعا کا دعا کرنے والے کی جب وہ دعا کرے مجھ سے پس ضرور وہ حکم مانیں میرا اور ضرور وہ ایمان لائیں مجھ پر تاکہ وہ ہدایت پائیں "

اس آیت میں لفظ میرے بندے کے لیے عربی کا لفظ "عبادی" استعمال ہوا ہے جو عبد سے نکلا ہے " عبد " یعنی (بندہ) کوئی دوسرا لفظ استعمال نہیں ہوا کیوں؟ یہاں تو اتنی بڑی بشارت دی جارہی ہے۔ قبولیتِ دعا کی پھر اس میں درجہ بندی کیوں نہیں کی گئ یہاں متقی،شہداء ،پرہیزگار،صالحین ،عابدین جیسے الفاظ کیوں نہیں استعمال ہوئے؟
کیونکہ وہ رحیم ہے۔
درجات پر نہیں دیتا وہ تو سب کو دیتا ہے وہ تو شہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہے اس نے تخلیق کیا ہے ہمیں ہم تو اسکی مخلوق ہیں ہمیں اسکے پاس یہ کریکٹر سرٹیفیکیٹ لے جانے کی ضرورت تھوڑی ہے وہ تو ہمارے سیاہ سفید سے واقف ہے۔اسکے بعد بھی کیا کبھی اس نے اپنی رحمت کے دروازے ہم پر بندھ کیے؟ نہیں نا؟
پھر یہ وسیلے کیا ہیں پھر ہم کیسے کہیں اور جاسکتے ہیں اپنی حاجت کے لیے۔
حاجت کے لئے لفظ " سالك " استعمال ہوا ہے سائل = سوال کرنے والا مانگنے والا لفظ " اجیب " استعمال ہوا ہے جواب دیتا ہوں۔ قبول کرتا ہوں۔سوال کرنے والے کے لیے لفظ مسلم تک استعمال نہیں ہوا الّا یہ کہ بڑی بڑی کنڈیشنز بتائی جاتیں۔ مسلم، کافر، مشرق ،منافق "عبادی" میں تو سب آگئے نا کوئی عبادت،منّت،نظر،وضوں تو پھر یہ وسیلے بیچ میں کہاں سے آئے؟ تو پھر کیوں وسیلوں کے لیے سفر کر کے اتنی دور دور جانے لگے؟ ہم نے کیوں آسانیوں کو مشکلوں میں بدل دیا؟ ہم نے کیوں اپنے اور اپنے رب کے درمیان داروغہ بیٹھا لیے؟ کیا اللہ پاک نے کہا کہ ہم کہیں جائیں۔۔۔ کیا اس نے ہم پر داروغہ بیٹھائے؟ اس نے تو کبھی ہماری مشکل نہیں چاہی۔ کہ ہم کہیں جائیں ہم نے خود کو کہاں گرا لیا ہم کب اتنی مشکلوں میں پڑ گئے۔کیا ہم سے پہلوں نے یہی سب نہیں کیا تھا؟
٠ حضرت ابراھیمؑ کے والد نے بھی تو بتوں کو محض وسیلہ
بنایا تھا۔٠بنی اسرائیل نے بھی تو یہی کیا تھا۔

کفار مکہ کا بھی تو بس یہ ہی قصور تھا تو کیا وہ بخش دیے گئے؟کیا انکی تاویلیں قبول کرلی جائیں گی؟
اب اندازہ کریں ہم کیسے لوگ ہیں اور کیسی عقل ہے ہماری۔
وہ اللہ جس نے اعلان کر دیا ہے میں ہر وقت ہر جگہ پکارنے والے کی پکار سنتا اور انہیں قبول کرتا ہوں۔
اس کے بارے میں ہمیں شک ہے کہ یہ ڈآئریکٹ نہیں سنتا اور جن کے بارے میں قرآن کہہ رہا ہے۔

إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ المَوْتَى

آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے

اس کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ یہ ڈائیریکٹ سنتا ہے ۔
اگر آپ کو لگ رہا ہے کہ آپ کے ارد گرد موجود لوگ یہ کرتے ہیں، آپ کے بڑوں نے بھی یہ کیا ہے ۔ اگر یہ اتنا ہی غلط ہے تو انہیں کیوں نہیں سمجھ آیا تو یاد رکھیے گا۔۔۔۔
یہ کہانی آپکی ہے۔ اس میں ماں،باپ،بہن،بھائی،خاندان ہمیشہ یہ سب آپ کے ساتھ ضرور ہونگیں لیکن آئے بھی آپ تنہا تھے اور جائیں گیں بھی تنہا۔۔۔ ابتداء میں بھی صرف آپ اور اپکا رب ہی تھا انتہاء پر بھی وہی ہو گا۔
یہ آپکی کہانی ہے۔
تاویلیں تو ہم سے پہلوں نے بھی کی تھیں۔ لیکن فلاح و کامیابی انکا مقدر ہوئی جنہوں نے حق دیکھا اور اسے مضبوطی سے تھام لیا۔
شرک گناہ کبیرہ ہے اسکی معافی نہیں ہے اور کافرین سے نچلا درجہ منافقین کا ہے۔
ہم کلمہ گو ہیں اسکی وحدانیت پر ایمان لاتے ہوئے آگر ہم شرک جیسے گناہ میں ملوث ہيں تو یہ ہماری نری تباہی و بربادی ہے۔
ہم سب نے اپنا بوجھ خود سدھارنا ہے ہم وہاں دوسروں کو موردِالزام نہیں ٹہرا سکتے۔
ہماری ہر آتی جاتی سانس اس بات کی ضامن ہے کہ مہلت ابھی باقی ہے ابھی توبہ کا دروازہ بند نہیں ہوا۔
ہم نے شیطان کے بہکاوے میں نہیں آنا اسکا سب سے مضبوط ہتھیار ہی ابن آدم کو مایوس و ناامید کرنا ہے
۔پہلے وہ ہمیں ہمارے گناہ آراستہ کر کے دکھاتا ہے اور جب سچ واضح ہو جائے اور ہم اپنے اصل کی طرف پلٹنے لگیں تو پھر وہ ہمیں پستی و نا امیدی کے ایسے گڑھے میں گراتا ہے کہ ہم اٹھ ہی نہ پائیں ۔
اس مقام پر اللہ پاک کے آخری نبی
حضرت محمد ﷺ نے فرمایا
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ

كُلُّ بَنِي آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ.

[At-Tirmidhi]

ہر آدم کا بیٹا خطا کار ہے بہترین خطا کار وہ ہے جو واپس آجاتا ہے ۔

پھر کیسے قبول ہوگی ہماری دعا ...؟

ہم سب کی زندگی میں ایک مسئلہ ہے خواہش،امیديں، مستقبل کی کامیابیاں اور موجودہ مسائل
مجموعہ ان سب کا ' دعا ' ۔ ہم سب کے دل میں کچھ دعائیں ہیں جن کی قبولیت کے ہم منتظر ہیں کچھ خواب ہیں جنکی تعبیر کی چاہ ہمیں بےچین رکھتی ہے۔اور وہ دعائیں ہماری بکٹ لسٹ میں ہیں وہ ہم مانگتیں نہیں ہے ہم اندر سے ایک گلٹ میں ہیں کہ ہم اچھے مسلمان نہیں ہیں- تو ہماری دعا تو نہیں قبول ہوگی اور گناہ بھی ہم اسقدر کر چکے ہیں اتنی نافرمانیاں ہوگئی ہیں کہ دعا کی قبولیت تو دور ہماری تو سنوائی کے بھی رستے بند ہیں جو اپرچونیٹیز تھیں وہ تو گزرگئیں۔
اصل میں ایسا نہیں ہے۔ اللہ تعالٰی کو انتظار ہے کہ کب پلٹو گے کب تمہارے لب دعا کریں گیں۔
وہ تو منتظر ہے۔ ذرا اپنی دعاؤں کا جائزہ لے لیتے ہیں کیوں کے مانگنے کے انداز سے ہی معلوم ہوجاتا ہے ہمیں اس چیز کی کتنی ضرورت ہے۔کیا ہماری دعائیں غافل نہیں ہیں؟ چلیں ذرا سوچیں اگر آپکا بچہ آپ سے کھانا مانگے اور کہے' لائیں کھانا دیں ' تو آپ کہتے ہیں نا۔۔ کہ کیا یہ تمیز ہے بات کرنے کی ایسے مانگا جاتا ہے کھانا؟ تو یہ بات ہم اللہ سے مانگتے ہوئے کیوں بھول جاتے ہیں؟ ہماری دعائیں اتنی غافل کیوں ہوتی ہیں اور چلیں کچھ ان دعاؤں کو لےلیں جو آپ نے بڑی رو رو کر مانگی تو ذرا یاد کریں کے مانگنے کا انداز بلکل ایسا ہی نہیں تھا جیسے ایک ضدی بچہ کسی کھلونے کو دیکھ کر مچلتا ہے آپ روئے،واسطے دیے،گڑگڑائےکہ بس مجھے یہ دے دیں مجھے نہ ملا تو میں نہیں رہ پاؤنگا میرا مستقبل برباد ہو جائیگا آپ تو اللہ ہیں نہ۔۔۔ آپ دے سکتے ہیں نہ۔۔۔ پھر دے دیں مجھے۔ کیا ہم نے ایسا نہیں کیا؟اب ذرا یاد کریں کیا ماں باپ بچے کو وہ چیز دلا دیتے ہیں نہیں نہ ... کیو نہیں دلاتے؟ کیا انہیں محبت نہیں ہوتی ... ؟کیا انہیں اسکا رونا پگھلاتا نہیں ہے؟ یا پھر وہ دلا نہیں سکتے؟ میں آپکو بتاؤں وه کیوں نہیں دلاتے ۔۔۔ وہ اس لئے نہیں دلاتے کیوں کہ انہیں *محبت* ہوتی ہے اپنے بچے سے انہیں اس کے پیچھے کی حکمت نظر آرہی ہوتی ہے۔
جو اسے نہیں پتہ ہوتی ... تو کیا وہ جو مسبب لاسباب ہے وہ نہیں جانے گا کہ کیا ہمارے حق میں بھلا ہے کیا نہیں کیا ہمیں ملنا چاہیے کیا نہیں ۔اب واپس اسی بچے کی طرف چلتے ہیں اب جب امی بابا نے نہیں دلایااسے اسکامن چاہا کھلونا اب وہ کیا کرتا ہے وہ ناراض ہو جاتا ہے بات نہیں کرتا کچھ ایسا ہی ریاکشن ہوتا ہےنہ اب ماں بابا کیا کرتے ہیں وہ اسے پچکارتے ہیں اس سے بہت نرمی سے بات کرتے ہیں پچھلے پورے دن کی کی گئی شرارتوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ان شرارتوں کے نتیجے میں جو گھر جاکر پنشمنٹ ملنی تھی وہ بھی نہیںدی جاتی وہ آزمائش بھی ٹل جاتی ہے گھر پر اسکی پسند کا کھانا بنتا ہے .....کچھ دیر بعد وہ بچہ واپس اپنی روٹین پر آجاتا ہے کھیلنا کودنا کچھ باتیں ماننا کچھ میں ڈنڈی مارنا۔اب واپس آتے ہیں اپنی طرف ہم مسلمان ہیں اور ہم سب کا اس بات پر پکا ایمان ہونا چاہیے۔ کے ہماری دعائیں رد نہیں ہوتی بلکہ ان قبولیات کی تین صورتیں ہوتی ہیں۔ پہلی صورت ہماری دعا قبول کرلی جائے اور وہی چیز دے دی جائے یا اس سے بہتر۔ دوسری صورت وہ چیز ہمارے حق میں بہتر نہ ہو تو ہم پر آنے والے مصائب ٹال دیئےجاتے ہیں۔ تیسری صورت وہ دعا آخرت کے لیے جمع ہوجاتی ہے بروزِقیامت جب لوگ اپنی نہ قبول ہوئی دعاؤں کا اجر دیکھیں گیں تو کہیں گیں کاش دنیا میں ہماری کوئی دعا قبول نہ ہوئی ہوتی تو پھر ذرا یاد کریں جب یہ سب ہمارے ساتھ ہوتا ہے تو کیا ہم راضی ہو جاتے ہیں اپنے رب سے؟ ہم واپس پہلے جیسے ہو جاتے ہیں؟ نہیں بلکے ہم اکڑ جاتےہیں ہم ضد لگا لیتے ہیں۔
کیا ہم میں سے بہت سے ایسے نہیں ہیں جن کی کسی مشکل وقت میں کوئی دعاقبول نہ ہوئی تو انہوں ضد لگا لی اور وہ منکر بن گئے۔ یہ فیصلہ صحیح تھا؟ کیا اس سے کوئی فرق پڑا؟ نہیں بلکےاس سے ہم اور تنہاء ہوگئے ہمیں کیا کرنا چاہیے ہمیں فوراٙٙ اپنے رب سے رجوع کرنا چاہیے ہم ابن آد مر ہیں ہر خطا کار ہیں پر ہم نے اس گڑھے میں گرے نہیں رہنا۔ ہم نے اپنے اصل کی طرف دوڑنا ہے اور اگر واپسی کے قدم لینا مشکل لگ رہا ہے۔ نا امیدی کے اندھیرے بڑھ گئے ہیں تو یہ بات یاد رکھیے گا ہماری ہر آتی جاتی سانس اس بات کی ضامن ہے کہ ابھی مہلت باقی ہے اور ہمارا رب ہمارا منتظر ہے ہم نے پلٹنا ہے اور اس نے ہمیں تھام لینا ہے۔ وہ رب ذاالجلال ہے۔ وہ آپکو آپکی خطائیں نہیں گنوائے گا وہ آپکو ڈھانپ لے گا۔ جب ہمارے منہ پھیرنے پر اس نے ہم پر اپنی رحمت کے دروازے بند نہیں کیے تو اب کیسےممکن ہے کہ وہ اپنے بندے کی واپسی پر اسے تھامے نا۔۔۔۔
یاد رکھیں ہماری دعائیں اللّه سے جڑنے کا ایک ذریعہ ہیں
ہماری دعائیں کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہیں جس سے یہ دنیا جنت بن جائے۔ یہ دنیا آزمائشوں سے بھری ہوئی ہے۔جو لوگ ہم سے بہت اچھے تھے زندگی میں مشکلات ان لوگوں کے بھی تھیں۔

البلد 90:4
لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡ کَبَدٍ ؕ﴿۴﴾

یقیناً ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔
ہم نے تمام انسانوں کو محنت اور مشقت اور جدوجہد میں پیدا کیا۔آزمائش،جدوجہد،پریشانیاں،مشکلات زندگی کا ایک حصہ ہیں۔ دعا کا مقصد یہ ہے کہ آپکو اور مجھے ان جدوجہد سے نمٹنے میں مدد ملے اور یہ کبھی نہ بھولیں کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے چاہے وہ مشکل وقت ہو یا آسان۔۔۔
اس امید کے ساتھ کہ اللّه ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

وَاخِرُ دَعْوَنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعُلَمِينَ
 

Anam Misbah
About the Author: Anam Misbah Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.